• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بات چیت : عالیہ کاشف عظیمی

گزشتہ 16برس سے نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس (ناپا) لڑکے، لڑکیوں کو تھیٹر ،آرٹس اور موسیقی کی تعلیم دے رہا ہے اور یہاں سے نکلنے والے متعدّد طلبہ اپنی فیلڈز میں بَھرپور صلاحیتوں کا اظہار بھی کررہے ہیں۔ 

ان ہی طلبہ میں معروف اداکارہ ،ثناء عسکری بھی شامل ہیں، جنہوں نے تھیٹر ان آرٹس میں تین سال کا ڈپلوما کیا اور پھر شوبز انڈسٹری سے وابستہ ہوگئیں۔ ثناء نے شوبز کیرئیر کا آغاز شادی کے بعد جیو چینل کےمعروف ڈرامے’’آذر کی آئے گی بارات‘‘سے کیا۔

پھر اپنے 11سالہ فنی سفر میں مختلف کردار ادا کیے، لیکن منفی کرداروں میں ان کی پرفارمینس عروج پر دکھائی دیتی ہے، جس کا کریڈٹ وہ ناپا کے اساتذہ کو دیتی ہیں۔ ان کے مقبول ڈراموں میں’’ آذر کی آئے گی بارات‘‘، ’’ مَیں عبدالقادر ہوں‘‘، ’’دریچہ‘‘،’’داغ‘‘، ’’کتنی گرہیں باقی ہیں‘‘، ’’غلطی‘‘، ’’گِھسی پٹی محبّت‘‘ اور ’’مجھے وداع کر‘‘ شامل ہیں۔

گزشتہ دِنوں ہم نے جنگ، سنڈے میگزین کے مقبولِ عام سلسلے ’’کہی اَن کہی‘‘ کے لیےثناء عسکری سے خصوصی بات چیت کی ،جس کی تفصیل قارئین کی نذر ہے۔

منہاج اور نائل کے ساتھ
منہاج اور نائل کے ساتھ

س: اپنے خاندان، جائے پیدایش، ابتدائی تعلیم و تربیت کے متعلق کچھ بتائیں؟

ج: میرے والد سرکاری ملازم تھے۔ اب ریٹائر ہوچُکے ہیں، جب کہ والدہ گھریلو خاتون ہیں۔ چوں کہ امّی گھر پر ٹیوشنز پڑھاتی تھیں، تو ہمارے گھر میں پڑھنے لکھنے کا رجحان کچھ زیادہ ہی رہا۔ گھر کے ماہانہ بجٹ کا خاصا حصّہ ہماری تعلیم پر صرف ہوتا تھا۔ مَیں نے کراچی میں آنکھ کھولی، یہیں پلی بڑھی اور اِسی شہر سے تعلیم حاصل کی۔ مَیں نےمیڈیا سائنسز میں ماسٹرز کے بعد ناپا سے تین سالہ ڈپلوما کیا۔

س: کتنے بہن بھائی ہیں، آپ کا نمبر کون سا ہے، آپس میں کیسی دوستی ہے؟

ج: ہم تین بہن بھائی ہیں۔ بڑی بہن کے بعد ایک بھائی ہے، جو چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ ہے۔ مَیں اُن دونوں سے چھوٹی اورسب کی لاڈلی ہوں۔ ہم تینوں کی بہت اچھی دوستی ہے، لیکن میری بھائی سے زیادہ بنتی ہے۔ اپنی ہر بات اُسی سے شیئر کرتی ہوں۔ اصل میں بہن مجھ سے چھے سال بڑی ہیں۔ وہ بچپن میں امّی سے ہماری خُوب شکایتیں لگاتی تھیں، تو ان سے ذرا بڑوں والا معاملہ ہے۔

س: بچپن کی کچھ یادیں، باتیں شئیر کریں؟

ج: مَیں بچپن میں بے حد شرارتی تھی۔ اسکول جاکر بھی میری شرارتوں میں کوئی کمی نہیں آئی۔ اکثر دوپہر میں جب امّی سو جاتیں، تو ہم خُوب موج مستی کرتے۔ اب میرا بیٹا ننھیال جاکر نانو کے سوجانے کے بعد میری ہی طرح خُوب شرارتیں کرتا ہے۔ اسکول میں شرارت کرنے پر جب ٹیچر سے ڈانٹ پڑتی، تو مَیں فوراً ہی کوئی کردار تخلیق کرکے اداکاری شروع کر دیتی۔ تب مجھے یہ اندازہ نہیں تھا کہ مَیں آگے چل کر ڈراموں میں بھی اداکاری کروں گی۔

