• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ڈونلڈ ٹرمپ اصل میں کون ہے ؟ جس نے پچھلے چھ مہینوں سے امریکہ کے سیاسی میدان میں ہلچل مچا رکھی رکھی ہے ۔اور کیا وجہ ہے کہ اس کی جارحانہ انتخابی مہم تیر بہدف ثابت ہوئی ہے ایک ریپبلکن ارب پتی نے اچانک یہ محسوس کیا کہ امریکہ تباہی کے دہانے پر جا پہنچا ہے ۔ لہذا امریکہ کو بچانا اس کا فرض ہے ۔MAKE AMERICA GREAT AGAIN ریپبلکن صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی اس کی تمام زندگی میں اتار چڑھاو۔ ملٹری اسکول بزنس میں کامیابی اور میڈیا میں محبت اور نفرت والی پذیرائی کا نتیجہ ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ1946میں کوئنز نیو یارک میں پیدا ہوئے ۔ ان کی والدہ اسکاٹش اور والد جرمن نسل سے تھے ۔ART OF DEALبایوگرافی کے مطابق ٹرمپ کے والد کے خاندان نے سویڈن سے ہجرت کی تھی ۔ ٹرمپ نے نیو یارکJAMiCA ESTATEکے انتہائی امیرانہ ماحول میں پرورش پائی۔ جہاں خاندان میںجان وحشمت کے حصول کے لئے بہت سخت مقابلہ تھا ۔ ٹرمپ سینئر کی امارت میں حکومتی تعاون سے غریبوں کے لئے سوشل رہائش گاہوں کی تعمیر نے بہت اہم رول ادا کیا ۔1954میں سینئر ٹرمپ نے اس پروجیکٹ سے3.7ملین ڈالر کمائے ۔ جو اس خاندان کو انتہائی دولت مند بنانے میں معاون ثابت ہوئے حکومتی تعاون کے باوجود اس پروجیکٹ کے مالکانہ حقوق ٹرمپ خاندان کو حاصل تھے لہذا انہوں نے سیاہ فام باشندوں کو یہاں رہائش حاصل نہیں کرنے دی ۔ جو طے کردہ اصولوں کے سخت خلاف تھی ۔ یہیں سے ڈونلڈ ٹرمپ نے بزنس میں بے رحم مقابلوں کے اصول ازبر کرنے شروع کر دیئے ۔
ٹرمپ کی شخصیت میں جارحیت اسکول میں بہت نمایاں تھی ۔ اپنے مسائل کو قوت بازو سے حل کرنے کی صلاحیت پر اسے ناز تھا ۔ 11سال کی عمر میں ٹرمپ کو نیویارک کے ملٹری اسکول میں داخل کرادیا گیا ۔ جہاں اس کی شخصیت میں ڈسپلن، خوداعتمادی اور خود پسندی شامل ہوگئی ۔ ٹرمپ کا بچپن امارت۔ بزرگوں کی انانیت اور فیصلہ کن شخصیتوں میں مسائل کے درمیان بسر ہوا ۔جس نے اس کی شخصیت میں ہیجانی کیفیت کو شامل کردیا ۔ ملٹری اسکول میں ٹرمپ کو مقابلوں اور جوانمردی کے مظاہروں میں خوشی محسوس ہوتی تھی جس نے اس کی قائدانہ صلاحیتوں کو ابھارنے میں رہنمائی کی ۔ ملٹری اسکول میں ذہانت سے زیادہ جارحیت کو اہمیت حاصل تھی جہاں سے اس نے یہ سبق سیکھ لیا کہ زندگی مقابلوں کا نام ہے ۔جہاں مضبوط اعصابی شخصیت ہمیشہ کامیاب ہوتی ہے۔
پچھلے چالیس برسوں میں ٹرمپ کانام کامیابی کے متبادل کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے اپنی شخصیت کے بارے میں یہ عکاسی خود تراشیدہ ہے ۔ جو واضح کرتا ہے کہ امریکن خواب کس طرح تعبیر کئے جاتے ہیں ٹرمپ کو آغاز ہی میں یہ گیان حاصل ہوگیا تھا کہ کامیابی کاراز سیاست دانوں اور نوکر شاہی سے جوڑ توڑ کی اہلیت میں ہے ۔ سیاست ایک گندہ کھیل ہے جہاں سرمایہ ہمیشہ کامیاب ہوتا ہے ۔ جہاں خدمات کو خریدا جاسکتا ہے ۔ سیاست معاشرے کی خدمت نہیں بلکہ مفاد کے حصول کا ایک ذریعہ ہے میڈیا ٹرمپ کا عزیز ترین اوزار ہے جسے وہ اپنی ذات کے دومتضاد پہلوئوں لبرل اور روایت پسندی کی نمائش کے لئے استعمال کرتا ہے ۔ اخبارات اورTVدونوں اس کی ذات کو روایتی طور طریقوں سے خوفزدہ کرنے کے لئے استعمال کرتے ہیں ۔ اسے میڈیا میں اپنی شخصیت کو نمایاں کرنے کا فن آتا ہے ۔ خبروں میں رہنا اس کی شخصت کا لازمی جز ہے ۔ خواہ وہ تین شادیوں کی خبر ہو یا دوطلاقوں کی ۔ یہی وجہ ہے کہ اس کا چہرہ عرصہ دراز سےTV اسکرین پر چھایا ہوا ہے ۔
