• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہوچکی ہے اور طالبان نے عام معافی کا اعلان کرتے ہوئے ملک کی ترقی اور بحالی کیلئے رابطے شروع کردیئے ہیں، ملک میں تعلیم کی ترویج کے عمل کو جاری رکھنے کے احکامات بھی جاری کر دئیے گئے ہیں۔ قوی امید ہے اور اللہ رب العزت پر ایمان ہے کہ طالبان کی حکومت نہ صرف افغانستان بلکہ پورے خطے میں پاکستان کانمایاں کردار منوانے میں اپنا کلیدی کردار ادا رکرتی ہوئی دکھائی دے گی۔دنیا طالبان کی افغانستان کے اقتدار میں واپسی پر اس قدر پریشان ہے جیسے کوئی ان کے ملک کا اقتدار چھین رہا ہو جبکہ طالبان نے تو محض اپنا اقتدار واپس لیا ہے ، اگر ہم پچھلے20سال کا تجزیہ کریں تو معلوم ہوگاکہ شروع کے کچھ سال طالبان نے کم مزاحمت کی، اس کے بعد تو صورتحال ایسی دکھائی دی کہ طالبان جب چاہتے کابل پر قبضہ کرسکتے تھے۔ کیا یہ اس بات کی گواہی نہیں ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے صرف اپنے ممالک کی دولت اوراپنے فوجیوں کی قیمتی جانیں ضائع کروائی ہیں۔ خصوصی طور پر امریکی اور عمومی طور پر دیگر اتحادی ممالک کے عوام کو اپنے اربابِ اختیار سے ان20 برسوں کا حساب لینا چاہئے۔ بہت سارے ممالک کے داخلی معاملات افغانستان سے بھی بد تر ہیں لیکن کیا کسی دوسرے ملک یا بیرونی طاقت کو مداخلت کی اجازت دی جاتی ہے۔ طالبان کی پریشانی پاکستان یا ہندوستان تک محدود نہیں بلکہ یہ براعظموں تک پھیلی ہوئی محسوس کی جارہی ہے۔ جیسے دنیا پر آفاقی نظام حکومت قائم ہونے جارہا ہے جس کے داعی یہ طالبان ہیں۔

طالبان نے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو لگ بھگ 20سال کا عرصہ دیا کہ وہ افغانستان کو اپنے بس میں کرلیں اور جیسانظام نافذ کرنا چاہتے ہیں کرکے دیکھ لیں لیکن واضح دکھائی دے رہا ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادی سوائے عمارتوں کی تعمیر اور تھوڑے بہت ترقیاتی منصوبوں کے افغانستان میں کسی بھی قسم کی تبدیلی نہیں لاسکے اور افغان سوچ کو تبدیل کرنے میں ناکام رہے ہیں اور سوچ کو بدلنے کے اِس شوق نے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کواتنا نقصان پہنچایا ہے کہ ان کی معیشت کو سنبھلنے میں کئی برس لگیںگے، افغانستان ایسے مستقل مزاج لوگوں کی آماجگاہ ہے جو کسی کو قبضہ کرنے کا شوق پورا نہیں کرنےدیتے یا پھر اپنی طاقت آزمانے کیلئے دشمن کو نرغے میں لے لیتے ہیں، صورت کوئی بھی ہوشکست، نقصان اور ذلت قابضین کے حصے میں ہی آتی رہی ہے۔ بلاشبہ افغان طالبان اور امریکہ کے مابین طے پانے والا امن معاہدہ جری و بہادر، غیور،جذبہ جہاد سے لبریز افغانی طالبان اور پاکستان کا مر ہون منت ہے کہ قبل ازیں اسی خطے میں اس وقت کی ایک بڑی طاقت سوویت یونین کا تکبر اور غرور خاک میں ملا دیا گیا تھا۔آج 20سال بعدجدید ٹیکنالوجی و مہلک جنگی ہتھیاروں سے لیس اقوام عالم کی نمبر ون عسکری و فوجی قوت کو سنگلاخ چٹانوں اور پہاڑوں میں دھول چٹوا دی۔یہ وہی امریکہ ہے جس نے نائن الیون کا بہانہ بنا کر ایک مفلوک الحال غریب ملک کو تر نوالہ سمجھ کر ہضم کرنا چاہا اور نام نہاد دہشت گردی کی جنگ کو جواز بنا کرنہتے و مظلوم شہریوں کوبربریت کا نشانہ بناڈالا۔ افسوس دنیا کی تمام قوموں کے محافظ اور ان کے حقوق کی پاسداری کرنے والے اقوام متحدہ سمیت دیگر عالمی اداروں نے بھی ظلم ڈھانے میں پورا پورا ساتھ دیا۔نائن الیون کے بعد نام نہاد سپر پاور نے افغانستان پر فوجی چڑھائی کردی اور ظلم و بربریت کی انتہا کرتے ہوئے طالبان کا بڑے پیمانے پر قتل عام کیا گیا۔ وہی طالبان ہیں جنہیں جب کابل سے نکالا جارہاتھا تو طرح طرح کے ہتھکنڈے استعمال کئے گئے اور آج طالبان کتنی امن پسندی کیساتھ 20سال بعد امن اور صلح کے پیغام کے ساتھ کابل میں داخل ہوئے ہیں۔

دنیا یہ سمجھ رہی ہے کہ امریکہ نے اتنے ملین اتنے ٹریلین ڈالر لگا کر افغانستان سے پسپائی اختیار کی ہے۔ یہ لوگ غالباً یہ بھول گئے ہیں کہ یہی امریکی 800بلین ڈالر کی منشیا ت ہر سال افغانستان سے نکال کر لے جاتے رہے ہیں جو کسی کو پتہ نہیں ہے، پوری دنیا کا غیرقانونی دھندہ اسی منشیات فروشی سے چل رہا ہے۔ 20سال میں اگر 800بلین ڈالرکا حساب لگایا جائے تو وہ نقصان جو امریکہ کا دکھایا جا رہا ہے وہ جانی تو بیشک ہے لیکن مالی نہیں ہے،شکست البتہ ان کے مقدر میں تھی اور یہ بدنما داغ ان کو دوبارہ لگا ہے جس کا انہیں دکھ ہے۔ پیسہ ان کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ پیسہ وہ خود نکال کر لے جا چکے ہیں۔ البتہ اس میں سب سے زیادہ سبکی بھارت کو ہوئی ہے، اس نے اپنے غریب عوام کے اربوں ڈالر افغانستان پر صرف پاکستان سے بدلہ لینے یا نقصان پہنچانے کے لئے لگائے۔ آج وہ زیرو ہو چکا ہے۔ آج مودی سرکارسے لوگ پوچھ رہے ہیں کہ تم نے اتنا پیسہ کیوں لگایا تھا؟

تازہ ترین