• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دہشت گردی کے خلاف جنگ میں 86 ہزار سے زائد قیمتی جانوں کا نذرانہ

’’یہ کیا بات ہوئی بابا! آپ اس عید بھی گھر نہیں آرہے۔ آپ نے تو کہا تھا کہ یہ عید گھر ہی پہ کریں گے۔ اب مجھے آپ سے بالکل بات نہیں کرنی۔ ایسی بھی کیا ڈیوٹی کہ انسان گھر ہی نہ آسکے۔‘‘ خرد نے اپنے بابا سے ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔’’ بیٹا! مَیں بھی گھر آنا چاہتا تھا، لیکن ابھی ذرا بارڈر پر حالات خراب ہیں، اس لیے چُھٹی منظور نہیں ہوئی۔ جیسے ہی حالات بہتر ہوں گے، بابا اُڑ کر اپنی پرنسز کے پاس پہنچ جائیں گے۔‘‘ میجر کمال نے اپنی تیرہ سالہ بیٹی کو سمجھاتے ہوئے کہا۔ ’’ لیکن خبروں میں تو بتا رہےتھے کہ اب امن قائم ہو گیا ہے، حالات انڈر کنٹرول ہیں، علی کے بابا بھی تو آپ ہی کی طرح فوجی ہیں،جب اُنہیں چُھٹی مل گئی تو آپ کو کیوں نہیں ملی…؟؟‘‘ 

خرد روہانسی ہوکر بولی۔’’ پرنسز! آپ نے صحیح کہا کہ اب الحمدُ للہ!ہمارے مُلک میں امن قائم ہے، لیکن دشمن ہمیں نقصان پہنچانے، مُلک کا امن خراب کرنے ہی کی تاک میں ہے، تو ایسی صُورت میں ہمیں پہلے سے کہیں زیادہ الرٹ رہنے کی ضرورت ہے۔ بیٹا! آپ ایک فوجی کی بیٹی ہیں اور فوجیوں کے گھر والے ذرا ذرا سی باتوں پر اداس ہوتے ہیں، نہ دل چھوٹا کرتے ہیں۔ اب چلو، جلدی سے بابا کو ہنس کر دکھاؤ تاکہ مَیں سکون سے سو سکوں۔‘‘ والد کی باتیں سُن کر خرد آنکھوں میں آنسو لیے مُسکراتودی، مگر میجر صاحب جانتے تھے کہ وہ اندر سےکس قدر اُداس اورافسر دہ تھی۔

’’ جی ماما! مَیں بالکل خیریت سے ہوں۔ بس آپ دُعا کیا کریں کہ آپ کا بیٹا اس وَردی کی لاج رکھے، مَیں شیر کی موت مرنا چاہتا ہوں‘‘ ’’یہ بتاؤ چُھٹّی کی درخواست دے دی یا نہیں؟ منگنی تو تمہارے بغیر ہو گئی تھی، لیکن لیفٹین صاحب! شادی میں دولھا کی موجودگی لازمی ہوتی ہے۔‘‘ ’’ آپ کہیں تو کل ہی آجاؤں…‘‘ابھی نیول آفیسر، لیفٹیننٹ ذیشان اپنی ماں سےفون پر بات ہی کر رہے تھے کہ وائر لیس پر پیغام آیا کہ بیس پر دہشت گردوں نے حملہ کردیا ہے اور وہ بات ادھوری چھوڑ کر چلے گئے۔ 

دہشت گرد بھاری اسلحے کے ساتھ بیس میں داخل ہونا چاہتے تھے، لیکن لیفٹیننٹ کی بر وقت کارروائی سے بیس پر موجود قیمتی قومی اثاثے محفوظ رہے، دہشت گرد بھی جہنّم واصل ہوئے، مگر فائرنگ کے تبادلے میں ذیشان کے سینے میں چار گولیاں لگیں اور وہ شہید ہو گئے۔ وہ بیٹا،جس کی ماں اپنے اکلوتےجگر گوشے کے سرپر سہرا سجانے کی تیاریاں کر رہی تھی،وہ سبز ہلالی پرچم اور پھولوں کی چادرمیں لپٹا اس کے پاس پہنچا ۔

’’ عائشہ! تمہاری آنکھوں کی یہ اُداسی میرا جانا مشکل کر رہی ہے۔ تم میری بیوی ، میری محبّت ہو ، لیکن یاد رکھو، میری جان اس وطن کی امانت ہے ۔ ‘‘ اسکواڈرن لیڈر مہتاب عالم نے اپنی نئی نویلی دلہن کی آنکھوں میں آنسو دیکھتے ہوئے بڑے پیار سے سمجھایا۔ ’’آپ نے تو کہا تھا کہ پندرہ دن کی چُھٹّی منظور ہوئی ہے، ابھی تو شادی کو ایک ہفتہ بھی پورا نہیں ہوا اور کال آگئی۔‘‘ ’’ میڈم! آپ ایک فوجی کی بیوی ہیں، تو اب ایسے ’’سرپرائزز ‘‘کی عادت ڈال لیں اور مجھے اُداس چہرے کے ساتھ نہیں، مُسکراتے چہرے کے ساتھ الوداع کریں۔ ‘‘ یہ کہہ کر اسکواڈرن لیڈر مہتاب نےاپنا بیگ اُٹھایا، ماں، باپ کی دُعائیں لیں اور چل نکلے۔ وہ جس مشن پر گئے تھے، اس میں کام یاب تو لَوٹے ، لیکن طیارے میں آگ لگنے کے باعث ، ایمر جینسی ایجیکٹ کے دوران ٹانگوں میں شدید زخم آئے اور وہ ہمیشہ کے لیے دونوں ٹانگوں سے مفلوج ہو گئے۔

