• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عجیب اتفاق ہے، 9/11کے بعد افغان جنگ کے دوران امریکہ اور پاکستان کے 4حکمران تبدیل ہوئے۔ امریکہ کے صدر بش نے افغانستان پر جنگ تھوپی پھر ڈیمو کریٹس اقتدار میں آئے اور اوباما صدر بن گئے، ان کے دور میں اُنہوں نے اسامہ بن لادن کو پاکستان کی سرزمین پر بغیر اجازت رات کی تاریکی میں نشانہ بنایا اور لاش اٹھا کر ساتھ لے گئے اور سمندر برد کرکے قوم کو خوشخبری سنائی کہ ہم نے اپنے سب سے بڑے دشمن کو ختم کر دیا ہے اور اب ہم افغانستان سے تمام طالبان کو ختم کرکے دم لیں گے۔ پاکستانی حکمرانوں کی مدد سے اُنہوں نے افغانستان میں اپنا اثرورسوخ قائم رکھا، افغان ایجنٹوں اور بھارت کی پشت پناہی سے حامد کرزئی، شمالی الائنس اور آخر میں اشرف غنی مل کر حکومتیں چلاتے رہے اور خوش ہوتے رہے۔ 8سال بعد اوباما کی حکومت ختم ہوئی تو دوبارہ کانگریس کی نام نہاد حکومت صدر ٹرمپ نے بنائی جو کبھی کانگریس میں بھی نہیں رہے تھے۔ انہوں نے سوچا جو افغانستان سے حاصل کرنا تھا وہ تو حاصل نہیں ہوا، البتہ کھربوں ڈالر پھونک کر اور ہزاروں سپاہیوں کو مروا کر بھی طالبان قابو میں نہیں آئے۔ لہٰذا اب بوریا بستر گول کیا جانا چاہئے، انہوں نے اپنی دوسری ٹرم جیتنے کے لئے واپسی کا اعلان اور ٹائم ٹیبل بھی دے دیا مگر الیکشن سے پہلے سب کالوں، میکسیکنز، سپینش اور مسلمانوں سے پنگا لے کر صرف سفیدفام امریکیوں کو خوش کرنے میں لگے رہے مگر جب الیکشن کا نتیجہ آیا تو ٹرمپ کی ہٹ دھرمیوں سے تنگ عوام نے پھر ڈیموکریٹس کے حق میں فیصلہ دیا اور جوبائیڈن صدر منتخب ہوگئے جنہوں نے جلد بازی میں افغانستان سے قبل از وقت جان چھڑا لی اور اپنے تمام فوجیوں کو واپس بلا لیا۔ میڈیا نے ان کو بزدل صدر کا خطاب دیا۔ امریکی عوام اب اُن سے یہ پوچھ رہے ہیں کہ اگر یہی کھربوں ڈالرز اُن پر خرچ ہوتے تو ان کی غربت اور بیروز گاری پر قابو پایا جا سکتا تھا۔ادھر بھارت بھی اربوں ڈالر لگا کر افغانستان کو پاکستان سے دور کرنے کی سازش کر رہا تھا۔ وہ بھی اپنے عوام کو جواب نہیں دے سکا، سب کو اس عظیم سانحہ پر دکھ ہے، بےعزتی الگ، مالی نقصان الگ اور اب طالبان کے آنے کے بعد اس کو سانپ سونگھ گیا ہے۔

