• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستانی سیاست میں ویسے تو ہمیشہ مد و جزر کا سلسلہ رہتا ہے کیونکہ پاکستان میں سیاستدان اور سیاسی جماعتیں تو بہت ہیں لیکن سیاست کے کوئی طے شدہ اصول اور قواعد نہیں ہیں۔ اصول اور قواعد طے کرنے اور پھر ان پر عملدرآمد کی پابندی یقینی بنانے کے لئے سیاستدانوں کو مل بیٹھنا ہوگا اور ایک دوسرے کی تجویز اور رائے کا احترام کرنا ہوگا۔ اور یہی تو پاکستانی سیاستدانوں کے لئے مشکل بلکہ ناممکن معرکہ ہے۔ یہاں سیاست کا مطلب اور سیاسی کامیابی عوامی خدمت نہیں بلکہ سیاسی مخالف کو بدنام کرنا اور صاحب اقتدار سیاستدان کو گرانا ہوتا ہے۔ اب اس میں انتقام کا عنصر پہلے کے مقابلے میں زیادہ غالب ہوگیا ہے۔ دلچسپ بات اس صورتحال میں یہ ہے کہ برسراقتدار پر ہمیشہ دھاندلی کرنے کا الزام لگایا جاتا ہے۔

یہی کام برسراقتدار نے بھی اس وقت کیا ہوتا ہے جب وہ خود اپوزیشن میں ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں سیاست کو عوامی خدمت نہیں بلکہ ایک کھیل سمجھا جاتا ہے مثال کے طور پر فٹ بال کا کھیل۔ اس کھیل میں جیت اور ہار سیاستدانوں کے حصہ میں ہوتی ہے لیکن اس کے لئے فٹ بال عوام کو بنایا جاتا ہے۔ اور عوام کے بھی کیا کہنے وہ بھی اس ’’کارخیر‘‘ کے لئے بخوشی بلکہ سیاستدانوں کے مقابلے میں زیادہ گرمجوشی سے فٹ بال بننے کو تیار رہتے ہیں۔ اس کھیل کا نام ’’جمہوریت‘‘ رکھا گیا ہے۔ جمہوریت ایک خوبصورت طرز حکومت و نظام ضرور ہے لیکن پاکستان میں اس نام کو صرف حصول اقتدار کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ ہر سیاستدان جب یہ کھیل جیت کر برسراقتدار آ جاتا ہے اس کے لئے جمہوریت کا مفہوم ہی تبدیل ہو جاتا ہے تو پھر اس نظام کے مطابق چلنا اور اس پر عمل کرنے کا کیا سوال بنتا ہے۔ اس کھیل میں شکست کھانے والا بھی پھر جمہوریت کو بھول جاتا ہے۔ اور وہ جمہوریت کے نام پر برسراقتدار آنے والے کو گرانے کی ٹھان لیتا ہے۔ اس معرکہ میں برسراقتدار اس فٹ بال کو بھول جاتا ہے جس کا نام عوام ہے۔ لیکن شکست کھانے والا اسی فٹ بال کو لیکر بطور ’’ثبوت‘‘ جگہ جگہ پھرتا ہے۔ برسراقتدار آنے والا عوام کو بھول کر اقتدار کے مزے لوٹنے میں مگن ہو جاتا ہے۔

اب پاکستانی سیاست میں دو مزید اصطلاح متعارف کرائی گئی ہیں۔ ایک ہے ’’سلیکٹڈ‘‘ اور دوسری ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ عجیب تماشا تو یہ ہے کہ تمام سیاستدانوں نے اس الیکشن میں حصہ لیا جس سے موجودہ حکومت تشکیل ہوئی۔ لیکن جب الیکشن میں موجودہ حکمران جماعت کو کامیابی ملی تو کہا جانے لگا کہ یہ تو سلیکٹڈ ہیں۔ الیکشن میں کسی نے جیتنااور کسی نے ہارنا ہوتا ہے۔ پھر دھاندلی کا الزام کیونکر لگایا جاسکتا ہے۔ یہی کام موجودہ حکمرانوں نے بھی کیا تھا۔ حکمران ہوں یا اپوزیشن، دونوں طرف میٹھا میٹھا ہپ ہپ، کڑوا کڑوا تھوتھو۔ اس آپس کی لڑائی میں جن کو سلیکٹرز کہا جاتا ہے ان کا ان معاملات سے نہ کوئی تعلق ہے نہ ان کے پاس اتنی فرصت ہے۔ یہ الزام نہیں بلکہ بہتان ہے کہ مزے تو یہ لوگ لوٹیں اور الزام اُن پر لگایا جائے۔