متذکرہ بالا قصّے، کہنے کو تو قصّے ہیں، لیکن دَر حقیقت کہیں نہ کہیں اس مُلکِ عزیز کےہر فوجی کی اصل زندگی کے ترجمان ہیں کہ شاید ہی کوئی ایسا فوجی (افسر/ سپاہی)ہو، جس نے اس مادرِ وطن کی حفاظت کے لیےاپنی فیملی لائف قربان نہ کی ہو۔ دیکھا جائے تو یہی تو ہمارے شیر دل جوانوں کی شان، ان کا خاصّہ ہے کہ ہر طرح کے موسم کی سختیاں برداشت کرنے، مشکل سے مشکل حالات کا سامنا کرنے کے با وجود ، ان کے ہمّت وحوصلےکم زور پڑتے ہیں، نہ ہی قدم ڈگمگاتے ہیں ۔

ان کا نصب العین تو بس پاکستان کی بحری، برّی اور فضائی حدود کی حفاظت یقینی بناناہےاور اس کام کی تکمیل کے لیے وہ سرحدوں پر سیسہ پلائی دیوار ، کسی مضبوط چٹان کی مانند کھڑے ہیں۔ یہاں یہ امر بھی قابلِ ذکر ہے کہ افواجِ پاکستان کی ہمّت، بہادری، جرأت، شجاعت کی یہ داستانیں آج کی نہیں، برسوں پرانی ہیں کہ جذبۂ شہادت، دلیری، پروفیشنل اِزم تو انہیں وَراثت میں ملا ہے۔ 

دشمن بھی حیران ہوتا ہوگا کہ اندرونی و بیرونی طور پر پاکستان کو نقصان پہنچانے کی لاکھ کوششوں کے با وجود ناکامی ہی اس کا مقدّر بنتی آئی ہے، اب اسے کون سمجھائے کہ اس مٹّی کے بیٹوں کی زندگیاں کبھی سیاچن کے بر ف پوش پہاڑوں پر تو کبھی تھر کے صحراؤں، ریگستانوں میں کبھی سنگلاخ پہاڑوں کی گھا ٹیوں ، سمندروں ، فضاؤں میں تو کبھی گو لیوں، توپوں کے سائے میں گزرتی ہیں۔ وہ اپناچین و آرام قربان کرکے اپنے خون سے مُلک کی آب یاری میں مصروفِ عمل ہیں۔

آج سےلگ بھگ دو دَہائی قبل ، 11 ستمبر کودہشت گردوں نے دومسافر بردار طیارے اغوا کرکے نیویارک میں واقع ورلڈ ٹریڈ سینٹر اور پینٹاگون سے ٹکرا دئیے، جس کےردّ ِ عمل میں اُس وقت کے امریکی صدر ،جارج ڈبلیو بُش نے دہشت گردی کے خلاف اعلانِ جنگ کرتے ہوئے عالمی برادری کے نام پہلے ہی پیغام میں امریکی حکومت کے تباہ کُن عزائم عیاں کرتے ہوئے کہہ دیا کہ’’ امریکا اپنے مجرموں کوانصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے ہرممکن اقدام کرےگا۔‘‘ اس موقعے پر دیگر ممالک کوبھی متنبّہ کیا گیا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکا کا ساتھ دینے کے سوا کوئی راستہ نہیں۔

اس حوالے سے 12ستمبر کواقوام ِمتّحدہ کی سلامتی کاؤنسل اور جنرل اسمبلی میں سخت قراردادوں کی منظور ی نے دہشت گردوں اور ان کے ٹھکانوں کے خلاف عسکری کارروائی کی را ہ ہم وار کی۔ نائن الیون کے فوری بعد امریکا نےاُس وقت کے پاکستانی صدر جنرل پرویز مشرف سے رابطہ کیااور تعاون مانگا۔ بلاشبہ ،پاکستان کے لیے وہ صورتِ حال انتہائی نازک تھی ، بالآخر وسیع تر قومی مفاد میں پاکستان نے امریکا کی قیادت میں دہشت گردی کے خلاف عالمی اتحاد میں شمولیت کا مشکل فیصلہ کیا۔ تاہم، اس کے نتیجے میں پاکستان کو ناقابلِ تلافی نقصان برداشت کرنا پڑا کہ طالبان نے جوابی ردّعمل کے طور پر پاکستان کو نشانے پر رکھ لیا۔ 

ٹارگٹ کلنگز، خود کُش دھماکوں نے وطنِ عزیز کو لہو لہان کر دیا۔ یہاں تک کہ ہمارے مُلک کے معصوم بچّوں تک کو نہیں بخشا گیا ۔ ویسے تو افواجِ پاکستان نے اس قبل بھی ’’ المیزان، راہِ راست،راہِ نجات‘‘ کی صُورت وقتاً فوقتاً دشمن کے خلاف آپریشنز کیے، لیکن اے پی ایس سانحے کے بعد اُس وقت کے آرمی چیف ، جنرل راحیل شریف نے دہشت گردوں کے خلاف زیرو ٹالرینس پالیسی کا عندیہ دیتے ہوئے مُلک بھر میں’’ آپریشن ضربِ عضب ‘‘کا آغاز کیا ،جس کے بے حد مثبت نتائج برآمد ہوئے۔

