• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کو اپنے ٹھوس بیانیے کے حوالے سے ایک منظم سازش کے تحت نشانہ بنایا جا رہا ہے جس پر وہ طویل عرصے سے کام جاری رکھے ہوئے ہے۔ ا س منفی پروپیگنڈہ کی وجہ سے پاکستان کے بارے میں شدید غلط فہمیاں پیدا ہوئی ہیں اور اسے ہدف تنقید بنایا جاتا رہا ہے۔

دیگر عوامل کے ساتھ ساتھ افغانستان کے معاملات میں پاکستان کا کردار بھی ہمیشہ سے زیر بحث رہا ہے جو محض مفروضوں پر مبنی ہے تاہم ان مذموم ہتھکنڈوں اور کوششوں کے باعث بہرحال کئی تحفظات و خدشات نے جنم لیا ہے۔ کبھی پاکستان پر طالبان کی سرپرستی کا الزام لگایا گیا تو کبھی محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرنے کا ، دہشت گردوں کی سرحد پار نقل و حرکت میں سہولت کار کا کردار ادا کرنے ، افغانستان پر فوجی قبضے کی حمایت کرنے ،افغان امن عمل کے لئے خاطرخواہ کردار ادا نہ کرنے اور عسکریت پسندوں کو کشمیر کی طرف بھیجنے جیسے مختلف قسم کے بھونڈے الزامات بھی عائد کئے گئے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ان مفروضوں اور من گھڑت کہانیوں کے بجائے اصل حقائق کا باریک بینی سے جائزہ لیا جائے۔

یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ پاکستان کو اپنی مغربی سرحد پر ہمیشہ سے ہی ایک جارح پڑوسی کا سامنا رہا ہے۔ یہ دشمنی اتنی گہری اور شدید رہی ہے کہ افغان حکمرانوں نے بھارت کے ساتھ ساز باز کرکے پاکستان کے اندر بھرپور دہشت گردانہ کارروائیاں کیں،کالعدم تحریک طالبان پاکستان ایک ایسی تنظیم ہے جسے افغانستان اور بھارت کے گٹھ جوڑ نے انتہائی مکارانہ طریقے سے استعمال کیا۔پاکستان کی مسلح افواج کو ان دہشت گرد تنظیموں اور گروپوں کا قلع قمع کرنے کے لئےپاکستا ن نے عسکریت پسندوں کی سرحد کے آرپار آمدورفت کو روکنے کے لئے مخلصانہ اور سنجیدہ کاوشیں کی ہیں تاہم افغانستان نے ایسی کوششوں کا ساتھ دینے میں ہمیشہ ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا ۔ اسی لئے پاکستان سرحد پر باڑ لگانے پر مجبور ہوا جس کا تقریباً 90 فیصد کام مکمل ہو چکا ہے جبکہ باقی بھی جلد مکمل ہو جائے گا۔

وزیراعظم عمران خان واحد عالمی لیڈر تھے جو روز اول سے یہ کہہ رہے ہیں کہ افغان مسئلے کا کوئی فوجی حل نہیں۔ تقریباً 15 برس تک وہ مذاکرات شروع کرنے کی التجا کرتے رہے تاکہ تباہ کن جنگ کا خاتمہ ہو سکے۔ بالآخر گزشتہ برس امریکہ طالبان کے ساتھ بات چیت کرنے پر راضی ہوا اور پاکستان نے مذاکرات کی راہ ہموار کرنے میں اہم کردار ادا کیا جس کے نتیجے میں دوحہ معاہدہ طے پایا جس نے افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کو ممکن بنایا۔ پاکستان کی جانب سے متعدد بار درخواستوں کے باوجود کہ افغانستان سے انخلاکو بین الافغان مذاکرات میں خاطر خواہ پیشرفت کے ساتھ مشروط کیا جائے، امریکہ نے عجلت کا مظاہرہ کیا جس کے نتیجے میں بڑا خلا پیدا ہو گیا۔ افغان نیشنل آرمی کی جانب سے لڑائی سے انکار کے بعد طالبان نے تیزی کے ساتھ آگے بڑھتے ہوئے افغانستان کا کنٹرول سنبھال لیا۔امریکی افواج کے انخلا کی حتمی ڈیڈلائن 31 اگست ہے جو افغانستان پر طالبان کے مکمل کنٹرول کی راہ ہموار کرے گی۔ امریکہ عملی طورپر افغانستان کو اسی مقام پر چھوڑ کر جا رہا ہے جہاں 20 برس قبل اس نے جنگ کا آغاز کیا تھا جب افغانستان میں طالبان کی حکومت تھی۔

