• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہر جج نوٹس لیکر پارٹیز کو بلائے تو 17 سپریم کورٹ ہوجائینگے، اعتزاز احسن

کراچی (ٹی وی رپورٹ)ماہر قانون اعتزاز احسن نے کہاہے کہ ہر جج نوٹس لے کر اس پر آرڈر کرنا شروع کردے پارٹیز کو بلانا شروع کردے پھر تو سترہ سپرم کورٹ ہوجائیں گے،ماہر قانون لطیف آفریدی نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں ججز بھی اسی معاشرے کا حصہ ہیں اور موجودہ معاشرے سے آپ اچھی طرح واقف ہیں بہرحال ہمارے ہاں جو نہ نظر آنے والی طاقتیں ہیں وہ بھی اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے ایک انٹرویو میں کیا۔ماہر قانون اعتزاز احسن نے کہا کہ میں ابھی بھی یہی کہوں گا ازخود نوٹس کوئی بھی جج لے سکتا ہے لیکن بنچ بنانے کا اختیارچیف جسٹس آف پاکستان کا ہے ۔ یہ کہہ دینا کہ ایک کام ایک جج کرسکتا ہے دوسرا نہیں کرسکتا یہ درست نہیں ہے کیوں کہ تمام ججز برابر ہیں ہاں یہ کہنا کہ چیف جسٹس سارے پراسیس کو ریگولیٹ کرسکتا ہے فی الحال جو مروج ضابطے ہیں ان کے بارے میں یہ بالکل ٹھیک اسٹیٹمنٹ ہے اگر ایسا ہو کہ ہر جج نوٹس لے کر اس پر آرڈر کرنا شروع کردے پارٹیز کو بلانا شروع کردے پھر تو سترہ سپرم کورٹ ہوجائیں گے، نوٹس لینے سے مراد یہ ہے کہ اگرکوئی جج دیکھتا ہے نوٹس کرتا ہے وہ ازخود نوٹس کرسکتا ہے لیکن وہ سن نہیں سکتا اس کو نوٹس جاری کر کے وہ متعلقہ محکمے کو فائل بھیجے گا چیف جسٹس کو اس کے بعد دیکھنا ہے کہ کونسا بنچ سماعت کرے گا فیصلہ کرے گا یہ جج کے اختیار میں نہیں ہے کہ ساتھ ہی آرڈر کردے کہ یہ کیس آپ نے چھبیس تاریخ کو میرے سامنے لگانا ہے اس طرح کہے کہ میں نے سننا ہے یا فیصلہ کرنا ہے تو سترہ سپریم کورٹ ہوجائیں گے ایک جج کہہ رہا ہو گا یہ ہونا چاہیے دوسرا کہے گا میری رائے یہ ہونا چاہیے تو ایسا نہی ہوسکتا۔ چیف جسٹس ہی اتھارٹی ہیں ۔موجودہ حالات ادارے کے لیے نقصان دہ ہیں عدالت کو چاہیے معاملات چیمبر میں رکھیں ۔ اُن کا خیال ہے چیف جسٹس کر نہیں سکتا میں اس بات سے متفق ہوں کہ چیف جسٹس کو نہیں کرنا چاہیے ، ایک Collegium بننا چاہیے جو کیسز کو فکس کرے اس میں سپریم کورٹ کے تین سنیئر ججز ہونے چاہئیں لیکن وہ رول نہیں بنا رول کوئی ایسا نہیں ہے اس لیے چیف جسٹس نے اگر بنچ بنایا ہے یا ایکٹنگ چیف جسٹس نے بنایا ہے عمر عطا بندیال نے تو بالکل ٹھیک کیا ہے۔افتخار چوہدری کے کیس میں چار مرتبہ ایکٹنگ چیف جسٹس بھگوان داس نے کیا تھا۔ماہر قانون لطیف آفریدی نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں ججز بھی اسی معاشرے کا حصہ ہیں اور موجودہ معاشرے سے آپ اچھی طرح واقف ہیں بہرحال ہمارے ہاں جو نہ نظر آنے والی طاقتیں ہیں وہ بھی اپنا کردار ادا کرتے ہیں، قاضی فائز عیسیٰ کا سلسلہ فیض آباد دھرنا اور کوئٹہ کے وکیلوں کے کیس میں بہت بولڈ فیصلے دئیے ہیں اور اسٹبلشمنٹ اس کو ہضم نہیں کرپاتی اور ان کا سوچنا یہ ہے کہ جب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ چیف جسٹس بنیں گے تو اُن کا کیا ہوگا۔ میں نے کھل کر سب کا نام لیا ہے اسٹبلشمنٹ کا بھی لیا ہے۔ جسٹس قاضی فائز نے جوازخود نوٹس لیا پہلے دو ججوں کے بنچ نے اس میں کوئی بنیادی بڑی غلطی نہیں تھی لیکن عام طور پر غالب پریکٹس یہ ہے کہ اگر ازخود نوٹس لے لیتے ہیں تو چیف جسٹس اس کے لیے بنچ بناتا ہے اصل میں رولز میں ابہام ہے آرٹیکل 191 کے تحت سپریم کورٹ اپنے لیے رول بنا سکتی ہے تو آپ رول بنائیں۔اس سے اندازہ کریں کہ اس قسم کے کیسز پہلے بھی موجود تھے جس میں چیف جسٹس سپریم کورٹ نے بنچ نہیں بنایا فیض آباد دھرنے والے کیس میں اس سے ہٹ کے خود سپریم کورٹ نے ہمیں پیپر بک دی تھی بھگوان داس نے اس قسم کے کیس میں نوٹس لیا تھا اور وہ بھی بہت سے کیسز ہیں دو قسم کے کیسز ہیں جو نوٹس لے کر چیف جسٹس بنچ بنا دیتے ہیں اور ریفر کرتے ہیں اور ایسے کیسز جو بغیر چیف جسٹس سے براہ راست بنچ کوئی نوٹس لیتے ہیں۔یہ پریکٹس بھی سپریم کورٹ میں رہی ہے کہ بنچ خود نوٹس لیتا رہا ہے ،چیف جسٹس ایڈمنسٹرٹیو ہیڈ ہے ادارے کا اور یہ بنچ بنانے کا اختیار اسی کا ہونا چاہیے تاکہ افرا تفری اور الجھاؤ سے بچا جاسکے۔

تازہ ترین