پاک فوج نے مُلک سے دہشت گردی کے خاتمےکے لیے قوم کے سامنے جس عزم کا اعادہ کیا تھا، اس کی تکمیل کے لیےکسی بھی قسم کی رکاوٹ یا مداخلت خاطر میں نہیں لائی گئی۔ بعد ازاں، موجودہ آرمی چیف،جنرل قمر جاوید باجوہ نے نئے عزم اور ولولے کے ساتھ دوبارہ سر اُٹھانے والے فسادیوں کی سرکوبی کے لیے ’’ردّالفساد‘‘ کے نام سے آپریشن شروع کیا، تو دہشت گردوں کے بچے کُھچے ٹھکانوں ، سہولت کاروں اور فسادیوں کو چُن چُن کر نشانہ بنایا گیااور آج بھی بنایا جا رہا ہے۔ 

جولائی 2021ء میں ڈی جی آئی ایس پی آر، میجر جنرل بابر افتخار نے ایک پریس بریفنگ میں بتایا کہ ’’افواجِ پاکستان دشمن کے خلاف ہر وقت تیار ہے۔ہم خطّے کی صورتِ حال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں ۔ ہم نے افغانستان سے امریکاکے انخلا کے بعد کی صورتِ حال کی بھی تیاری کر رکھی ہے اور افغان امن عمل کی کام یابی کے لیے بھی اپنا کردار سنجیدگی سے ادا کر رہے ہیں۔ ہم نے دہشت گردی کے خلاف ایک طویل جنگ لڑی اور اس میں بے مثال کام یابیاں حاصل کی ہیں۔

سو، ہم اپنی قربانیوں کو کسی صُورت رائیگاں نہیں جانے دیں گے، خیبر پختون خوا اور قبائلی اضلاع میں 150سے زائد دہشت گردی کے واقعات ہو چُکے ہیں ۔ تاہم، اب بھی آپریشنز جاری ہیں، جن میں اب تک 42 دہشت گردوں کو مار اچُکا ہے۔ ہم نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں 86ہزار سے زائد جانوں کی قربانیاں دیں،گزشتہ بیس سالوں میں پاکستان نے 18 ہزار دہشت گرد ہلاک کیے اور 449 ٹن دھماکا خیز مواد بر آمد کیا۔ 46 ہزار مربع کلو میٹر سے بارودی سرنگیں کلئیر کیں، القاعدہ کے 1100دہشت گرد ہلاک کیے، خفیہ اطلاعات پر مشتمل 2 لاکھ 45 ہزار 210 آپریشنز کیےاور 1,237 ملٹری آپریشنز کیے گئے۔ افواجِ پاکستان، دشمن عناصر کی سرکوبی کے لیے ہر طرح تیار ہیں، سیکیوریٹی ادارے جارحانہ انداز میں آپریشنز کر رہے ہیں اور ہمارے جوان دہشت گردوں کو ختم کیے بغیر دَم نہیں لیں گے۔ ‘‘ اسی طرح دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اب تک پاک بحریہ کے سیکڑوں اور پاک فضائیہ کے 39 اہل کار ، بشمول افسران، سیلرز، ائیر مین وغیرہ جامِ شہادت نوش کرچُکے ہیں۔

بلاشبہ، گزشتہ 20برسوں میں ہمارے مُلک کو دہشت گردوں اورانتہا پسندوں کے ہاتھوں جس قدر نقصان پہنچا، وہ شاید دُگنا ہوتا ،اگر ہماری جرّی افواج ہر محاذ پر دشمنوں کی سرکوبی کے لیے کارروائیاں عمل میں نہ لاتیں۔ آج مُلک میں جو امن قائم ہے ، اس کا سہرا افواجِ پاکستان کے شہداء ہی کے سر ہے، جنہوں نے اپنا آج، ہمارے کل پر قربان کردیا۔ اسی کے ساتھ ہم تمام شہدائے وطن کے اہلِ خانہ کوبھی سلام پیش کرتے ہیں کہ جن کے پیارے آج صرف اس لیے اُن کے ساتھ، اُن کے درمیان نہیں کہ انہوں نے اپنے خون سے اس ’’گلشن‘‘ کی آب یاری کی ہے۔ 

یقین جانیے ،ڈرائنگ رُوم میں اپنے بیوی بچّوں یا دوست احباب کے ساتھ چائے انجوائے کرتے ہوئے ’’فوج بجٹ کا اسّی فی صد کھا جاتی ہے یا انہیں بہت مراعات ملتی ہیں‘‘کہنا انتہائی آسان ہے، لیکن تنقید کرتے ہوئے ہم میں سے اکثر لوگ یہ بھول جاتے ہیں کہ ہر طرح کی مراعات ، مال و دولت، عیش آرام، جواں سال بیٹے، سہاگ یا باپ کے شفیق سائے کے آگے بے مول ہے۔ اسی لیے ہم نے چند شہداء کے اہلِ خانہ سے بات چیت کی اور پوچھا کہ’’بیٹے، شوہر یا بھائی کی شہادت کے بعد زندگی میں کیا تبدیلی آئی، اس غم سے کیسے نبرد آزما ہوئے؟‘‘تو ایس ایس جی کمانڈو، کیپٹن وسیم رازی شہید کے بھائی نے بتایا ’’ ہم چار بہن ،بھائی تھے۔ 