ہر ایک کو اپنے گریبان میں بھی کبھی کبھی جھانکنا چاہئے۔ دوسری طرف حکمران بھی کم نہیں ہیں۔ وہ نہ صرف سیاسی مخالفین کے لتےلینے کے لئے ہر وقت فارغ ہوتے ہیں بلکہ انتقامی کارروائیوں کا جتنا عروج اب دیکھنے کو ملا ہے ماضی میں شاید اتنا نہیں دیکھا گیا۔ حکمرانوں کو سمجھنا چاہئے کہ یہ نظام قدرت ہے کہ ہر عروج کے لئے زوال ضرور ہے۔ عروج کے بعد جب زوال آتا ہے تو وہ کہاں تک پہنچائے، یہ اللہ عظیم ہی بہتر جانتا ہے۔ حکمرانوں کو چاہئے کہ وہ عوام کی حالت زار کو صحیح معنوں میں تبدیل کرنے اور بہتر بنانے پر توجہ دیں اور نیک نامی کمائیں۔ یاد رکھیں حکمرانوں کا حساب عام لوگوں کی نسبت بہت سخت ہوگا۔

ووٹ کو عزت دو کا تو نعرہ ہی غلط لگتا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ووٹ کو نہیں ووٹ دینے والے کو عزت دینی چاہئے اگر ووٹ دینے والے کی عزت ہوگی تو تب اس کی رائے کو عزت دی جائے گی۔ یہاں تو ووٹ دینے والے کی عزت نہیں ہے۔ اس کو ٹشو پیپر کی طرح استعمال کرکے پھینک دیا جاتا ہے اور بھلا دیا جاتا ہے تو اس کے ووٹ کی کیا عزت ہوگی۔ لیکن شاید ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگانے والوں کو مطلب ووٹ سے ہی ہوتا ہے۔ ووٹ دینے والے کو پھر کون پوچھتا ہے۔ بات پھر وہی ہے کہ حکمران ہوں یا اپوزیشن دونوں کا مطمح نظر بہر صورت اقتدار ہوتا ہے۔ گزشتہ روز کراچی میں پی ڈی ایم نے نہایت کامیاب جلسہ کیا۔ تقاریر ہوئیں لیکن زیادہ تر نشانہ موجودہ وزیراعظم ہی رہے۔ اگر کچھ تھوڑا بہت مہنگائی کا حوالہ دیا گیا تو وہ آٹے میں نمک کے برابر۔ حالانکہ وزیراعظم کو نشانہ بنانے کے بجائے دیگر اہم معاملات ہیں ان پر فوکس کرنا زیادہ ضروری تھا۔ مہنگائی، بدامنی اور جنسی تشدد، بچوں اور خواتین کے ساتھ زیادتیوں کے واقعات وغیرہ۔ ان موضوعات کو اجاگر کرنا اور ان کی روک تھام پر زور دینا وقت کی ضرورت ہے۔ ورنہ ایک دوسرے پر الزامات اور بہتان تراشی تو رواج بنتا جارہا ہے اور اس بارے میں دونوںطرف ہے آگ برابر لگی ہوئی۔ خدارا حکمران اور اپوزیشن دونوں عوامی و سماجی مسائل پر توجہ دیں۔ اس بدحال قوم کے لئے کچھ کریں۔

ملک کے لئے متفق ہوکر سوچیں جو ہر طرف سے گھیرا جارہا ہے۔ اس خطے کی خطرناک صورتحال کو سمجھیں۔ اگر سیاسی جماعتوں کے ذمہ داران کو جی ایچ کیو بلایا جا سکتا ہے اور ملک و قوم کو درپیش خطرات پر بریف کیا جا سکتا ہے تو یہ کام حکومتی سطح پر کرنے میں کیا امر مانع ہے۔ وزیراعظم صاحب کو بھی چاہئے کہ تمام سیاسی اکابرین کو مدعو کریں اور ان ایشوز پر اتفاق رائے سے جامع حکمت عملی ترتیب دیں۔ سیاسی مخالفین کے خلاف انتقامی کارروائیاں فوری بند کرادیں۔ ان کو عزت دیں اور دونوں طرفین انا کو بالائے طاق رکھ دیں۔ کیونکہ یہ ملک و قوم کے معاملات ہیں۔

تازہ ترین