• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مجھے آج کل پھر قاہرہ، مصر، بہت سے مصری دوست اور اہرام مصر یاد آ رہا ہے۔ مصر میں رابعہ بصری کی زندگی پر ایک فلم بنی تھی جس کا نام تھا ”رابعہ العدویہ“ اس فلم میں ایک حمد مصر کی عالمی شہرت یافتہ مغنیہ ام کلثوم نے پڑھی تھی۔ اس نغمے کی شان تھی کہ یہ پوری عرب دنیا میں بے حد مقبول ہوا۔ جب ریڈیو پر یہ حمد آتی تو عرب دنیا کے بادشاہ اور صدر تک تعظیماً خاموش ہو جاتے اور پورے انہماک سے اس حمد کو سنتے۔ پاکستان میں برادرم عارف آفندی نے کہ مصریوں سے ان کی دوستی تھی، اس فلم کو اردو میں ریلیز کرنے کے حقوق حاصل کئے۔ اس فلم کی اردو میں ڈبنگ میں نے کی اور پھر ام کلثوم والی حمد کو بھی اردو میں پیش کرنے کا فیصلہ کیا۔ شجاع فاروقی نے اس حمد کے ترجمے کو منظوم کیا اور مشہور گلوکارہ مہہ ناز نے اس حمد کو بہت خوبصورتی سے پڑھا۔ اردو میں اس فلم کا نام ”عابدہ“ رکھا گیا اور اس فلم نے کراچی میں پلاٹینیم جوبلی کی یعنی یہ سو ہفتے تک چلی۔ عارف آفندی صاحب نے فلم کی اس کامیابی کی خوشی میں مجھے مصر، انگلینڈ اور واپسی میں عمرے کیلئے سعودی عرب کا ٹکٹ دیا۔ اس طرح میں پہلی بار 1980ء میں مصر گیا۔
ایئرلائن کی طرف سے مجھے ہوٹل دیا گیا تھا۔ ابھی سامان رکھوا کر میں کمرے میں بیٹھا ہی تھا کہ استقبالیہ کی طرف سے ٹیلیفون آیا۔ ”مسٹر عظیم! آپ اہرام مصر دیکھنے کب جائیں گے؟ ہم آپ کے لئے ٹیکسی کا بندوبست کر دیں گے“۔ میں نے ان کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ مجھے ابھی کہیں نہیں جانا ہے، تھوڑی دیر بعد پھر فون آیا تو میں نے کہا ”میں جامعة الازہر دیکھنے کیلئے جانا چاہتا ہوں۔ ”استقبالیہ والے نے کہا ”آج تو جامعہ بند ہے“۔ وہ چھٹی کا دن تھا اور مجھے قاہرہ جا کر جامعة الازہر نہ دیکھنے کا افسوس ہوا۔ میں نے دل میں سوچا چلو واپسی میں چلے جائیں گے۔
دوسرے دن جب میں لندن کیلئے روانہ ہو رہا تھا تو لاؤنج میں میری ملاقات ناجیہ سے ہوئی۔ ناجیہ عبدالعزیز جو اب ناجیہ عثمان بن گئی تھی۔ ریڈیو پاکستان کی عربی سروس میں پروگرام کرنے آتی تھی۔ اس کے شوہر عبدالعزیز کراچی یونیورسٹی کے شعبہٴٴ عربی سے وابستہ تھے، وہ بھی پروگرام کرتے تھے۔ گفتگو کے دوران اکثر مصر کی تاریخ اور پھر اہرام مصر کا ذکر آتا تھا۔ ناجیہ اکثر کہا کرتی کہ عظیم تم مصر آنا پھر میں تم کو اہرام مصر دکھانے کے لئے لے چلوں گی۔ ناجیہ اب قاہرہ ایئرپورٹ کی بڑی آفیسر تھی۔ وہ خاکی وردی میں ملبوس تھی، اس نے مجھ سے پہلا سوال ہی یہ کیا ”ہاں! تم نے اہرام مصر دیکھے، کیسے لگے، کیا تم متاثر ہوئے؟“ میں نے کہا، ناجیہ! میں نے اہرام مصر نہیں دیکھے، نہ میں ان کو دیکھنا چاہتا ہوں، میں فراعین کی قبروں پر کیوں جاؤں، میں ان کے مقبروں کی عمارات کو کیوں دیکھوں؟ ناجیہ ہنسی اور بولی ”تم اس عرصے میں خاصے سمجھدار ہو گئے ہو۔ یہ جو ساری دنیا اہرام مصر کو دیکھنے آتی ہے تو کیا وہ بے وقوف ہیں؟“
میں نے کہا ”ہو سکتا ہے، بے وقوف ہوں یا وہ اپنے آپ کو فرعون کی آل سمجھتے ہوں“۔
ناجیہ بولی ”کیا مطلب ہے تمہارا؟“ میں نے کہا ”آخر تمہارا ایک صدر جمال عبدالناصر فخریہ کہا کرتا تھا ”نحن ابنا الفرعون“ (ہم فرعون کے بیٹے ہیں) ناجیہ بڑے ظرف کی خاتون تھی۔ وہ میری بات پر ہلکا سا ہنس دی ورنہ وہ ایک بہت بڑی افسر تھی اور مصر میں حسنی مبارک کی حکومت تھی۔
