• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ تقریباً20ماہ سے جاری کورونا وائرس کی وجہ سےدنیا کے بیشتر ممالک کو معاشی و اقتصادی بحران کا سامنا ہے۔ دنیا بھر میں اب تک 20کروڑ افراد کورونا سے متاثر ہوئے ہیں، گزشتہ ڈیڑھ برس میں 47لاکھ افراد ہلاک ہوئے۔امریکہ میں تو کورونا کے روزانہ ایک لاکھ کیسزرپورٹ ہورہے ہیں جبکہ مرنے والوں کی تعدادساڑھے چھ لاکھ سے بڑھ چکی ہے۔ مرنے والوں کی تعداد روزانہسات آٹھ سو ہے۔ اسپین میں روزانہ تقریباً 16ہزار کیسز سامنے آرہے ہیں اور 60افرادہلاک ہورہے ہیں۔ برطانیہ میں کورونا کے کیسز روزانہ تقریباً 32ہزار ہیں جبکہ اموات کی شرح روزانہ 100کے قریب ہے۔ بیرون ملک کورونا سے متاثر وہلاک ہونے والوں کی شرح کاجائزہ لیا جائے تو ان کے مقابلے میںپاکستان میں روزانہ تقریباً4ہزار کے قریب لوگ متاثر ہورہے ہیں جبکہ اوسطاً60لوگ جان کی بازی ہاررہے ہیں۔ مجھے گزشتہ دنوں امریکہ جانے کا اتفاق ہوا، میں نے وہاں اپنے دس روزہ قیام کے دوران دیکھا کہ امریکہ ایسی سپر پاور میں بھی کورونا وائرس کا کوئی خوف نہیں پایا جاتا اور نہ ہی کوئی لاک ڈاؤن لگایا گیاہے، ماسک پہننے کی بھی پابندی نہیں، حکومتی سطح پر کوئی سختی نہیں، تما م ایئرپورٹس کھول دیے گئے ہیں، سیاسی و سیاحتی سرگرمیاں جاری ہیں جبکہ بیرونی دنیا سے سیاحوں کی آمد جاری ہے۔ کہیں بھی کورونا پی سی آر ٹیسٹ کی ڈیمانڈ دیکھنے میں نہیں آئی، سڑکوں پر موبائل لیبارٹریزکام کر رہی ہیں جہاں کووڈ 19کا ٹیسٹ کروانے کی بلامعاوضہ سہولت دستیاب ہے، ہر بندہ پرسکون ماحول میں کورونا ٹیسٹ کروا رہا ہے، ویکسین بھی لگوا رہا ہے اور اپنے روزمرہ کے معاملات بھی جاری رکھے ہوئے ہے۔ 35فیصد لوگوں نے اب تک کورونا ویکسین نہیں لگوائی جبکہ حکومت کی طرف سے ویکسین لگوانے کی ترغیب دینے کے لئے ہر شہری کو 100ڈالردیئے جار ہے ہیں۔ کورونا وائرس سے پیدا شدہ معاشی بحران کے باوجود امریکی حکومت نے مثبت رویہ اپنایا، کہیں کاروبار بند کیا نہ کسی شہری کا روزگار متاثر ہونے دیا،کاروبار زندگی رواں دواں ہے، بازاروں میں چہل پہل ہے، ائیرپورٹ، ریلوے اسٹیشنوں اور اجتماعات والی جگہوں پر تھوڑی پوچھ گچھ کی جاتی ہے لیکن زیادہ پریشان نہیں کیا جاتا۔ خاص بات یہ ہے کہ امریکہ میں اب کوروناوائرس کو عام بخار، نزلہ، زکام، انفلوئنزا کے طور پر ہی لیا جا رہا ہے۔ اس کے برعکس پاکستان میں کوروناوائرس کا خوف پیدا کر کے لوگوں کو ذہنی مریض بنایا جارہاہے۔ ’’لاک ڈاؤن‘‘ لگاکرلوگوں سے ان کا روزگار چھینا گیا۔ گھروں کے چولہے ٹھنڈے پڑ گئے، سیاحت کی حوصلہ شکنی کی جا رہی ہے، پارکس سمیت تمام تفریحی مقامات بند کر دیے گئے ہیں۔ ان دنوں بیرونِ ملک سے صرف 50فیصد پروازیں پاکستان آنے کی اجازت ہے۔ پاکستان آنے والوں کے لئے پی سی آرٹیسٹ کی شرط لازم قرار دی گئی ہے، اس کے ساتھ ساتھ ایک ایسی’’ ایپ‘‘ بھی متعارف کروا دی گئی ہے جس کے ذریعے کورونا وائرس ٹیسٹ اور ویکسینیشن کا ریکارڈ ہر بندہ خود سے رکھنے کا پابندبنایاگیا ہے جبکہ پاکستان میں عوام کی اکثریت’’ آن لائن سسٹم ‘‘یا ’’موبائل ایپ‘‘کے ذریعے اپنا’’ ڈیٹا‘‘ درج کرنے کے کام سے ہی نا آشنا ہے، کمپیوٹر پر اندراج کی شرط کی وجہ سے وطن واپس آنے والے پاکستانی ائیرپورٹس پر ذلیل و خوار ہو رہے ہیں۔ پاکستان واپسی پر ایئرپورٹ پر ہی دوبارہ کورونا ٹیسٹ کیا جاتا ہے جس میں کئی کئی گھنٹے لگ جاتے ہیں۔اس طرح انہیں اذیت ناک لمحات سے گزرنا پڑتا ہے پیسوں کا اضافی بوجھ اس کے علاوہ ہے۔ حالات کا تقاضا ہے کہ ملک کو موجودہ معاشی بحران سے نکالنے کے لئے مثبت رویہ اپنایا جائے، ہمیں لوگوں کو معمول کی زندگی کی جانب لانا ہوگا، ملک بھر میں کسی بھی قسم کا لاک ڈاؤن ختم کرنا ہوگا،سیاحت کو فروغ دینے کے لئے ہر قسم کی پابندیاں ختم کرنا ہوں گی۔ کورونا وائرس سے متعلق لوگوں کے ذہنوں میں پائے جانے والا خوف اور شکوک و شہبات ختم کرناہوں گے۔ عوام کوکورونا سے محفوظ رکھنے کے لئے ویکسین لگانے کا عمل بتدریج جاری رکھتے ہوئے ایک ایسی آگاہی مہم چلائی جانی چاہئے کہ لوگ بلا کسی خوف خود ویکسین لگوائیں۔ ویکسین لگانے کے لئے مختلف قسم کی پابندیاں عائد کرنا سراسر زیادتی ہے۔ عوام کو یہ باور کرانے کی ضرورت ہے کہ کورونا ہو یا کوئی اور بیماری، یہ زندگی کا حصہ ہیں، پرہیز اور احتیاط کے ساتھ ساتھ ان کا بروقت علاج لازم ہے۔ خوف زدہ ہونے یا کسی کو کرنے کی ضرورت نہیں۔

تازہ ترین