جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے قائم مقام چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کو خط لکھا ہے جس میں انہوں نے از خود نوٹس کے دائرۂ اختیار اور تعین کے لیے قائم بینچ پر اعتراض اٹھا دیا۔
اپنے خط میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ 5 رکنی لارجر بینچ بنانے سے قبل 2 رکنی بینچ کو آگاہ نہیں کیا گیا، آئینِ پاکستان میں سپریم کورٹ کے مختلف دائرۂ اختیار درج ہیں، سپریم کورٹ کا دائرۂ اختیار نہیں کہ اپنے ہی بینچ کے امور کی مانیٹرنگ کرے۔
انہوں نے خط میں کہا ہے کہ 5 رکنی معزز بینچ کو یہ مقدمہ سننے کا اختیار ہی نہیں، 5 رکنی لارجر بینچ نے سماعت جاری رکھی تو یہ آئین سے تجاوز ہو گا، کوئی بھی شہری معلومات تک رسائی یا اظہارِ رائے کی آزادی کی بات کر سکتا ہے، میرے بینچ نے جو اعتراضات کیئے ان پر کسی حکومتی فریق نے اعتراض نہیں کیا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے خط میں کہا ہے کہ رجسٹرار سپریم کورٹ جو سرکاری ملازم ہے خود کو منصف اور آئینی ماہر سمجھتا ہے، رجسٹرار سپریم کورٹ نے فوری طور پر نوٹس لیا اور 6 صفحات پر مشتمل نوٹ چیف جسٹس کو بھجوا دیا، ایک بینچ کا دوسرے بینچ کی مانیٹرنگ کرنا غیر آئینی ہے۔
قائم مقام چیف جسٹس کو لکھے گئے خط میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا ہے کہ رجسٹرار سپریم کورٹ اس سے قبل وزیرِ اعظم آفس میں کام کرتے رہے ہیں، رجسٹرار سپریم کورٹ کو حکومت سے ادھار کے طور پر لیا گیا، رجسٹرار سپریم کورٹ کو لانے کا مقصد حکومتی دلچسپی کے مقدمات فوری فکس کرنا تھا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے خط میں یہ بھی کہا ہے کہ ایک مرتبہ نامعلوم نمبر سے وصول واٹس ایپ میسج پر از خود نوٹس لیا گیا، واٹس ایپ از خود نوٹس کی وجہ سے قومی خزانے کو 100 ارب روپے کا نقصان ہوا، پاکستان کا ہر شہری آزادیٔ صحافت کے لیے اسٹیک ہولڈر ہے، اس خط کی کاپی سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر اپ لوڈ کی جائے۔