س: آپ نے 2009ء میں کیرئیر کا آغاز کیا، توشوبز انڈسٹری میں داخلے کا سفر کس ڈرامے سے شروع ہوا اور کیسے؟

ج: مَیں اور منہاج ناپا میں ساتھ پڑھتے تھے۔ تب ہماری منگنی ہوچُکی تھی۔ پھر جب 2009ء میں شادی ہوئی، تو ایک مہینے بعد ہی مرینہ خان کا فون آگیا اور انہوں نے مجھے جیو کے لیے بننے والےڈرامے’’آذر کی آئے گی بارات‘‘ میں لیلی کا کردار آفر کیا۔ چوں کہ میرے میکے میں دَور پرے تک کوئی اس فیلڈ سے وابستہ نہیں تھا، تو مَیں نے منہاج سےکہا کہ اگر امّی ابّو کو پتا چل گیا تو سخت ردِّعمل سامنے آئے گا، مگر منہاج نے میری خُوب ہمّت بندھائی۔ بہرحال، پہلے ڈرامے میں کام کیا، تو اہلِ خانہ نے بھی سراہا اور بس پھر چل، سو چل۔

س: تھیڑمیں بھی پرفارم کرتی ہیں، تو اس حوالے سے بھی کچھ بتائیں؟

ج: جب مَیں نے ناپا میں داخلہ لیا، تو اداکاری کی ابجد بھی نہیں آتی تھی، لیکن جب راحت کاظمی، ضیاء محی الدین ،طلعت حسین، ارشد محمود، خالد احمد، انور سجاد مرحوم اور انجم صاحب جیسے منجھے ہوئے استادوں کی صحبت میسّر آجائے، تو پھر بندہ کچھ بن ہی جاتا ہے۔ سو، مَیں بھی تھوڑی بہت اداکاری کر ہی لیتی ہوں۔ ویسے تھیٹر ایک بالکل الگ دُنیاہے،جس سے میراپیار کبھی ختم نہیں ہو سکتا۔

س: آپ ہر طرح کے کردار بخوبی کرلیتی ہیں، مگر منفی کرداروں میں پرفارمینس عروج پر دکھائی دیتی ہے،خود کس قسم کے کردار پسند ہیں؟

ج: کیرئیر کے ابتدا میں زیادہ تر روتی دھوتی، بے چاری عورت کے کردار ادا کیے۔ پھر مجھے منفی کردار کی آفر ہوئی تو فوراً حامی بَھر لی کہ منفی کرداروں میں اداکاری کا مارجن بہت ہوتا ہے۔ حالاں کہ حال ہی میں ختم ہونے والے ڈرامے’’مجھے وداع کر‘‘میں مثبت کردار ادا کیا، لیکن یہ حقیقت ہے کہ مجھے منفی کردار ادا کر کے زیادہ مزہ آتا ہے۔

س:شو بز انڈسٹری کو کیسا پایا؟زیادہ تر لوگ اچھے ملے یا بُرے؟

ج: ہر جگہ ہی اچھے، بُرے لوگ ہوتے ہیں، مگر الحمدللہ 11سالہ کیریئر میں مجھے کوئی ایسا شخص نہیں ٹکرایا،جس سے کوئی تکلیف پہنچی ہو۔ شوبز انڈسٹری نے مجھے پہچان اور شہرت دی۔ مجھے اس نگری کے ہر شخص سے محبّت ہے۔

س: کوئی ایسا کردار ادا کیا، جسے قبول کرتے ہوئے اچھا نہ لگا ہو، مگر بعد میں وہی شناخت بن گیا ہو؟

ج:نہیں، کیوں کہ مَیں ہمیشہ اسکرپٹ پڑھنے کے بعد ہی فیصلہ کرتی ہوں کہ یہ کردار قبول کرنا ہے یا نہیں۔

