• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جمہوری عمل کی بقا کے لئے جمہور کی فلاح و ترقی کو پیشِ نظر رکھناازبس ضروری ہے۔ یہ درست ہے کہ ایک جمہوری بندوبست میں منتخب حکومت کا کردار بنیادی حیثیت رکھتا ہے مگر حزب اختلاف کی اہمیت سے انکار بھی ممکن نہیں۔ یہ منتخب حکومت کی ذمہ داری ہے کہ اگر حزبِ اختلاف ایک رُکن پر بھی مشتمل ہو تو فیصلہ سازی کے عمل میں اسے بھی اعتماد میں لیا جائے۔ ماضی میں قومی اسمبلی کی پبلک اکائونٹس کمیٹی (پی اے سی) کےسربراہ کی تعیناتی پر حکومت اور اپوزیشن میں اختلافات ابھرے جنہیں بعدازاں اپوزیشن رہنما میاں شہباز شریف کو پی اے سی کا سربراہ بنا کر ختم کیا گیا۔ صوبوں میں یہ معاملہ مگر جوں کا توں رہا اور ہر صوبائی حکومت نے اپنے ہی امیدوارکو پی اے سی کا سربراہ بنا یا۔ یہ غیرجمہوری طرزِ عمل جمہوریت کے لئے نہایت ضرر رساں ہے۔ وزیراعظم عمران خان نےاپوزیشن لیڈر شہباز شریف کو اگلے روز الیکشن کمیشن آف پاکستان میں اراکین کی خالی نشستوں پر تقرری کے لئے خط لکھ دیا ہے اور جواب جلد دینے پر بھی زور دیا ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے آئین کے آرٹیکل 213 اور 218 کے تحت یہ خط لکھا ہے۔ حکومت کی جانب سے پنجاب اور خیبرپختونخوا کے لئے تین تین نام تجویز کیے گئے ہیں جن کی تعیناتی کے لئے اپوزیشن کا متفق ہونا ضروری ہے۔ قانون کے مطابق، الیکشن کمیشن آف پاکستان کی کوئی بھی نشست 45 دن سے زیادہ خالی نہیں رہ سکتی ۔ خیال رہے کہ کچھ عرصہ قبل ہی وزیراعظم عمران خان اور اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کے درمیان سندھ اور بلوچستان سے الیکشن کمیشن کے اراکین کی تقرری کا معاملہ ایک سال تک التوا کا شکار رہا تھا۔ امید ہے کہ اس بار ایسی صورتِ حال پیدا نہیں ہو گی جب کہ حکومت بھی تمام اہم معاملات پراپوزیشن سے مشاورت کرکے ہی کوئی فیصلہ کرے گی کیوں کہ اس وقت ملک مزیدسیاسی بحرانوں کا متحمل نہیں ہو سکتا۔

تازہ ترین