ٹرمپ اپنے سیاسی مخالفین کا مقابلہ اسی تشدد اور جارحیت سے کرتا ہے جو پچپن سے اس کا شعار تھا ۔ اسنے اپنے اثرورسوخ،دولت اور مقبولیت کو ریپبلکن پارٹی میں بلند سطح پر رہنے میں استعمال کیا ۔ٹرمپ کو میڈیا میں اچانک حیران کردینے اور کسی بھی موقع پر کچھ بھی کہہ دینے کی اہلیت دوسروں سے ممتاز کرتی ہے ۔ انتخابی مہم میں اس کی شخصیت کے صرف مثبت پہلو اجاگر کئے جاتے ہیں ۔ جس میں صدر منتخب ہونے کے بعد اس کی پالیسی کیا ہوگی کی بجائے مخالفین یعنیTED KRUZکی نااہلیJEBB BUSHکی بزدلیCARSONکے نفسیاتی امراض کا زیادہ ذکر ہوتا ہے ۔
سیاست ہویا تجارت ٹرمپ ہر اس جگہ سے کامیابی کشید کرسکتا ہے جہاں دوسروں کی نظر نہیں جاتی ۔ ٹرمپ نے ایک ایسا انتخابی عنصر دریافت کرلیا ہے جسے دوسرے متحرک کرنے میں ناکام ہیں ۔ وہ ہے ناراض سفید فام امریکی۔ جو امریکہ کو اپنی خواہشوں کے مطابق نہیں پارہا۔ ٹرمپ اپنی ذات میں اس سپرمین کردار کو ابھارنے میں کامیاب ہوگیا ہے ۔ جہاں قوت اور بالادستی ہی اصل امکانی صورت ہے۔ سیاسی تجزیوں کے مطابق اکثر یتی رائے ہے کہ حکومتیں عوام کے مسائل حل کرنے میں ناکام ہیں اور ان کی فلاح وبہبودکے لئے کوئی پروگرام نہیں۔حکومت کے بارے میں یہ رویہ ٹرمپ کی کامیابی کی اصل وجہ ہے ۔ سفید فام ووٹروں کی نظر میں سیاست دانوں نے ان کو دھوکا دیا ہے لہذا وہ ان کے نمائندے نہیں ہوسکتے ۔ یہاں سے نسلی تعصب بھی ٹرمپ کی کامیابی میں شامل ہوگیا ہےDAVIA DUKE نسل پرست تنظیمKU KLUXKLANکا لیڈر منظر عام پر ٹرمپ کی حمایت کرتا نظر آتا ہے جبکہ NEO NAZiSTکانیٹ اخبارDAILY STORMERاپنے حمایتیوں کو ٹرمپ سے تعاون کے لئے اکسا رہا ہے ۔ پوری انتخابی مہم میں نسلی افتخار موقع محل کی نسبت سے استعمال کیاجارہا ہے ۔ ٹرمپ ایک سفید فام پروٹسٹنٹ امیدوار ہے جو ضرورت کے وقت طاقت استعمال کرسکتا ہے جس کاصدربننا لازمی ہے سماجی حلقے ڈونلڈ ٹرمپ کو اس مقام تک پہنچانے میں ریپبلکن پارٹی کوذمہ دار ٹھہراتےہیں ۔ اوباما کی صحت پالیسیOBAMA CAREفارن افیئرز۔ تارکین وطن اور خاندانی اقدار کے مقابلے کے لئے اختلاف کے علاوہ کوئی بہتر متبادل پالیسی ان کے پاس نہیں ہے۔ اسلام ایک نئے کلچر کے طور پر متعارف ہوا ہے ۔ جس سے عام امریکی خوفزدہ ہے ۔ ٹرمپ اس خوف کواپنے حق میں استعمال کررہا ہے ۔
ٹرمپ کی زندگی تضادکا مجموعہ ہے ۔ اس کی دولت کے بارے میں جو افسانہ طرازی میڈیا میں پلانٹ کی گئی ہے وہFROBESکے مطابق اس سے نصف ہے ۔ ٹرمپ غیر ملکیوں کے خلاف ہونے کے باوجود ٹرمپ ٹاور مین ہٹن کی تعمیر میں غیر قانونی پولش لیبر سے کام کراتا رہا ہے ۔ وہ کیسینوانڈسٹری میں ناجائز آمدنی اور منظم جرائم کے خلاف ہے مگر اٹلانٹک سٹی میں اپنے کیسینو چلانے کے لئے KENETH SAPIOاورDANNY SULLEVANجیسے بدنام مجرموں کو استعمال کررہا ہے ۔ ٹرمپ کے کیسینو تاج محل کا انچارج ہانگ کانگ گینگ14-K TRIDeNTکا سخت گیر مافیا لیڈر ہے۔
امریکہ کے بعد کئی دوسرے ممالک کے ماہرین نفسیات بھی ڈونلڈ ٹرمپ کواس کے خود غرض ،غیررحم دل ، مفاد پرست اور غیر ذمہ دارانہ رویوں کی وجہ سےPHYSCOPATHقرار دے چکے ہیں ۔ کیا جارحیت ،اسلامو فوبیا،اقلیتوں کے بارے میں گمراہ کن رویہ اور مخالفین کے بارے میں بہتان طرازی ٹرمپ کو امریکہ کا صدر منتخب کرانے میں کامیاب ہوجائے گی ؟۔
تازہ ترین