س: خود اپنا کون سا ڈراما اور کردار اچھا لگتا ہے؟ آنے والے پراجیکٹس سے متعلق بھی کچھ بتائیں؟

ج: سارے ہی کردار اچھے لگتے ہیں، لیکن ڈراما ’’دریچہ‘‘ میں ماہین کا کردار زیادہ اچھا لگا۔ نئے آنے والے پراجیکٹس پر ابھی کام جاری ہے، تو وقت سے قبل کچھ نہیں بتا سکتی۔

س: کس فن کار کے ساتھ کام کرکے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا؟

ج: مَیں لیجنڈ اداکارہ صبا حمید کی پرستار ہوں کہ اُن کے ساتھ کام کرکے بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔

س: اگر اداکارہ نہ ہوتیں…؟

ج: تو پھر یقیناً مصوّرہ ہوتی یا ڈاکٹر بن جاتی۔

س: گزشتہ برس کورونا وائرس کا بھی شکار ہوگئی تھیں، تو اُس ٹائم پیریڈ کے کچھ تجربات شئیر کرنا چاہیں گی؟

ج: مَیں جب کورونا وائرس کا شکار ہوئی، تو قرنطینہ کا وقت بہت تکلیف دہ گزرا، کیوں کہ بیٹا چار سال کا تھا، وہ بار بار دروازہ بجا کر بہت معصومیت سے پوچھتا،’’امّی ! کب باہر آئیں گی، مجھے آپ کے پاس آنا ہے۔‘‘پھر مستقل طور پر ایک ہی کمرے میں رہنے سے اینزائٹی بھی ہو گئی تھی۔ بہرحال،خدا خدا کرکے جب رپورٹ نیگیٹو آئی تو بیٹے کو بانہوں میں بَھر کراپنا تکلیف دہ وقت بھول گئی۔

س: 2009ء میں آپ نے اور منہاج عسکری نے پسند سے شادی کی، تو دونوں کی پہلی ملاقات کب،کہاں ہوئی، شادی میں کسی کی رکاوٹ کا سامنا تو نہیں کرنا پڑا؟

ج: ہم دونوں کی2001ء میں ایک انسٹی ٹیوٹ میں ملاقات ہوئی اور پہلے ہی دِن ہماری لڑائی بھی ہوگئی ۔لیکن وقت کے ساتھ ذہنی ہم آہنگی اس حد تک بڑھتی چلی گئی کہ ہم نے جیون ساتھی بننے کا فیصلہ کرلیا۔ والدین کی رضا مندی سے ہماری منگنی ہوئی، جس کے ٹھیک تین سال بعد 2009ء میں ہم شادی کے بندھن میں بندھ گئے۔ شادی کے وقت مَیں صرف17برس کی تھی۔

س: مہناج عسکری ریڈیو کی دُنیا سے وابستہ ہیں، دونوں کی زندگی مصروف ہے، ایک دوسرے کو کتنا وقت دے پاتے ہیں؟

ج: ہم دونوں ہی مصروف رہتے ہیں، مگر اب منہاج نے گھر ہی میں اپنا اسٹوڈیو بنا لیا ہے اور آج کل یو ٹیوب پر بھی کام کر رہے ہیں، تو ہمیں ایک ساتھ خاصا وقت گزارنے کا موقع مل جاتا ہے۔

س: شادی کے سات سال بعد اللہ تعالیٰ نے بیٹے کی نعمت سے نوازا، تو ماں بننے پر کیا احساسات تھے، بیٹے کی تعلیم و تربیت پر کس قدر فوکس ہے؟

ج: نائل ہماری شادی کے سات سال بعد4جولائی2016ء کو پیدا ہوا اور تب مجھے لگ رہا تھا کہ میرے پائوں زمین پر نہیں ہیں۔ یہ وہ احساسات ہیں، جو مَیں سمجھتی ہوں کہ الفاظ میں بیان کیے ہی نہیں جاسکتے۔ نائل بہت شریر اور ذہین بچّہ ہے۔ کیرئیر سے زیادہ میرا فوکس بیٹے کی تربیت پر رہتا ہے۔ میری اور منہاج کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں بیٹے کی صُورت جو ذمّے داری سونپی ہے، اُسے احسن طریقے سے نبھائیں۔

