• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

افغان طالبان کے خلاف امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک کو لڑائی شروع کئے 20برس گزر چکے۔ اس عرصہ میں وسیع پیمانے پر جانی و مالی نقصان کا سامنا کرنے کے بعد وہ بالاآخر پسپائی پر مجبور ہو گئے۔دو دہائیوں پر محیط اس جنگ میں مجموعی طورپر تقریباً ایک لاکھ 70ہزار سے زیادہ افراد لقمہ اجل بنے جن میں 2460 امریکی اہلکار، 4 ہزار امریکی کنٹریکٹرز، افغان نیشنل آرمی کے 66 ہزار اہلکار، اتحادی افواج کے 1150 اہلکار، 47 ہزار عام شہری اور 51 ہزار کے قریب طالبان جنگجو شامل ہیں۔ اس کے علاوہ انسانی حقوق کی تنظیموں کیلئے کام کرنے والے 444 کارکن اور 70 کے لگ بھگ صحافیوں کو بھی جان سے ہاتھ دھونا پڑے۔محتاط اندازے کے مطابق امریکی عوام کے ٹیکسوں کے 2 ٹریلین ڈالر کے قریب فنڈز اس جنگ میں جھونک دیے۔ امریکہ کی طرف سے 2001 میں شروع کی گئی اس جنگ کی وجہ سے لاکھوں افغان شہری نقل مکانی پر مجبور ہوئے جو آج بھی نامساعد حالات میں مختلف ممالک میں مہاجرین کے طور پر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔امریکہ اور اس کے اتحادی تو واپس لوٹ گئے لیکن آج ایک بار پھر افغانستان پر انہی طالبان کی حکومت ہے جن کے خلاف20سال قبل اس جنگ کا آغاز کیا گیا تھا۔ تاریخ کے ساتھ اس سے بڑا مذاق کوئی نہیں ہو سکتا مگر یہ سوال ضرور ابھرتا ہے کہ کیا ہم اس غلطی سے سبق سیکھیں گے؟

طالبان ملک کے دیگر علاقوں میں پیشقدمی کرتے ہوئے بغیر کسی مزاحمت کے افغان دارالحکومت میں داخل ہوئے۔ جب امریکہ کا آخری طیارہ فوجیوں اور دیگر عملے کو لے کر روانہ ہو رہا تھا تو اس وقت کابل میں جشن کا سماں تھا۔ شہر کی سڑکوں پر جابجا ہارن بجاتی گاڑیاں دیکھی گئیں جبکہ دو دہائیوں تک افغانستان پر قابض رہنے والوں کے حق میں آواز بلند کرنے والا کوئی نہ تھا۔اس عرصے کے دوران اْن دکھوں کا کوئی شمار نہیں جو افغان عوام نے برادشت کئے۔یہ وہ دکھ ہیں جو شاید انسان کی قوت برداشت سے بھی باہر ہوں۔ سب سے افسوسناک امر یہ ہے کہ سینکڑوں کی تعداد میں مرد،خواتین، بچے، بیمار اور لاچار افراد بھی ناکردہ گناہوں کا شکار ہو ئے۔ جن کا اس جنگ سے کسی قسم کاکوئی تعلق نہیں تھا۔ یہ وہ لوگ تھے جن کی تمام جمع پونجی جنگ کے دوران برباد ہو گئی۔

یہ جواز اس لئے نہیں پیش کیا جا رہا کہ 2001ء میں ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر ہونے والے دہشت گرد حملوں کے سانحہ کی اہمیت کو کم کیا جائے۔ دراصل یہ جنگ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے افغانستان کی اقدار، ثقافت، روایات اور رہن سہن کو بدلنے کی ایک کوشش تھی جس کی ناکامی کے بعد امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے لئے اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا کہ وہ جلد از جلد واپس چلے جائیں ۔