کیپٹن وسیم رازی شہید
کیپٹن وسیم رازی شہید

وسیم بچپن ہی سے بلا کا شرارتی ، مگر بے حد ذہین تھااور فوجی بننے کا تو جیسےجنون تھا اُسے۔ سارا دن ہینگر اُلٹا کرکے اس کی گن بنا کر کھیلتا رہتا ۔ اس کی شہادت تیراہ ویلی میں 5 اپریل 2013ء کو ہوئی۔ امّی اُن دنوں نانی کے پاس اسلام آباد گئی ہوئی تھیں، توشہادت سے ایک رات پہلے وہ امّی کے پاس گیا اور کہا ’’ کل صبح جہاد پر جا رہا ہوں، آپ کی اجازت لینے آیا ہوں؟‘‘ 

کیپٹن وسیم کی آخری آرام گاہ
کیپٹن وسیم کی آخری آرام گاہ

(فوج کا اصول ہے کہ کسی بھی آپریشن پر جانے سے قبل والدین کی اجازت لی جاتی ہے) امّی نے کہا ’’بیٹا! مَیں نے تو اُسی دن اجازت دے دی تھی، جب تم نے یہ خاکی وردی پہنی تھی، ربّ راکھا۔‘‘ یہ کہہ کر امّی نے اسے گلے لگانے کی کوشش کی تو وہ اُٹھ کھڑا ہوا کہ ’’دیر ہورہی ہے، ‘‘ وہ نہیں چاہتا تھا کہ امّی اسے گلے لگا کر روئیں۔ پھر انہوں نے وسیم سے پوچھا ’’تم جا کہاں رہے ہو؟‘‘ ’’آپ کےاور ابّو جی کےلیے جنّت کمانے۔‘‘ بس اتنا کہہ کر چلا گیا اور اگلے دن اس کی شہادت کی خبر آگئی۔‘‘

لیفٹیننٹ فیض شہید
لیفٹیننٹ فیض شہید

لیفٹیننٹ فیض اعوان شہید کے والد نے انتہائی فخر سے بتایا کہ ’’فیض ایک شیر دل جوان ، انتہائی تابع دار بیٹااور خیال رکھنے والا بھائی تھا۔ چُھٹّی پر گھر آتا تو اپنی ماں کے ساتھ برتن دُھلواتا، بہنوں کے کپڑے استری کرتا، میرے پَیر دباتا۔ وہ 11جون 2009ء کو مہمند ایجینسی میں شہادت کے درجے پر فائز ہوا۔ اس کی کمپنی کو ایک پہاڑی، ’’زرِ سر‘‘ کلیئر کروانے کا ٹاسک دیا گیا تھا۔ میرا 22 سالہ فیض، 22 سپاہیوں کی پلاٹون کوکمانڈ کر رہا تھا۔جب اس کی شہادت ہوئی تو اس کے ایک سینئر افسر نے مجھے کال کرکے پوچھا ’’آپ کے کتنے بیٹے ہیں؟‘‘ 

مَیں نےکہا ’’ آپ یہ بتائیں، میرا جو بچّہ آپ کے پاس ہے، اس کی کیا خبر ہے؟‘‘ جس پر انہوں نے کہا ’’ ملک صاحب! لیفٹیننٹ فیض شہید ہو گئے ہیں۔ہم ان کا جسدِ خاکی کس پتے پر بھیجیں کہ آپ کے دو پتے لکھے ہوئے ہیں۔‘‘ مَیں نے کہا ’’جناب! اگر فیض نے سینے پر گولی کھائی ہے، تو باڈی چکوال بھیج دیں کہ وہ ہمارا آبائی گاؤں ہے اور اگر پیٹھ پر کھائی ہے تو آپ اُسے جہاں چاہیں، دفنا دیں۔‘‘ 

جواباً افسر نے کہا مَیں تھوڑی دیر میں آپ کو کال بیک کرتا ہوں۔ پھر انہوں نے بتایا کہ ’’ فیض نے سینے پر 22 گولیاں کھائیں، 35 طالبان مار گرائے اور زخمی ہونے کے با وجود ’’اللہ اکبر‘‘ کا نعرہ بلند کرتے ہوئے چوٹی کلئیر کروائی، وہاں پاکستان کا جھنڈا لہرایا اور شہید ہوگیا۔‘‘ جوان بیٹے کے جنازے کا بوجھ، باپ کی کمر توڑ کے رکھ دیتا ہے، فیض کے ساتھ ہمارے گھر کی رونق بھی چلی گئی، لیکن مجھے خوشی ہے کہ فیض نے میرا شملہ اونچا کردیا۔‘‘

کیپٹن علی شہید کی والدین کے ساتھ ایک یاد گار تصویر
کیپٹن علی شہید کی والدین کے ساتھ ایک یاد گار تصویر