یہ الزام بھی سراسر گمراہ کن ہے کہ پاکستان امن عمل کیلئے خاطرخواہ کام نہیں کر رہا۔ یہ پاکستان ہی تھا جس نے طالبان اور امریکی حکام کے درمیان بات چیت کے لئے راہ ہموار کرنے میں سہولت کار کا کردار ادا کیا ۔ شومئی قسمت کہ امریکہ کے منتخب کردہ لوگ اشرف غنی کی قیادت میں صرف لوٹ کھسوٹ کے قائل رہے۔ فروری 2020میں امریکہ اور طالبان کے درمیان معاہدے کو حتمی شکل دینے کے بعد بھی وہ اپنے رویے میںلچک پیدا نہ کر سکے اور ایک ایسا ماحول بنانے میں ناکام رہے جو امن قائم کرنے کے لئے سازگار ہوتا۔ افغانستان میں بگڑتے حالات کی ذمہ داری امریکہ اور اس کے مسلط کردہ حکمرانوں پر عائد ہوتی ہے۔

اگر افغانستان میں شکست کی وجوہات کو سمجھنا مقصود ہے تو کسی کو بھی افغانستان کی تعمیرنو کے خصوصی انسپکٹر جنرل (سگار) کی دستاویزات ضرور پڑھنی چاہئیں۔ افغانستان مختلف قسم کی پیچیدگیوں میں گھر چکا تھا جس میں حکمرانی کے پورے ڈھانچے میں بدعنوانی سے لے کر مشن کے گول پوسٹس کی مسلسل تبدیلی، افغان ثقافت کو تبدیل کرنے کی ناقص حکمت عملی ،ایک نااہل ،غیرمنظم اور غیر تربیت یافتہ قومی فوج میں لڑنے کے لئے حوصلہ نہ ہونا۔ ایک ایسی قیادت جسے ہمیشہ یہ خوف کھائے جاتا تھا کہ امریکہ کے چلے جانے کے بعد انہیں قیادت سے بیدخل کر دیا جائے گا۔ افغان عوام کے ساتھ کئے گئے وعدوں کا پورا نہ ہونا اور سب سے افسوسناک امر یہ کہ جب افغان صدر اشرف غنی کو مشکل وقت آنے پر اپنے لوگوں کی قیادت کرنی چاہئے تھی تو انہوں نے ڈالروں سے بھرے بیگ لے کر ملک سے نکلنے کو ترجیح دی،یہ وہ عوامل ہیں جو اِس پسپائی کی وجہ بنے۔

بھانت بھانت کی بولیوں اور زہریلے پروپیگنڈے کے باوجود پاکستان مختلف شراکت داروں کو مفاہمت پر راضی کرنے کے لئے کوشاں ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ افغانستان میں ایسی قابل قبول حکومت تشکیل دی جا سکے جہاں انسانی حقوق ، آزادی اظہار رائے ،خواتین کو تعلیم کے حصول اورملازمت کرنے کی مکمل آزادی حاصل ہو۔ افغانستان کے موجودہ حالات کا تقاضا ہے کہ پاکستان کو مذموم مقاصد کے حصول کیلئے تنقید کا نشانہ نہ بنایا جائے بلکہ جنگ سے تباہ حال ملک کی بحالی اور پائیدار قیام امن کو یقینی بنانے کے لئے درپیش چیلنجزسے نمٹنے کے لئے عملی کردار ادا کیا جائے۔

تازہ ترین