امریکہ اور اس کی اتحادی افواج کی پسپائی کے بعد طالبان کو ورثے میں جو سب سے بڑا چیلنج ملا ہے وہ ملک کو آگے لے جانے کا ہے ۔طالبان کی اعلیٰ قیادت کی طرف سے متعدد بیانات سامنے آئے ہیں جن میں مستقبل کا خاکہ پیش کیا گیا ہے وہ حکومت کے قیام کے لئے تمام شراکت داروں کو ساتھ لے کر چلنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے بنیادی انسانی حقوق کے ساتھ ساتھ خواتین کو دفاتر میں کام کرنے اور تعلیم کے حصول کی مکمل آزادی دینے کا بھی وعدہ کیا ہے۔کہنے کی حد تک تو یہ سب کچھ ٹھیک ہے تاہم ان پر عملدرآمد یقیناً طالبان قیادت کیلئے بہت بڑا چیلنج ثابت ہو سکتا ہے۔اگرچہ مخالف کیمپوں کی جانب سے طالبان حکومت میں شمولیت پر آمادگی کا اظہار کیا جا رہا ہے تاہم یہ اطلاعات بھی زیرِگردش ہیں کہ یہ لوگ چند شرائط بھی پیش کر رہے ہیں۔ مخالف کیمپوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ دانشمندی کا مظاہرہ کریں اور کوئی ایسا لائحہ عمل اپنائیں جو دونوں فریقین کے لئے قابل قبول ہو۔

طالبان کو درپیش چیلنجز میں سب سے بڑا چیلنج ملک کی معاشی بحالی ہے جس کے لئے عالمی برادری کی حمایت کی ضرورت ہوگی اس میں علاقائی ممالک کا ایک اہم کردار ہوگا تاکہ ملک میں پائیدار اور مستقل امن کا قیام ممکن ہو سکے۔ ایسا تب ہو سکے گا جب طالبان حکومت معاشی پائیداری کے ساتھ جنگ سے تباہ حال ملک کے غریب اور مصیبت زدہ عوام کا معیارِ زندگی بہتر بنانے کیلئے اقدامات کریں گے۔ بدقسمتی سے اس حوالے سے اب تک مغربی رویہ انتہائی منفی رہا ہے، افغان حکومت کو فنڈز کی فراہمی بعض معیارات کے حصول سے مشروط کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ بہتر ہوتا کہ یہ ممالک طالبان کی حوصلہ افزائی کرتے۔ اس مرحلے پر محاذ آرائی طالبان کے ساتھ تعلقات پر دیرپا نقصان دہ اثرات چھوڑ سکتی ہے۔ افغانستان کے پڑوسیوں کا کردار بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ افغانستان کو معاشی اور سیاسی حمایت کی اشد ضرورت ہے۔ یہ ذمہ داری بھی بنیادی طورپر ان ممالک پر آئے گی جن کی سرحدیں افغانستان سے ملتی ہیں یا جو اس خطے میں واقع ہیں۔ انہیں طالبان حکومت کے ساتھ مل کر ایک جامع، پر امن اورمستحکم افغانستان کی بنیاد رکھنے کیلئے اہم کردار ادا کرنا ہوگا۔ فریقین میں سے کسی کے لئے کوئی آپشن نہیں سوائے اس کے کہ نوزائیدہ حکومت کے ساتھ قریبی تعلقات استوار کئے جائیں خصوصاً ایسا کرنا موجودہ حالات میں اور بھی زیادہ اہم ہے کیونکہ مغربی ممالک ہمیشہ طالبان کی نیت پر شک کریں گے، ان کی صلاحیتوں کوقبول نہیں کریں گے اور ان کی تضحیک کریں گے۔

اس بحث میں پڑے بغیر کہ نئی طالبان حکومت کیا کرے گی اور کیا نہیں اب طالبان کی حکومت ایک حقیقت ہے لہٰذانہیں بھرپور موقع ملنا چاہئے تاکہ وہ نئی حکومت تشکیل دے کر افغانستان کی معاشی بحالی اور ترقی کے لئے ایسے معیارمتعین کریں جن کے باعث مستقبل میں ملک و قوم دونوں کے لئے مثبت نتائج برآمد ہوں۔ اس کی نہ صرف افغان عوام کو بلکہ ان کے پڑوسیوں اور دنیا کے دیگر ممالک کو بھی ضرورت ہے۔ اس موقع پر ہم افغانستان کودوبارہ ماضی میں دھکیلنے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔

تازہ ترین