• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ10مہینوں میں روپے کی قدر میں مسلسل کمی سے پاکستانی روپیہ ڈالر کے مقابلے میں 9فیصد گرکر 166روپے تک پہنچ گیا۔ گزشتہ سال 2020ء میں پاکستانی روپیہ، ڈالر کے مقابلے میں 32فیصد کمی سے 168روپے کی نچلی ترین سطح پر پہنچ گیا تھا لیکن اس سال روپیہ مستحکم ہونے کے بعد مئی 2021ء میں 152روپے کی سطح پر آگیا تھا۔ روپے کی قدر میں گزشتہ 3سے 4 مہینوں میں 14روپے کی کمی نے سٹے بازوں کو دوبارہ سرگرم کردیا ہے اور مارکیٹ میں ڈالر کی طلب میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ اسٹیٹ بینک کے گورنر ڈاکٹر رضا باقر نے کہا ہے کہ رواں مالی سال کے دوران کرنٹ اکائونٹ خسارہ جی ڈی پی کا 2سے 3فیصد رہنے کی توقع ہے جس کے پیش نظر پاکستانی روپے کی قدر میں کمی ایک نارمل عمل ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اسٹیٹ بینک گزشتہ حکومتوں کی طرح مصنوعی طریقے سے مارکیٹ میں ڈالر پھینک کر ڈالر کی طلب اور رسد کو کنٹرول نہیں کررہا جبکہ سابقہ حکومت میں مرکزی بینک کی براہ راست مداخلت سے ڈالر کی طلب روکنے کیلئے مارکیٹ میں ڈالر بیچ کر اس کی قدر کو ایک عرصے تک 98سے 102روپے تک رکھا گیا۔

پاکستانی روپے کی قدر میں کمی کی اہم وجوہات میں رواں مالی سال 14ارب ڈالر کے بیرونی قرضوں کی ادائیگیوں کا دبائو، 2020-21ء میں 30ارب ڈالر کا تجارتی خسارہ اور 1.85ارب ڈالر کا کرنٹ اکائونٹ خسارہ ہے جبکہ زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافے کے اہم ذرائع ترسیلاتِ زر، ایکسپورٹس، بیرونی سرمایہ کاری اور عالمی اداروں کی امداد کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ رواں مالی سال بیرون ملک پاکستانیوں کی جانب سے بھیجی جانے والی 29.37ارب ڈالر کی ریکارڈ ترسیلات زر، 1.85ارب ڈالرکی روشن ڈیجیٹل اکائونٹ میں سرمایہ کاری، ملکی ایکسپورٹس 25.63 ارب ڈالر جبکہ بیرونی سرمایہ کاری گزشتہ سال کے 2.6ارب ڈالر کے مقابلے میں 1.8ارب ڈالر رہی۔ اس کے علاوہ پاکستان انویسٹمنٹ بانڈز، جو حکومت بجٹ خسارہ پورا کرنے کیلئے استعمال کرتی ہے، میں اس سال جولائی میں پرکشش شرح منافع کے باوجود کوئی سرمایہ کاری نہیں ہوئی بلکہ 8.3ملین ڈالر نکل گئے جس کی وجہ سے بھی ڈالر کی طلب میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔

افغانستان میں موجودہ کشیدہ حالات کی وجہ سے بھی بیرونی سرمایہ کار پاکستان میں سرمایہ کاری سے گھبرارہے ہیں۔ حکومت کی تعمیراتی شعبے کو دی جانے والی ایمنسٹی اسکیم جو 30جون 2021ء کو ختم ہوگئی ہے ، اسکی وجہ سے بھی کافی ڈالر پاکستان آئے اور حکومت آئی ایم ایف سے اس اسکیم کی دسمبر 2021تک توسیع کی بات کررہی ہے تاکہ بیرون ملک سے اس شعبے میں آنے والی سرمایہ کاری جاری رہے۔ حکومت کی بیرون ملک سے کورونا ویکسین کی خریداری ، گندم اور چینی کی امپورٹ نے بھی ڈالر کی طلب میں اضافہ کیا ہے حالانکہ پاکستان کے موجودہ زرمبادلہ کے ذخائر 25ارب ڈالر سے زائد ہوچکے ہیں جن میں اسٹیٹ بینک کے 18ارب ڈالر اور کمرشل بینکوں کے 7ارب ڈالر شامل ہیں۔ اسکے علاوہ اگست میں آئی ایم ایف کے SDR کے نئے ایلوکیشن سے پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر میں مزید 2.8 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا ہے جس نے ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ کیا ہے لیکن اسکے باوجود بیرونی قرضوں اور سود کی ادائیگیاں ملکی خزانے اور پاکستانی کرنسی پر بڑا دبائو ہیں۔15مارچ 2021ء کو میں نے اپنے کالم میں ’’روپے کی قدر میں مسلسل اضافہ‘‘ میں بتایا تھا کہ خطے میں بھارت، انڈونیشیا، ملائیشیا، ترکی، تھائی لینڈ اور سری لنکا کی کرنسیوں کی ڈالر کے مقابلے میں قدر کم ہورہی ہے جبکہ پاکستانی روپے کی قدر میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے اور پاکستانی روپیہ ڈالر کے مقابلے میں 7فیصد، پائونڈ کے مقابلے میں 6.2فیصد اور یورو کے مقابلے میں 8فیصد مستحکم ہوا ہے جسکی وجہ سے پاکستانی کرنسی ایشیا کی مستحکم کرنسی بن گئی تھی لیکن آئی ایم ایف نے پاکستانی کرنسی کی قدر کو اوور ویلیو بتایا جس کی قدر میں آج 4مہینوں میں 9فیصدکمی دیکھنے میں آئی۔ اوور ویلیو روپے نے ملکی ایکسپورٹس کو متاثر کیا کیونکہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی کم ویلیو کی وجہ سے ایکسپورٹرز کو کم روپے ملے۔ ایک ایکسپورٹر ہونے کے ناطے یہ میرا عملی تجربہ ہے کہ روپے کی یکدم ڈی ویلیو ایشن کرنے سے ایکسپورٹر کو فائدہ نہیں ہوتا بلکہ خریدار ڈی ویلیو ایشن سے ہونے والا فائدہ ڈسکائونٹ کی شکل میں ایکسپورٹر سے مانگ لیتا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی پاکستانی روپے کی 5سے 10فیصد ڈی ویلیو ایشن کی گئی، ملکی ایکسپورٹس میں اضافہ نہیں ہوا بلکہ مہنگائی بڑھ جاتی ہے لہٰذامیں مارکیٹ میں ڈالر کی طلب اور رسد کے مطابق پاکستانی روپے کی قدر رکھنے کا حامی ہوں اور اس کی خلاف ہوں کہ پاکستانی روپے کی مصنوعی طور پر قدر اونچی رکھی جائے۔ میرے خیال میں روپے کی قدر مضبوط رکھنے کیلئے وہ تمام ذرائع جن میں ایکسپورٹس، ترسیلات زر، بیرونی سرمایہ کاری اور عالمی اداروں کی امداد شامل ہے، کو فروغ دے کر زرمبادلہ کے ذخائر کو مستحکم رکھا جائے جس سے روپے پر دبائو میں کمی آئے گی جبکہ ہمیں قرضوں کی ادائیگی، تجارتی اورکرنٹ اکائونٹ خسارہ اور زرعی اجناس کی امپورٹ کو بھی کنٹرول کرنا ہوگا۔ مجھے خوشی ہے کہ گورنر اسٹیٹ بینک رضا باقر نے زرمبادلہ کے ذخائر بڑھاکر مارکیٹ میکنزم پر روپے کی قدربرقرار رکھنے کی حکمتِ عملی اپنائی ہے۔ میری گورنر اسٹیٹ بینک سے درخواست ہے کہ 4مہینوں میں روپے کی قدر میں 14روپے کمی کے عوامل کو سامنے لایا جائے تاکہ ڈالر کی سٹہ بازی کو روکا جاسکے۔

تازہ ترین