کابل، واشنگٹن(اے ایف پی، جنگ نیوز، خبرایجنسی)کابل میں امریکی ڈرون حملہ، 6ہلاک،2گاڑیاں، مکان تباہ، 4 بچے شامل، امریکی حکام کا کہنا ہے کہ ایئرپورٹ جانیوالے خودکش حملہ آور کی گاڑی کو نشانہ بنایا گیا، طالبان رہنمائوں نےکہا ہےکہ کل کے بعدغیرملکیوں کو افغانستان پر حملوں کا حق نہیں ہوگا، خواتین کو یونیورسٹی جانے کی اجازت ہے۔
سپریم لیڈر ہیبت اللہ اخوندزادہ قندھار میں ہیں، جلد سامنے آئینگے، 300امریکی اب بھی کابل میں، انخلاء کا امریکی آپریشن مکمل ہونے کے قریب، اقوام متحدہ کو افغانستان میں خوراک لےجانے کیلئے پاکستانی ایئرپورٹ کے استعمال کی اجازت مل گئی۔
غیرملکی میڈیا کےمطابق امریکی سینٹرل کمانڈ کے ترجمان بل اربن نےکہاہےکہ کابل ایئرپورٹ کو نشانہ بنانے کیلئے جانیوالے داعش کے کار سوار خود کش بمبار پر کابل میں ڈرون حملہ کیا گیاہے۔
امریکی سینٹرل کمانڈ کے ترجمان کا کہنا تھا کہ نشانہ بننے کے بعد گاڑی میں ہونے والے دھماکوں سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اس میں کافی مقدار میں بارودی مواد موجود تھا،ان کے مطابق اس وقت اس حملے میں کسی سویلین کے نشانہ بننے کی کوئی خبر نہیں تاہم افغان میڈیا کے مطابق حملے میں 6افراد ہلاک اور4زخمی ہوئے ،ہلاک ہونے والوں میں 4بچے بھی شامل ہیں۔
قبل ازیں سابق افغان حکومت کے ایک سکیورٹی عہدیدار نے اے ایف پی کو بتایا تھا کہ ایئرپورٹ کے قریب دھماکہ راکٹ حملہ تھا اور ’ابتدائی اطلاعات کے مطابق اس کا نشانہ ایک مکان بنا ہے۔‘
غیرملکی خبررساںادارے نے طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کے حوالے سے بتایا کہ امریکانے فضائی حملے میں ایک خود کش بمبار کی گاڑی کو نشانہ بنایا، حملہ آور کابل ایئرپورٹ کو نشانہ بنانا چاہتا تھا۔
دوسری جانب افغان طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان سہیل شاہین کا کہنا ہے کہ 31اگست کے بعد امریکا کو افغانستان میں ڈرون سمیت کسی بھی قسم کے حملے کرنے کا کوئی حق نہیں ۔جیو نیوز کے پروگرام نیا پاکستان میں گفتگو کوتے ہوئے سہیل شاہین کا کہنا تھا کہ 31 اگست کے بعد افغانستان میں کوئی حملہ کرے گا تو اسے روکیں گے۔
افغان طالبان کے نائب ترجمان بلال کریمی نے کہا ہےکہ طالبان کے سپریم لیڈر ہیبت اللہ اخوندزادہ ( جو طالبان کی افغانستان میں پیشقدمی کے بعد سے اب تک منظر عام پر نہیں آئے)افغانستان میں ہیں۔غیرملکی خبررساں ادارے کریمی نے بتایا کہ ’’میں تصدیق کر سکتا ہوں کہ وہ قندھار میں ہےاور جلد ہی عوام کے سامنےآئینگے‘‘، وہ شروع سے ہی وہاں موجود ہیں۔
اتوار کو طالبان کے قائم مقام وزیر تعلیم عبدالباقی حقانی نے کہا کہ افغان خواتین کو یونیورسٹی میں پڑھنے کی اجازت ہوگی لیکن ان کے دور میں مخلوط کلاسوں پر پابندی ہوگی،افغانستان کے لوگ مخلوط (مرد و خواتین ایک ساتھ) ماحول کے بغیر شرعی قانون کی روشنی میں اپنی اعلیٰ تعلیم جاری رکھیں گے۔
دوسری جانب امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے کہا ہے کہ قریب 300 امریکی شہری اب بھی افغانستان میں موجود ہیں جنہیں وطن واپسی کا انتظار ہے۔
غیرملکی میڈیا سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ہم اب 300 یا اس سے کم امریکیوں پر پہنچ گئے ہیں جو گراؤنڈ پر ہیں اور اس وقت میں بھی کام کر رہے ہیں تاکہ باقیوں کی واپسی ممکن ہوسکے۔
بلنکن کا کہنا ہے کہ کچھ امریکیوں نے فیصلہ کیا ہے کہ طالبان کی 31 اگست کی ڈیڈلائن کے بعد بھی وہ وہاں موجود رہیں گے لیکن وہ افغانستان میں پھنسنے والے نہیں ہیں،امریکا کے پاس ان کی واپسی کا بھی راستہ موجود ہے، انخلاء کا آپریشن مکمل ہونے کے قریب ہے۔
یہاں افغانستان کی بدلتی صورتحال کے پیش نظر اقوام متحدہ نے افغانستان میں فوڈ سپلائی کے لئے پاکستان سے مدد طلب کر لی جبکہ پاکستان کی سول ایوی ایشن اتھارٹی نے آپریشن کرنے کی مشروط اجازت دے دی، سول ایوی ایشن کے جانب سےجاری ہونے والے نوٹیفکیشن کے مطابق امدادی پرواز میں فوجی سامان لے جانا منع ہوگا۔
عالمی ادارہ خوراک کو فیس ادا کرنی ہوگی، کسی قسم کا اسلحہ اور کیمیکل پرواز میں نہیں جائے گا، جو امدادی سامان جائے گا اس کی تفصیلات دینی ہوگی،دو افراد پر مشتمل پرواز اسلام آباد سے روزانہ کابل کے لئے روانہ ہو گی، ایم 18 ہیلی کاپٹر کے ذریعے 6 افراد پشاور سے خوراک لے کر کابل جائیں گے۔
کابل تک خوراک کی ترسیل کے لئے طیاروں اور ہیلی کاپٹرز کا استعمال ہوگا ، افغانستان میں خوراک پہنچانے کے لئے اسلام آباد اور پشاور ایئر پورٹ کو استعمال کیا جائے گا ، امدادی سرگرمیوں کے لئے اقوام متحدہ فوڈ پروگرام نے پاکستان سے مدد مانگی تھی۔