کیپٹن علی شہید کے والد کچھ یوں گویا ہوئے’’میرے جگر گوشے کی شہادت 23مئی 2011 ء کو سوات میں ایک آپریشن کے دوران ہوئی۔ اس کا تعلق ایس ایس جی، یونٹ 5 کمانڈو سے تھا۔ شہادت سے ایک دن قبل اس کا فون آیا تھا کہ ’’مجھے شارٹ کورس کے لیے کوئٹہ جانا ہے، اس لیے گھر آرہا ہوں۔‘‘ اگلے دن اُس کی ماں اس کا پسندیدہ کھانا تیار کیے راہ تکتی رہی، مگر علی نہ آیا۔ بالآخر مَیں نے رات کو اس کے یونٹ کال کی تو پتا چلا کہ علی تو گھر آنے کے لیے نکلا ہی نہیں۔ اس کے ایک سینئر افسر نے مجھے بعد میں بتایا کہ ’’جب مَیں نمازِ عشا ءکے لیے کھڑا ہوا تو علی اقامت کروا رہا تھا۔ 

بعد از نماز مَیں نے پوچھا کہ ’’تم گھر نہیں گئے؟‘‘ تو کہنے لگا ’’سر! میرا دل نہیں مانا۔ آج آخری آپریشن ہے، اس میں حصّہ لے لوں پھر آرام سے گھر جاؤں گا۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے وردی پہنی اور آپریشن ایریا کے لیے تیار ہو گیا۔ گھر آنے سے ایک رات پہلے تک علی تین آپریشنز میں حصّہ لے چُکا تھا، جس میں سے تیسرے آپریشن میں طالبان سے ہمارے گیارہ جوانوں کے جسدِ خاکی چھین کر اور متعدّد طالبان کو جہنّم واصل کرکے لَوٹا تھا۔میرا علی دشمنوں کے لیے جتنا بے رحم اور سخت دل تھا، غربا کے لیے اُتنا ہی دردمند تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ہم اس کی ساری پینشن غریبوں میں تقسیم کردیتے ہیں کہ یہی تو ہمارے علی کی خواہش تھی۔‘‘

میجر ثاقب شہید
میجر ثاقب شہید

مسز نگہت ثاقب بھرّائی ہوئی آواز میں بولیں’’ ثاقب…!! ہمارا نکاح 2017ء میں اور رخصتی16 فروری 2019ء کو ہوئی تھی۔ مَیں اور وہ بمشکل ایک ڈیڑھ مہینہ ہی ساتھ رہ سکے کہ ان کی پوسٹنگ باجوڑ میں ہوگئی تھی، ان کا تعلق 20 آزاد کشمیر رجمنٹ سے تھااور وہ اپنی یونٹ کے تیسرے شہید ہیں۔ وہ جس ایریا میں پوسٹڈ تھے ،وہاں نیٹ ورک نہیں تھا، تو جب نیچے کی طرف آتے تومیسیج کرتے، مگر ہر وِیک اینڈ پر کال ضرورکرتے تھے۔ اُن کی شہادت 5 اگست 2019ء کو ہوئی اور شہادت سے چند لمحوں پہلے ہی میری ان سے بات ہوئی تھی۔ 

میجر ثاقب شہید کی آخری آرام گاہ
میجر ثاقب شہید کی آخری آرام گاہ

ہماری شادی کے بعد پہلی بقر عید آنے والی تھی، چھوٹی عید پر تو وہ نہیں آسکے تھے، تو انہوں کہا تھا کہ ’’عید الاضحی پر آؤں گا‘‘، مگر پھر اُس پر بھی نہیں آسکے۔ لہٰذا مَیں اداس تھی کہ دونوں ہی تہوار ہم اکٹھے نہیں منا سکے۔ کہنے لگے ’’پریشان مت ہوا کرو، مَیں جس پوسٹ پر ہوتا ہوں، وہاں سگنلز نہیں آتے، اس لیے بروقت ریپلائی نہیں کر پاتا۔ اب نیچے کی طرف جا رہا ہوں۔‘‘ بس پھر مَیں نمازِ مغرب ادا کرنے چلی گئی ۔ 

اتنی دیر میں میرے سُسر کی کال آئی کہ ’’ثاقب شہید ہو گیا ہے، دشمن نے اس کی جیپ کو ٹارگٹ کرکے آئی ای ڈی پلانٹ کیا تھا۔‘‘میرے لیے یہ صرف خبر نہیں، قیامت تھی۔ ابھی تو ہم نے ایک نئےسفرکی شروعات ہی کی تھی، میری منہدی کا رنگ بھی پھیکا نہیں پڑا تھا کہ میرا سہاگ اس دھرتی ماں پہ اپنے لہو کے رنگ بکھیر کر سُرخ رو ہوگیا۔ 

آرمی کی جانب سے گھر ملا ہوا ہے، شوہر کی پینشن بھی آتی ہے، لیکن میرے لیے یہ ساری چیزیں بے معنی ہیں۔ مَیں ہر رات دُعا مانگتی ہوں کہ ’’اے کاش! یہ میری زندگی کی آخری رات ہو‘‘ لیکن ایسا نہیں ہوتا، ایک ویرانی میرے اندر اُتر چُکی ہے، جو کبھی ختم نہیں ہو سکتی۔ ثاقب کا تعلق لوئر مِڈل کلاس گھرانے سے ہے، وہ چار بہنوں کے اکلوتے بھائی تھے، آنٹی ،انکل نے بہت محنت سے ان کی تعلیم وتربیت کی تھی۔ بہر حال،ہم سب کو میجر صاحب پر بے حد فخر ہے کہ انہوں نے اپنا آج اس وطن کے کل پر قربان کردیا۔ ‘‘

