• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انسان کو قرار نہیں، دنیا کی زندگی میں اب مکمل ثابت شدہ ہے کہ اسے اپنے انسان ہونے پر ہی اکتفا نہیں۔ ﷲ سبحان تعالیٰ کی تمام مخلوق کے مقابل اپنی واضح امتیازی حیثیت و حقیقت کو بھی ناکافی جانتا ہے۔ اپنی ہی پیدا کی تخصیص و حریص، غلبہ، دوسروں پر کنٹرول، اپنی تعریف و توصیف و تابعداری مال و دولت اور اختیار کی ہوس کم ہی نہیں ہونے پاتی۔ بڑھتی ہی جاتی ہے۔ ہے تو یہ سب اس کی دوغلی جبلت کے منفی خاصوں سے پیدا ہونے والے رجحانات لیکن پھر بھی تمام ارفع انسانی اشراف، عقل، ایمان، امن، امان، احترام، محنت، جہد، تجسس، علم، حاصل، جدت، مدد، تعاون، تخلیق، ایجاد اور آرام و آسائش سب پر حاوی سب پر بھاری۔گھمبیر عالمی سیاسی صورتحال پر یہ کوئی ناچیز کا تجزیہ تبصرہ ہی نہیں۔ کوئی شک نہیں کہ عروج آدم خاکی کا یہ کیس بھی ثابت شدہ ہے کہ جنت میں بھی خطا کار ہونے والا بےقرار آدم’’ ٹوٹا ہوا تارا بن کر زمین پر تو آ گرا‘‘ لیکن آج رب کریم کی عطائے بیش بہا سے پھر مہِ کامل بھی بن گیا یا بننے کو ہے، انجم اس کے اس کمال و جمال سے سہم رہے ہیں یا نہیں، لیکن تیرھویں چودھویں کا یہ مکمل چاند گرہن زدہ نہیں؟ سوال توبڑا ہے اور مشکل بھی لیکن عالمی سیاست کے رجحانات، اب نکلتے دور رس نتائج بشکل خسارے، کھلی کتاب میں درج ہیں، پڑھ سکو تو پڑھ لو۔ جواب بات لکھنے کی نہیں، پڑھنا ہی پڑھے گا، سمجھنا بھی، سمجھ کر عمل بمطاق بھی، اگر دنیا کی، پروان چڑھتی اور آنے والی نسل کی خیر مطلوب ہے۔

برطانوی وزیر دفاع بین والز نے اپنے چونکا دینے والے انٹرویو میں امریکی افواج کی ’’دہشت گردوں کی جنت کو اپنی مرضی کے مطابق جمہوری و فلاحی ریاست بنانے‘‘ کی 20سالہ لاحاصل جنگ ختم کرکے افغانستان سے حیرت انگیز انداز کے انخلاء پر دنیا بھر کے سفارتی، علمی، حکومتی حلقوں خصوصاً پالیسی سازوں اور ان کے معاون تھینک ٹینکس کو چونکا دیا۔ بین والز SPECTATOR MAGAZINSکو دیے انٹرویو میں کہتے ہیں کہ ’’افغانستان سے امریکی انخلاء کے بعد امریکہ سپرپاور نہیں رہا‘‘۔ یوں تو (واقعی) امریکہ کے حیران کن انداز نخلاء سے عالمی سطح پر اس مفہوم کے زبان زدِ عام ہونےکو (GLOBAL DISCOURSE) بننے میں دیر نہیں لگی کہ ’’امریکہ جس بھونڈے اور بےہنگم طریقے سے (خود ہی انخلاء کو غیر محفوظ بنا کر) افغانستان سے جان چھڑا کر نکلا ہے، پیچھے پُرامن فاتحین کے لئے بھاری اسلحہ چھوڑ گیا۔ اب اسے سپرپاور نہیں مانا جا سکتا‘‘۔ حقیقتاً اس نے حکومتوں، ماہرین بین الاقوامی امور اور پیس اینڈ سیکورٹی اسکالرز کیا ساری دنیا کو ہی چونکا دیا ہے۔ بھارتی میڈیا پر ہونےوالے صدمے سے لبریز تجزیوں سے اس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ خود امریکہ میں یہ ہی زاویہ نگاہ DISCORSEمیں تبدیل ہونے کا اندیشہ بڑھ رہا ہے۔ سابق صدر ٹرمپ اور ان کے سیاسی وفادار معاونین کےسوشل میڈیا کے اکائونٹس پر پابندی نہ ہوتی تو یہ عوامی بیانیہ امریکی سیاست کے تناظر میں بائیڈن انتظامیہ کے گلے کا طوق بن کر دنیا بھر کو نظر آ رہا ہوتا لیکن اس صورت حال میں ’’چونکا دینے کا مزید پہلو‘‘ برطانوی وزیر دفاع کا بیانیہ ہے جس میں انہوں نے امریکی انخلاء سے اختلاف کرتے ہوئے واضح کیا اس کی ذمے داری سابق صدر ٹرمپ کی ’’افغانستان سے جان چھڑانے کی پالیسی پر عائد ہوتی ہے‘‘۔ بن والز کے مطابق اس پر عملدرآمد کرتے طالبان سے مذاکرات نے امریکی حیثیت تبدیل کرنے کابیج بویا۔ اب امریکہ سپرپاور نہیں، ایک بڑی طاقت رہ گیا۔ واضح رہے برطانیہ امریکہ کا ’’آل ویدر فرینڈ‘‘ تو ہے ہی، دفاعی اور خارجہ امور میں دونوں مکمل ایک پیج پر ہونے اور ایک دوسرے کو مکمل اعتماد میں رکھنے کا طویل ریکارڈ رکھتے ہیں۔ اس لحاظ سے یورپی یونین میں رہتے ہوئے بھی برطانیہ نے جرمنی اور فرانس کے مقابلے میں اپنے تشخص کو ذرا بھی متاثر نہیں ہونے دیا۔ جنگوں اور تنازعات کے حل پر برطانوی ابلاغ بھی بہت محتاط اور نپا تلا ہوتا ہے۔ 11/9کے تناظر میں جب صدر بش کا مشتعل ابلاغ شروع ہوا اور ان کے منہ سے ٹوئین ٹاور پر ہوائی حملے کے لئے یہ ’’صلیبی جنگ ہے‘‘نکلا، تو اس پر برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر نے انہیں فوراً یہ بات مزید نہ کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ سو، شکر ہے یہ تشویشناک بیان امریکی DISCOURCE نہ بن پایا۔

