اسلام آباد (فاروق اقدس) مسلم لیگ (ن) میں مرکزی قائدین کے درمیان بیانیے کے موقف میں اختلاف رائے کا مسئلہ گوکہ خاصی طوالت اختیار کر چکا ہے اور اس وجہ سے قومی اسمبلی اور پارلیمانی ایوانوں کے باہر اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت ہونے کے باعث حکومت کے مقابلے میں اپوزیشن کو نقصان بھی پہنچا ہے۔
لیکن اس کے باوجود مسلم لیگ (ن) کے رہنما قائدین کے درمیان اعلانیہ طور پر اس حقیقت کو تسلیم کرنے سے انکاری ہیں۔
البتہ نجی محفلوں میں وہ اس صورتحال کے بارے میں اپنی تشویش کا اظہار ضرور کرتے ہیں تاہم اب خواجہ محمد آصف نے برملا اس صورتحال سے متعلق اپنے حقائق کا ان الفاظ میں برملا اعتراف کیا ہے کہ ’’ مفاہمت اور مزاحمت کے بیانیے میں مسلم لیگ (ن) پھنس کر رہ گئی ہے‘‘۔
خواجہ صاحب کی باتیں تلخ ضرور ہیں لیکن سچی ہیں اس لئے بالخصوص مسلم لیگی قائدین کو ان کے خلاف کسی قسم کی ’’ انضباطی کارروائی‘‘ یا ناراضی کا اظہار کرنے کے بجائے ان کی تجویز اور موقف پر مشاورت کرنی چاہئے اور پاکستان پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کو اعلانیہ طور پر پی ڈی ایم میں دوبارہ شرکت کا ماحول بنانا چاہئے اور غیر اعلانیہ سہی لیکن مفاہمت اور مزاحمت کے ’’ سیاسی گرداب‘‘ سے نکل کر مشترکہ اپوزیشن کیلئے مشترکہ موقف اختیار کرنا چاہئے۔
دوسری طرف اب کچھ ایسے اشارے مل رہے ہیں کہ مفاہمت اور مزاحمت کی سیاست سے مسلم لیگ (ن) کو جو سیاسی خسارہ ہوا ہے اس کا ادراک اب لندن سے جاتی عمرہ تک شدت سے ہو رہا ہے اور موقف میں ہم آہنگی پیدا کرنے کیلئے نواز شریف، میاں شہباز شریف اور مریم نواز مشترکہ موقف کے ساتھ آگے بڑھیں گے تاہم یہ مشترکہ موقف ’’ مزاحمت کے خاتمے کا ہوگا یا مفاہمت کے‘‘ اس کا فیصلہ جلد ہونے والی پیش رفت سے لگایا جاسکے گا۔
اطلاعات کے مطابق کراچی میں ہونے والے پی ڈی ایم کے سربراہی اجلاس جس میں نواز شریف نے لندن سے خطاب کیا تھا۔
اس میں انہوں نے مولانا فضل الرحمان سمیت تمام شرکاء کو رواں سال کے آخری ماہ دسمبر تک ملک بھر میں 30 سے زیادہ جلسے کرنے کی نہ صرف تجویز پیش کی تھی بلکہ جن شہروں اور آبادیوں میں یہ جلسے کرنے ہیں ان کے نام اور متعلقہ تفصیلات کے ایک پروگرام کا خاکہ بھی پیش کیا تھا اور یہ بھی بتایا تھا کہ اس حوالے سے انہوں نے تمام تفصیل شاہد خاقان عباسی کو تحریری طور پر فراہم کر دی ہے۔