س: سُنا ہے آپ نے اپنا گھر بہت خُوب صُورت انداز سے ڈیکوریٹ کیا ہے، تو یہ شوق آپ کا ہے یا…؟

ج: یہ میرا اور منہاج کا مشترکہ شوق ہے۔ ہمیں کلر فُل فرنیچر اور لائٹنگ بے حد پسند ہے۔ مَیں صفائی ستھرائی کے معاملے میں بھی خبطی ہوں۔ اگر کہیں معمولی سی گرد بھی نظر آ جائے تو وحشت شروع ہو جاتی ہے۔ اس لیے کوئی کسی بھی وقت میرے گھر آجائے، اُسے گھر صاف ستھرا ہی ملتا ہے۔

س: سُسرال والوں سے تعلقات کیسے ہیں، اُن کے ساتھ ہی رہتی ہیں یا رہایش الگ ہے؟

ج: سُسرال والوں سے بہت ہی اچھے تعلقات ہیں۔ میری ساس میری بہت اچھی سہیلی بھی ہیں۔ مَیں 11سال تک سُسرال میں رہی، پھر ہم الگ گھر منتقل ہوگئے۔ دراصل جس علاقے میں سُسرال ہے، وہ بیٹے کے اسکول سے خاصا دُور تھا۔ نائل کو اسکول چھوڑنے کے بعد ہم دونوں ڈیڑھ گھنٹہ سڑک پر بے مقصد گھومتے رہتے کہ کلاس ختم ہو تو اُسے ساتھ لے کر ہی جائیں۔ساس سے ہماری یہ پریشانی دیکھی نہیں گئی اور انہوں نے ہی اسکول کے قریب سکونت اختیار کرنے کا مشورہ دیا۔

س: اہلِ خانہ، دوست احباب آپ کے کھانوں کی تعریف کرتے ہیں، کوکنگ کا شوق ہے یا کبھی کبھار یوں ہی ٹرائی کرلیتی ہیں؟

ج: مجھے بچپن ہی سے کھانا پکانے کا بےحدشوق ہے۔چھوٹی تھی تو اکثر باورچی خانے میں پیڑھا رکھ کر اس پر کھڑی ہوجاتی اور کچھ نہ کچھ پکانے کی کوشش کرتی۔ ہرڈش بنالیتی ہوں،مگر کانٹی نینٹل کھانے اور پاستا مجھ سے فرمائش کرکے بنوائے جاتےہیں۔ ویسے اگر کسی وجہ سے اسٹریس میں ہوں، تو کیک یا پیزا بھی بنا تی ہوں۔

س: آپ کو دُنیا کا سب سے انٹرسٹنگ اور بورنگ کام کیا لگتا ہے؟

ج: پینٹنگ اور کوکنگ پسندہے، تو برتن دھونا بہت بورنگ، بلکہ زہر لگتا ہے۔

س: عموماً خواتین شاپنگ کرنے اور بیوٹی پارلر جانے کی شوقین ہوتی ہیں، مگر آپ کو شاپنگ پسند ہے، نہ بیوٹی پارلر جانا، تو ایسا کیوں ہے؟

ج: دونوں ہی کاموں میں بہت وقت ضایع ہوتا ہے۔شُکر ہے کہ اب آن لائن شاپنگ نے میری زندگی آسان کردی ہے۔

س: اگر کبھی بِن بلائے مہمان آجائیں، تو کیا رویّہ ہوتا ہے؟

ج: گرم جوشی سے استقبال کرتی ہوں اور اگر کھانے کا وقت ہو، تو کھانا کھلائے بغیر جانے نہیں دیتی۔ اکثر فیملی اور فرینڈز کو گھر پر مدعو بھی کر لیتی ہوں کہ مجھے مہمان داری کا بہت شوق ہے۔