بنتی تاریخ کی حقیقت یوں واضح ہوئی، سوویت یونین کی تحلیل کے فوراً بعد امریکہ کی بےحد مطلوب ذمے دار سپر پاور بننے کی مطلوب عالمی ضرورت کی جگہ، امریکہ کا بطور متکبر SOLE POWER(مرزا یار) کا جو روپ سامنے آیا، عالمی معاشرے کی بدقسمتی سے وہ پالیسی سازی سے ’’نیو ورلڈ آرڈر‘‘ کی شکل اختیار کرگیا۔ پھر ایک امریکی انتظامیہ نہیں آنے والوں نے بھی اسے رویے کی لیگسی میں تبدیل کردیا۔ بعد ازاں افغانستان، عراق، لیبیا، شام، ایران، یمن، فلسطین و کشمیر، چین و پاکستان کے حوالے سے جو بھاری جانی مالی خسارے امریکی پالیسی سے ہوئے، اور یہ ممالک اور متنازعہ علاقے (چین کو چھوڑ کر) جس طرح کے اور جتنے بڑے خسارے سے دو چار ہوئے اس کے چار پانچ بڑے دور رس نتائج (بڑے خساروں کی شکل میں) نکلے۔ سائوتھ چائنہ جنگی ماحول کا زون بنا، شمالی افریقہ (بشمول مصر و الجزائر) سے جمہوریت کی جو لہر اٹھی یہ خانہ جنگیوں اور جنگوں میں تبدیل ہوئی۔ کشمیر اور فلسطین سلگتے تنازعات سے فلیش پوائنٹ بن گئے۔ بھارت کی جمہوری روح نکل کر اس میں انتہا پسندی اوربنیاد پرستی بھر گئی۔ اوپر سے امریکہ کا ’’فطری اتحادی‘‘ قرار پایا۔ اپنے دعوے کا لداخی متنازعہ علاقہ گنوا بیٹھا۔ گویا خسارہ امریکہ، اس کے مکمل بااعتماد حلیفوں اور حریفوں سبھی میں بٹا، لیکن دنیا میں یہ بیانیہ بھی زبان زد عام ہے کہ بڑی گریٹ گیمز میں پاکستان اور افغانستان بڑی مار کھانے کے بعد اتنے ہی بڑے بینی فشری بننے کو ہیں۔

تصحیح: گزشتہ آئین نو بعنوان ’’بھارتی حصار میں علی گیلانی کی تدفین‘‘ میں تحریک آزادی کشمیر کےتاریخ ساز جواں سال شہید برہان وانی کا نام سہواً مظفر وانی لکھا گیا۔ جو ان کے والد کا نام ہے۔ برہان سے پہلے مظفر صاحب کے سب سے بڑے بیٹے خالد برہانی کو بھی تحریک میں سرگرم ہونے پر بھارتی فوج نےشہید کردیا تھا۔

تازہ ترین