میجر عدیل شاہد شہید
میجر عدیل شاہد شہید

میجر عدیل شہید کے والد فخریہ انداز میں بولے’’ میرا بیٹا پاک افغان بارڈر پر تعیّنات تھا، وہ وہاں باڑ لگانے کا کام سُپر وائز کر رہا تھا۔اس کی شہادت 20 ستمبر 2019ء کو ہوئی۔ شہادت سے ایک رات پہلے عدیل نے مجھے کال کی اور کہا ’’ ابّو !I am going on operation and tomorrow is a big battle کچھ بھی ہو سکتا ہے، تو آپ میرے لیے دُعا کیجیے گا کہ جو عہد مَیں نے اس پاک وطن سے کیا ہے، وہ وفا کر سکوں۔ ‘‘ مَیں نے کہا ’’اللہ تمہیں سُر خ رُو کرے۔ہماری دُعائیں تمہارے ساتھ ہیں۔‘‘

اُس کی ایک خاص بات یہ تھی کہ جو کام کرنے کی ٹھان لیتا، وہ کرکے ہی دَم لیتا، چاہے سارا زمانہ اُس کے خلاف کیوں نہ ہو، وہ ہمیشہ حق بجانب رہتا۔ مجھے یاد ہے وہ کھیل کھیل میں فوجی بنتا اور اپنی دونوں بہنوں کی ڈیوٹی لگاتا کہ مَیں شہید ہوجاؤں گا اور تم لوگ کمرے میں بچھی چاندنی مجھ پر ڈال کراس پر جھنڈا رکھ دینا۔ وہ اکثر کہتا تھا ’’ موت تو ایک دن سب ہی کو آنی ہے، مگر مَیں سِسک سِسک کر بستر پر، کسی سڑک یا بڑھاپے میں نہیں مرنا چاہتا، میدانِ جنگ میں شیروں کی طرح لڑتے ہوئے شہید ہونا چاہتا ہوں ۔‘‘ اور دیکھیں، اللہ نے اس کی دِلی خواہش پوری کی۔‘‘

لیفٹیننٹ ذیشان وزیر شہید، والد کے ساتھ
لیفٹیننٹ ذیشان وزیر شہید، والد کے ساتھ

پاک بحریہ کے لیفٹیننٹ ذیشان وزیر شہید کے والد وزیر احمد کچھ یوں گویا ہوئے’’ہمارا تعلق ہری پور ہزارہ سے ہے اور میرے تین بیٹے ہیں۔ ذیشان سب سے چھوٹا اور بہت پیارا بچّہ تھا۔ وہ کہتے ہیں ناں کہ ’’پُوت کے پاؤں پالنے سے نظر آجاتے ہیں‘‘ تو اس کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی تھا۔ میرا ذیشان بچپن ہی سے انتہائی تابع دار، سمجھ دار اور ذہین تھااور اس بات کی گواہی پورا علاقہ دیتا ہے۔اس کا تعلق بحریہ کی ایوی ایشن برانچ سے تھا۔ اس کی شہادت 4اکتوبر 2010ءکو ہوئی ۔ 

وہ کراچی میں پوسٹڈ تھا، لیکن روزانہ ہمیں کال کرتا تھا۔ میری اور اس کی امّی کی سخت ہدایت تھی کہ ڈیوٹی کے اوقات ِ کار میں کال نہیں کرنا کہ آپ کا فرض پہلے اور ہم بعد میں ہیں۔ لیکن خلافِ معمول شہادت والے روز اس نے دوپہر ساڑھے بارہ بجے کال کی اور کہا ’’ابّو جی ! آپ سے اور امّی سے بات کرنے کو دل چاہ رہا تھا، امّی سے بھی بات کروا دیں ۔‘‘ ہمیں کیا پتا تھا کہ یہ ذیشان کی آخری کال ہے۔ اس کی ماں اکثر کہتی ہے کہ ’’ابھی تو میرے لال کے سہرے کے پھول بھی نہیں مُرجھائے تھے‘‘ ذیشان کی شادی کو دو ماہ بھی پورے نہیں ہوئے تھے اور وہ شہید ہو گیا۔ لیکن میرے دل کو صبر آگیا ہے، مجھے خوشی اور فخر ہے کہ مَیں ایک بہادر سپوت کا باپ ہوں، وہ تو اللہ کی امانت تھا، اس نے واپس لے لیا، لیکن اُس نےکم عُمری میں جو عزّت کمائی ،وہ کسی کسی کے نصیب میں آتی ہے۔‘‘

لیڈنگ میرین، شہباز علی شہید
لیڈنگ میرین، شہباز علی شہید

رانی فریدہ ، لیڈنگ میرین، شہباز علی شہید کی بیوی ہیں۔ انہوں نے بات کا آغاز کچھ اس انداز میں کیا’’ہمارا تعلق فیصل آباد سے ہے اور ہمارے تین بچّے (دو بیٹے، ایک بیٹی) ہیں۔ شادی کو 9سال ہوئے تھے۔ شہباز انتہائی شفیق باپ، سعادت مند بیٹے اور بے حد محبّت کرنے والے شوہر تھے۔ شہباز ،بسول ڈیم، اورماڑہ کی سائٹ سروے کرنے والے اعلیٰ عہدے داروں کی سیکیوریٹی پر مامور ٹیم میں شامل تھے۔ ان کی شہادت 30 دسمبر 2015 کو ہوئی اور میری ان سے ایک دن پہلے ہی بات ہوئی تھی۔ 