پرویز مشرف نے امریکہ کی دھمکیوں میں آکر افغان جنگ میں امریکہ کا ساتھ دینے کا نہ صرف وعدہ کیا تھا بلکہ طالبان کے بڑے رہنمائوں کو گرفتارکروانے میں بھی حصہ لیا اور امریکہ سے اس کے عوض خوب ڈالرز بھی وصول کئے۔ پھر جب ان کا برا وقت چیف جسٹس افتخار چودھری کی جبراً معزولی سے شروع ہوا اور الیکشن میں پی پی پی برسر اقتدار آئی تو پرویز مشرف پر مقدمات کی بھرمار ہوئی۔ 5سال بعد قوم نے پی پی پی سے جان چھڑائی اور مسلم لیگ (ن) کی حکومت بنی اور میاں نواز شریف برسر اقتدار آنے کے بعد اداروں کو خوب لتاڑتے رہے۔ ان کے حواری میاں صاحب کو سمجھاتے رہے کہ میاں صاحب ایسا مت کریں مگر میاں صاحب نہ مانے اور فارغ ہو گئے۔ لاکھ وہ کہتے رہیں کہ مجھے کیوں نکالا مگر کسی کے پاس اس کا جواب نہیں تھا۔ پھر الیکشن ہوئے، عمران خان پر آسمانی، سلطانی رحمتیں نازل ہوئیں اور دھرنوں، وعدوں اور وعید سے متاثر ہو کر عوام نے ووٹ بھی ڈال دیے اور اب عمران خان برسر اقتدار آگئے۔ آج 3سال ہونے کو آئے، تمام وعدے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ بیروز گاری تو کورونا کے سبب تھی ہی مگر مہنگائی اور کرپشن دن دگنی رات چوگنی بڑھی ہے۔پاکستان میں کرپشن پچھلی حکومتوں سے زیادہ ہو چکی ہے اور خوبصورت بات یہ ہے کہ کرپشن خود پی ٹی آئی کے صفِ اول کے لوگوں نے کی ہے اور سب کے سب معصوم بنے ہوئے ہیں۔ وزیراعظم خودسب کو کلین چٹ دے چکے ہیں۔ جنہوں نے کہا تھا میں چینی، آٹا، پیٹرول اور ڈیزل مافیا کو نہیں چھوڑوں گا، آج تمام انکوائریاں تک ختم کر دی گئیں ہیں مگر مخالف پارٹیوں پر نزلہ ابھی تک گرا ہوا ہے۔ حکومت نے 3سالہ کارکردگی کا جشن بھی منا لیا اور بقول شیخ رشید آزاد کشمیر کے بعد اگلا الیکشن بھی عمران خان جیتیں گے۔ عوام میں اتنی مایوسی کے بعد عمران خان کو ووٹ ڈالنے کی سکت تو نہیں ہے۔ پورا ملک مہنگائی، کرپشن اور بیروزگاری سے تنگ آچکا ہے۔ پھر عمران خان کو کون ووٹ ڈال کر جتوائے گا۔ ادھر پی ڈی ایم نے پی پی پی کی مدد کے بغیر کراچی کے جلسہ میں اسلام آباد مارچ کا اعلان تو کر دیا ہے مگر دیکھتے ہیں پی ڈی ایم سے پی پی پی کی راہیں جدا کرانے والے اب کسے باہر کریں گے؟

دوسری جانب دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا دعویدار بھارت جدوجہدِ آزادیٔ کشمیر کے بےباک و نڈر سالار اور بزرگ حریت رہنما سید علی گیلانی کی میت سے بھی ڈر گیا اور قابض بھارتی فوج نے جسدِ خاکی اہلِ خانہ سے چھین کر صبح ہونے سے قبل ہی زبردستی سری نگر کے حیدر پورہ قبرستان میں تدفین کروا دی۔ سید علی گیلانی کو کشمیر میں بابائے قوم کی حیثیت حاصل تھی، ان کا نعرہ نہ بکنے والا، نہ جھکنے والا آزادی کے متوالوں میں مقبول رہا۔ علی گیلانی الحاقِ پاکستان کی حمایت کرنے والے کشمیری رہنمائوں میں سب سے مقبول تھے۔ پاکستان کی جانب ان کا جھکائو بھی اصولوں کی بنیاد پر ہی تھا یہی وجہ ہے کہ انہوں نے پرویز مشرف کی کشمیر پالیسی کو آڑے ہاتھوں لیا اور 2005میں جب پرویز مشرف کی دعوت پر حریت قیادت نے آزاد کشمیر اور پاکستان کا دورہ کیا تو علی گیلانی اس وفد کا حصہ نہیں بنے، علی گیلانی اپنے نظریے کے مطابق جلسوں میں یہ نعرہ لگواتے تھے کہ ’’ہم پاکستانی ہیں، پاکستان ہمارا ہے‘‘۔ ان کی اسی خصوصیت نے ان کو کشمیری اور پاکستانی قوم کا محبوب رہنما بنادیا تھا۔

تازہ ترین