مجھے لندن کے براڈ کاسٹنگ اسکول میں اپنا کلاس فیلو عبدالوہاب مصری بھی یاد آ رہا ہے۔ وہ اخوان کا حامی تھا۔ اس سے اکثر مصر میں فوجی حکومتوں اور ڈکٹیٹروں کے مظالم پر بات ہوا کرتی تھی۔ ایک دن میں نے اس سے کہا ”عبدالوہاب! ایک بات بتاؤ، تم لوگوں نے کبھی سوچا ہے کہ مصر پر ایک پڑھا لکھا ملک ہونے کے باوجود ڈکٹیٹرشپ کیوں مسلط ہو جاتی ہے۔ پہلے مصر میں بادشاہت تھی وہ گئی تو آمریت آ گئی۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ عبدالوہاب اس کی مختلف توجیہات پیش کرتا تھا۔ وہ کہتا تھا کہ مصر بھی یورپی طاقتوں کا غلام رہا اس لئے یہاں اس طرح کی ذہنیت کو اعلیٰ سطح پر پروان چڑھنے کا موقع مل گیا وغیرہ وغیرہ۔ ایک دن میں نے کہا ”عبدالوہاب! کیا اس کی وجہ اہرام مصر اور ابوالہول جیسے بت نہیں جو آپ لوگوں نے سنبھال، سنبھال کر رکھے ہوئے ہیں“۔ عبدالوہاب چونکا ”کیا مطلب ہے تمہارا؟“ میں نے کہا ”ان چیزوں کو نہیں ہونا چاہئے“۔ عبدالوہاب بولا ”ان کے ذریعے مصر کی سیاحت کی صنعت زندہ ہے، مصر اربوں پاؤنڈ کماتا ہے“۔ میں نے کہا ”میں یہی بات تو کہہ رہا ہوں کہ اہرام مصر کے تعلق کا رزق جو تم کھاتے ہو وہ کیا چیز پیش کرے گا۔ بادشاہت، آمریت، شخصی حکومت، ظلم…!“
عبدالوہاب مصری میری باتوں پر کبھی ہنسنے لگتا، کبھی خاموش ہو جاتا۔
لندن کے ”مائنڈ باڈی اسپرٹ“ (Mind Body Spirit) فیسٹیول میں ایک ورک شاپ میں میرے ساتھ کی نشست پر ایک شخص بیٹھا تھا۔ وقفے میں ہیلو، ہائے ہوئی تو وہ مصری نکلا۔ یہ ورکشاپ روح اور نفس کے بارے میں تھا۔ اس کے بعد ہم دونوں چائے کیلئے کینٹین میں جا بیٹھے۔ باتیں چھڑیں تو ہم مصر پہنچ گئے۔ بات ہو رہی تھی کہ ہر نفس، ہر وجود کے اردگرد ایک مقناطیسی ہالہ ہوتا ہے، تو ہر عمارت کے گرد بھی ایک ہالہ ہوتا ہے جس کو AURA کہا جاتا ہے۔ اس مصری کا نام عبدالحکیم تھا۔ میں نے اس سے پوچھا ”کیا تم نے کبھی اہرام مصر کے AURA کے بارے میں غور کیا ہے؟“ عبدالحکیم نے کہا ”نہیں میں نے کبھی غور نہیں کیا“۔ عبدالحکیم قاہرہ ہی کا رہنے والا تھا۔ میں نے پوچھا اہرام مصر کے سامنے کھڑے ہو کر، اسے دیکھ کر تمہیں کیسا محسوس ہوا؟ عبدالحکیم کچھ دیر سوچتا رہا، پھر بولا ”ہاں میں نے Comfortable محسوس نہیں کیا بلکہ یوں کہو، مجھے ایک وحشت سی محسوس ہوئی“۔ میں نے پوچھا ”کیا ہر بار یہی کیفیت رہی؟“ اس نے کہا ”ہاں جب بھی گیا میں نے اچھا محسوس نہیں کیا“ میں نے کہا کہ AURA کے اصولوں کے مطابق یہ اہرام جو مخروطی شکل کے ہیں منفی قوت پیدا کرتے ہیں اور اگر تم غور کرو تو یہ سب اہرام منفی قوت پیدا کرنے کے بہت بڑے، بڑے ٹرانسمیٹر ہیں جن کے اثرات پورے مصر میں موجود ہیں اور وہاں منفی قوتیں پروان چڑھتی ہیں۔ عبدالحکیم نے کہا ”منفی قوتیں کیوں؟“ میں نے کہا، اس لئے کہ ان کی تعمیر فراعین نے کرائی اور انہوں نے ہر عمارت کیلئے مخروطی ڈیزائن ہی کا حکم دیا۔ اس کے برعکس اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبروں حضرت آدم اور حضرت ابراہیم سے جو عمارت بنوائی اس کا نقشہ مکعب نما دیا اور خانہٴ کعبہ کو دیکھ کر دل کی جو کیفیت ہوتی ہے اس کا تجربہ آپ کو بھی ہو گا۔ خانہٴ کعبہ ایک چوکور عمارت ہے، مثبت انرجی یعنی نور پیدا کرتی ہے۔ یہ محبت اور سلامتی کا پیغام دیتی ہے اور دل میں ایمان کی حرارت پیدا کرتی ہے۔“ عبدالحکیم بولا ”تو کیا ہم لوگ اہرام مصر کو گرا دیں؟“ میں نے کہا ”یہ بڑا فیصلہ ہے، اس پر حضرت ابراہیم کی بت شکنی، حضرت موسیٰ کے بت کو توڑنے اور جلانے اور فتح مکہ پر حضور اکرمﷺ کے اپنے ہاتھ سے بت توڑ کر فضا کو منفی AURA سے صاف کرنے کے واقعات پر غور کرنا چاہئے“۔
مصر میں ایک بار پھر آمریت کے سائے گہرے ہونا شروع ہوئے ہیں اور مجھے اپنے مصری دوست، قاہرہ اور مصر یاد آ رہا ہے۔ کیا الاہرام کے ٹرانسمیٹر پھر طاقت پکڑ رہے ہیں؟
تازہ ترین