مَیں نے پوچھا کہ ’’اتنے دن ہوگئے، چُھٹّی کب ملے گی؟‘‘ تو کہنے لگے ’’ پہلی کے بعد آجاؤں گا۔ تمہیں یا بچّوں کو کچھ چاہیے تو بتادو ۔‘‘ مَیں نے کہا ’’بس آپ آجائیں اورکچھ نہیں چاہیے۔‘‘ امّی سے بات کرتے اور وہ پوچھتیں کہ ’’بیٹا!جہاں تم کام کرتے ہو، وہاں کوئی خطرہ تونہیں ہے ناں؟‘‘تو شہباز ہنستے ہوئے جواب دیتے ’’ماں جی! آپ کا بیٹا ہر خطرے کا سامنا ہنستے ہنستے کرلے گا، مگر کبھی اس وطن پر آنچ نہیں آنے دے گا۔ آپ تو بس میرے لیے دُعا کیا کریں۔ اس سے اچھی اور کیا بات ہوگی کہ مجھے شہادت نصیب ہو۔‘‘ شہباز کے ساتھی بتاتے ہیں کہ 30 دسمبر 2015 ءکو انہیں سیکیوریٹی ٹیم کا اِن چارج مقرّر کیا گیاتھا۔ اورماڑہ سے40 کلومیٹر کے فاصلے پر جب سروے ٹیم کوسٹل ہائی وے سے کچے راستے پر اُتری تو سیکیوریٹی خدشات کے پیشِ نظر شہباز نے اپنی گاڑی سب سے آگے رکھی اورباقی گاڑیوں کو ایک مخصوص فاصلہ برقرار رکھنے کی ہدایات دیں۔ 

سائٹ سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر دہشت گردوں نے سروے ٹیم پر حملہ کرنے کی کوشش کی ، توشہباز نے فوراً اپنی گاڑی کو اس طرح پوزیشن کیا کہ وہ نہ صرف شر پسندوں کو بھرپور جواب دے سکیں بلکہ سروے ٹیم کو محفوظ رکھتے ہوئے سیکیوریٹی ٹیم میں شامل اپنے دیگر ساتھیوں کا تحفظ بھی یقینی بنا سکیں۔ اسی دوران انہیں متعدّد گولیاں لگیں، مگر وہ شرپسندوں کے سامنے سینہ سپر رہے۔

شہباز نے شرپسندوں کو اس وقت تک اپنی جانب متوجہ رکھا ،جب تک کارواں میں شامل تمام گاڑیاں محفوظ راستے پرگام زن نہ ہو گئیں ، یوں ان کے تمام ساتھی اور ٹیم تو محفوظ رہی،لیکن میرے بچّوں کا سایہ چِھن گیا۔ اب ہماری زندگی میں پہلے جیسا کچھ نہیں رہا، گوکہ مَیں اپنی اولاد کو ماں اور باپ دونوں کا پیار دینے کی ہر ممکن کوشش کرتی ہوں، لیکن ان کے بابا کی کمی پوری نہیں کر پاتی۔ یہاں ایک بات کا ذکر ضروری سمجھتی ہوں کہ شاید میرے لیے شہباز کے بغیر زندگی کا سفر مزید مشکل ہوجاتا، اگر پاک بحریہ کا تعاون نہ ہوتا۔ مَیں تعلیم یافتہ تھی، تو مجھے نیول ری کروٹمنٹ سینٹر، فیصل آباد ہی میں ملازمت مل گئی۔ بڑا بیٹا، جو اب ساتویں کلاس میں ہے ،وہ بھی یہی کہتا ہے ’’مَیں بھی بابا کی طرح فوجی بن کر پاکستان کی خدمت کروں گا۔ مجھے بھی بابا کی طرح بہادر سپاہی بننا ہے۔‘‘

پیٹی آفیسر انوار الحق شہید کی شادی کے موقعے پر یادگار تصویر
پیٹی آفیسر انوار الحق شہید کی شادی کے موقعے پر یادگار تصویر

پیٹی آفیسر انوار الحق شہید کی بیوی ثمینہ یاسمین کا کہنا ہے کہ ’’میرے شوہر کی شہادت 4 مارچ 2008ء کو ہوئی۔ شہادت سے کچھ دیر قبل ہی میری ان سے فون پر بات ہوئی تھی۔ وہ پاکستان نیوی وار کالج، لاہور میں سیکوریٹی ڈیوٹی پر مامور تھے۔ اُس روز کالج پر دہشت گردوں نے خود کُش حملہ کردیا تھا اور وہ کالج کے اندر داخل ہوکر تباہی پھیلانا نا چاہتے تھے۔ مگر انوار کی بر وقت کارروائی سے وہ کام یاب نہ ہو سکے اور طلبہ اور اساتذہ کی جانیں بچ گئیں، لیکن انوار شہید ہوگئے۔ انہیں اس بہادری پر ستارۂ بسالت سے بھی نوازا گیا۔ جب کالج پر حملے کی خبر آئی تو میرے جیٹھ نے مجھ سے کہا کہ انوار کی خیریت معلوم کرو کہ اس کے کالج پر حملہ ہوا ہے۔ 

مَیں نے جواب دیا ’’بھائی! میری ابھی آدھے گھنٹے پہلے ہی ان سے بات ہوئی ہے ،وہ بالکل ٹھیک ہیں۔‘‘ جس پر جیٹھ نے کہا کہ پھر بھی کال تو کرو، تو جب مَیں نے کال کی تو اُن کا فون نہیں مل رہا تھا۔ مگر مَیں پھر بھی مطمئن تھی کہ تھوڑی دیر قبل ہی تو بات ہوئی تھی اور وہ کہہ رہے تھے کہ ’’ کل گھر آرہا ہوں۔ پھر بچّوں کو لے کر گھومنے چلیں گے۔‘‘ مَیں تو اُن کی راہ تک رہی تھی، انہوں نے جو کہا وہ پورا کیا اور اگلے دن آگئے، مگر سبز ہلالی پرچم میں۔ 

ہماری شادی کو صرف پانچ سال ہی ہوئے تھے، سب سے بڑا بیٹا ڈھائی سال کا، بیٹی ڈیڑھ سال کی تھی اور چھوٹا بیٹا انوار کی شہادت کے چار ماہ بعد پیدا ہوا، جسے باپ کی گود بھی نصیب نہ ہو سکی۔ ویسے تو ہر ماہ با قاعدگی سے پینشن ملتی ہے، لیکن پینشن کبھی باپ کا نعم البدل نہیں ہو سکتی۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ’’شہادت کے بدلے پیسا ملتا ہے‘‘، تو مَیں اُن سے کہنا چاہوں گی کہ میرے پاس جو کچھ بھی ہے، سب لے لو، مگر میرا سہاگ، میرے بچّوں کا باپ لوٹا دو۔شہید کے لوا حقین کو اللہ کا وعدہ کہ ’’شہید کو مُردہ نہ کہو، وہ تو زندہ ہیں۔ اپنے ربّ کے پاس رزق پارہے ہیں‘‘ اور یہ اطمینانِ قلب کہ ’’شہید کی جو موت ہے، وہ قوم کی حیات ہے‘‘جیتا رکھتا ہے، وگرنہ اپنے پیارے تو ہر ایک کو پیارے ہوتے ہیں۔‘‘

وِنگ کمانڈر ذیشان شہید اپنے بچوں کے ساتھ
وِنگ کمانڈر ذیشان شہید اپنے بچوں کے ساتھ

مسز مریم ذیشان نم ناک لہجے میں کچھ یوں گویا ہوئیں ’’میرے شوہر، وِنگ کمانڈر ذیشان شہید ایک مثالی باپ، شوہر ،بیٹے اور انتہائی قابل ائیر فورس آفیسر تھے۔ وہ اپنے بچّوں کے سُپر ہیرو، بیسٹ فرینڈ تھے۔ وہ 8 اگست 2017ء کی ایک قیامت خیز رات تھی، جب ذیشان رُوٹین نائٹ فلائٹ پر گئے اور اُن کا جہاز کریش ہو گیا۔ ہماری ایک ماہ پہلے ہی میاں والی پوسٹنگ ہوئی تھی، تو ہم عارضی طور پر گیسٹ ہاؤس میں رہ رہے تھے۔ خیر، 8 اگست کی رات ایک اور آفیسر کی اہلیہ کی کال آئی کہ ’’تھوڑی دیر کے لیے باہر آجائیں۔‘‘میرے دونوں بچّے سو چُکے تھے، مجھے لگا کہ 14 اگست کی تقریب کی تیاری کے لیے میٹنگ رکھی ہے ۔ 

بہرحال، جب میں پہنچی تو خلافِ توقع بیس کمانڈر کی مسز بھی موجود تھیں اور کمرے میں بھیانک خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ اُنہیں دیکھ کر مجھے بے حد حیرانی ہوئی کہ وہ کبھی میٹنگز وغیرہ میں نہیں آتی تھیں، تو مَیں نے پوچھا کہ ’’خیریت تو ہے؟‘‘ انہوں نے مجھے اپنے پاس بٹھایا اور تحمّل سے سمجھایا کہ ’’ذیشان کا جہاز کریش ہو نے کی اطلاعات ہیں۔ مگر اللہ پر بھروسا رکھو، انہوں نے یقیناً ایجیکٹ کرلیا ہوگا، مگر فی الحال تلاش جاری ہے۔‘‘ 

ان کی بات سُن کر مَیں تو جیسے سکتے میں آگئی ، لیکن جانتی تھی کہ ذیشان ماہر پائلٹ ہیں، وہ محفوظ ہوں گے۔ ساری رات سِسکیوں اور دُعاؤں میں گزر گئی۔ اگلے روز میرے ماموں اور بھائی بھی پہنچ گئے اور پھر انہوں نے ہی مجھے ذیشان کی شہادت کی خبر سُنائی۔ مجھے بے حد فخر ہے کہ میرے شوہر نے جامِ شہادت نوش کیا، لیکن ان کے بعد جو ہماری زندگیوں میں خلا پیدا ہوا ہے، وہ کبھی پُر نہیں ہو سکتا۔ جب ذیشان تھے، تو مَیں بچّوں پر سختی کرتی تھی، جیسے ہر ماں کرتی ہے، لیکن اب ڈانٹ ڈپٹ کی نوبت نہیں آتی کہ میرے بچّوں نے ہنسنا بولنا، شرارتیں کرنا ہی چھوڑ دیا ہے۔ مجھے تو بچّوں کی خاطر خود کو مضبوط کرنا پڑا، لیکن میرے دونوں بچّے اینٹی سوشل ہوگئے ہیں، انہوں تو جیسے خود کو کسی خول میں بند کرلیا ہے۔‘‘

تازہ ترین