س: کیا آپ کے بارے میں لوگوں کو کوئی غلط فہمی ہے؟

ج: مَیں نے اس قدر منفی کردار کیے ہیں کہ لوگوں کو لگتا ہے کہ میری فطرت ہی ایسی ہے۔کچھ عرصہ قبل اپنی سہیلی کی ساس سے پہلی بار ملی، تو انہوں نے میرے جانے کے بعد اپنی بہو سے کہا،’’اس سے بچ کر رہنا۔بہت خطرناک ہے، گھروں میں آگ لگا دیتی ہے۔‘‘حالاں کہ مَیں پُرخلوص اور مِل جُل کر رہنے والی ہوں۔

س: تاریخِ پیدایش کیا ہے، سال گِرہ مناتی ہیں اور کون کون آپ کا جنم دِن یاد رکھتا ہے؟

ج: میری تاریخِ پیدایش 23اپریل ہے اور میرا جنم دِن بھولنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا کہ مَیں سال گِرہ سے ایک مہینہ پہلے ہی سے شور مچانا شروع کر دیتی ہوں کہ میری برتھ ڈے آ رہی ہے، اپنا اپنا گفٹ تیار رکھیں۔

س: کیا کبھی کسی پرستار نے کوئی ایسی بات کہی، جو حافظے میں نقش ہوکر رہ گئی ہو؟

ج: نہیں ،کبھی کسی نے کوئی ایسی بات نہیں کہی،جو ذہن میں رہ گئی ہو۔ پرستاروں سے بس ہمیشہ محبّت ہی ملی ہے۔

س: ایک ریڈیو شو میں گانا بھی گایا تھا، تو باقاعدہ طور پر گانے کا ارادہ ہے؟

ج: مَیں ریڈیو شو ہی میں نہیں، ایک ٹیلی فلم ’’طائوس و رباب آخر‘‘ میں بھی گانا گا چُکی ہوں۔ یہ فلم استادِ محترم خالد احمد نے ڈائریکٹ کی تھی۔ویسے جب منہاج گٹار بجا رہے ہوں تو مَیں گھر میں بھی گالیتی ہوں، لیکن مستقبل میں باقاعدہ طور پر گانے کا کوئی ارادہ نہیں۔

س: آپ کو اپنے گروپ کی کس اداکارہ سے خطرہ محسوس ہوتا ہے؟شوبز میں بیسٹ فرینڈ کون ہے؟

ج: مجھے کسی اداکارہ سے کوئی خطرہ محسوس نہیں ہوتا، کیوں کہ جو مَیں کرسکتی ہوں، وہ کوئی دوسرا نہیں کرسکتا اور جو دوسرا کرسکتا ہے، وہ مَیں نہیں کرسکتی۔ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو کسی نہ کسی صلاحیت سے نوازا ہے،تو پھر خطرہ کیسا۔رہی بات شوبز میں بیسٹ فرینڈز کی تو سب ہی سے اچھے دوستانہ مراسم ہیں۔

س: کوئی ایسی بات، جو آپ کے بارے میں کوئی نہیں جانتا ؟

ج: بہت ہی کم لوگ جانتے ہیں کہ مجھے اسکیچنگ اور ڈرائنگ پر مہارت حاصل ہے۔

س: کب خوش ہوتی ہیں؟کن باتوں پر غصّہ آتا ہے؟

ج: مجھے گھر پر وقت گزار کر، خاص طور پر شوہر اور فیملی کے ساتھ بےحد خوشی ملتی ہے۔اور غصّہ چیٹر لوگوں اور بار بار ایک ہی بات دہرانے والوں پر آتا ہے۔

س: فلموں میں کب جلوہ گر ہو رہی ہیں؟

ج: کووِڈ-19کے بعد اتنی تیزی سے چیزیں بدل رہی ہیں کہ قبل از وقت کچھ بھی نہیں کہہ جا سکتا ہے،توجب فلموں میں کام کا وقت آئے گا، تو اچھے اسکرپٹ کے ساتھ کام کرلوں گی۔

س: نئے فن کاروں کو کیا مشورہ دیں گی؟

ج: نئے فن کاروں کی صلاحیتیں دیکھ کر لگتا ہے کہ مجھے ان کے مشوروں کی ضرورت ہے۔ ہاں، بس یہ ضرور کہوں گی کہ شہرت کی بُلندیوں کو چُھوئیں، مگرقدم زمین ہی پر رکھیں۔

تازہ ترین