• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اِن دِنوں بلھے شاہ کا 264 واں عرس جاری ہے۔ یقیناً وہ دن بہت مبارک اور کرامت والا ہو گا جس دن پنجاب کی سرزمین پر عظیم صوفیانہ روایات کے حامل صوفی، فلسفی، گیانی اور آفاقی سچائیوں کے پرچارک بلھے شاہ نے جنم لیا۔ بلھے کی شاعری، فکر اور عمل کسی ایک مضمون یا کالم کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ ایک صوفی جو تشکیک کا بانی ہو، جس کا ہر لمحہ جمال اور کمال کی دھن پر محوِ رقصاں ہو، جو زمانے کے ہر کیدو کے لئے للکار ہو، جس کی شاعری کا ڈھانچہ جمالیات اور ملامت سے مزین ہو۔

وہ سوال جو ابھی تک بڑے بڑے فلسفیوں اور گیانیوں کی چوکھٹ پر ہاتھ باندھے کھڑے تھے، بلھے نے انہیں سنا، سمجھا اور کھوجنا شروع کر دیا۔ اس کا پہلا سوال اپنی ذات سے تھا، اپنے باطن سے تھا۔ یہ سوال اپنی پہچان اور تشخص سے متعلق تھا کیونکہ خود سے آشنائی کے بعد آنکھ کے آئینے میں جنم لینے والا منظر یوں مشکوک ہو گیا کہ اندر باہر گڈمڈ ہو گیا۔ دل میں براجمان ہستی ہر شے میں ہویدا تھی۔ پھر جسم کا پنجرہ، خول اور علیحدہ تشخص کیا معنی رکھتا تھا اس لئے اس نے نسلِ انسانی کی تمام موجود تاریخ کی نیکوکار اور جابر ہستیوں میں خود کو تلاشنا شروع کیا لیکن گتھی کا سراغ نہ مل سکا۔ میں کون ہوں، کیا میری الگ ہستی وجود رکھتی ہے یا میں کسی کا پر تو ہوں۔ اگر میری الگ ہستی موجود ہے تو میرے اختیار کا دائرہ کہاں تک ہے جبکہ میں تو اتنا بے اختیار ہوں کہ جس نام سے پہچانا جاتا ہوں، جس نام پر اِتراتا ہوں وہ بھی میرا انتخاب نہیں، وہ بھی میں نے نہیں رکھا۔وہ گلی گلی ڈھنڈورا پیٹتا رہاپھر لمبی ریاضت کے بعد گیان کی وہ سطح نصیب ہوئی جہاں سارے آفاق کی رنگا رنگی، نسلوں، مذہب، قوموں، زبانوں، شکلوں، ناموں اور عقیدوں کے اختلافات اور تضادات ایک پردہ ثابت ہوئے۔ انسان کے پاس اس پردے کو ہٹانا اور حقیقی محبوب کا دیدار کرنے کی صلاحیت موجود تھی۔

بلھے نے سب سے پہلے ان ظاہر پرستوں کو للکارا جو پردہ ہٹا کر محبوب کا دیدار کرنے کے بجائے پردے کی آڑ میں اپنے من میں موجود خواہشات، مفادات اور آرزوئوں کو عبادت میں سمو کر خود کو دھوکہ دے رہے تھے، بلھے نے ایسی راتوں کے جگ رتے کو مال کی رکھوالی کرنے سے تعبیر کیا، عبادت اور عشق کی رمز سمجھائی، عبادت کے مکتب میں عشق کو نصاب بنانے کی بات کی۔ محبوب کو پانے کے لئے دل کے صحن میں جھانکنے کی صلاح دی، پھر الف اور اک کو سمجھنے پر زور دیا۔ الف (ا) اور اک (1) ایک ہی طرح لکھا جاتا ہے، دونوں کا رخ اوپر کی طرف ہے۔ پھر اس نے سب سے چھوٹے ہندسے نقطہ (.) پر بات ختم کی جس کو تقسیم نہیں کیا جا سکتا اور یہی حقیقت ہے۔

لوگوں کے ظاہر اور باطن میں تضاد نے بلھے کو ملامت کی طرف راغب کیا، وہ ماتھے پر اچھائی کے لیبل لگا کر معصوم لوگوں کو تنگ کرنے والے ظاہر پرستوں کے خلاف ڈٹ گیا اور کہہ رہا تھا۔

راتیں جاگیں کریں عبادت راتیں جاگن کتے

بلھے کی سوچ ایک کی طلب ہے۔ نقطے (.) کی سمجھ ہے اور الف (ا) کا ادراک ہے۔ اور جب یہ سب سمجھ آجائے تو پھر ہر لمحہ عبادت بن جاتا ہے پھر انسان گہری نیند نہیں سو سکتا اس لئے وہ کہتے ہیں

اٹھ جاگ گھراڑے مار نہیں

ایہہ سون تیرے درکار نہیں

انسانی روح ایک نوجوان لڑکی ہے جس نے رخصت ہو کر پیا گھر جانا ہے۔ اس کافی میں انسان کی پوری کہانی موجود ہے، مٹی کے جسم نے مٹی میں مل جانا ہے، اسے کیڑوں مکوڑوں کی خوراک بننا ہے اس لئے رخصتی سے پہلے محبوب کا پسندیدہ جہیز تیار کرنا ہے۔ اگر غفلت کی نیند سو کر بے عملی میں عمر گزار دی، چرخے کو ہاتھ نہ لگایا، سائیں سے غافل رہی تو کیسے اس کی محبت پاؤ گی۔ روح کا یہ سفر بہت مشکل سفر ہے۔ اس میں میدان، دریا، پہاڑ، جنگل، صحرا، سمندر اور کانٹوں بھرے رستے ہیں جن سے گزر کر جانا ضروری ہے۔ وہ اسے یاد دلاتے ہیں کہ یہاں کتنے بڑے بڑے سلطان، سکندر، پیام بر آئے، یوسف جیسے خوبصورت آئے، زلیخا کو جوانی اور محبت عطا ہوئی مگر پھر اسے بھی یہ محبت چھوڑ کر ازلی کی لو لگی، کیا تم نے تختِ سلیمان کا قصہ نہیں پڑھا۔ بڑے لشکر والوں کے غرور کی عبرت نہیں دیکھی۔ پھر تمہیں کیوں احساس نہیں۔ اگر آج غفلت میں سو کر زندگی گزار دو گی تو پھر پچھتانا تمہارا مقدر بن جائے گا۔ یاد رکھو وہاں تمہارے ساتھ کھیلنے اور تمہارے دکھ درد سننے کے لئے کوئی نہیں ہو گا اس لئے جاگو، سوچو اور عمل شروع کر دو کیونکہ تمہیں یہ کردار نبھانے کے لئے دوسرا موقع نہیں دیا جائے گا۔ اس لئے چرخہ کاتنے یعنی عمل کی طرف دھیان کرو۔

فیر آون دوجی وار نہیں

اٹھ جاگ گھراڑے مار نہیں

آج تقسیم در تقسیم نسلِ انسانی کو بلھے کی شاعری کا پیغام سمجھنے کی ضرورت ہے تا کہ انسانیت پنپ سکے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین