کراچی (تجزیہ/مظہر عباس) وزیراعظم عمران خان اب لگتاہے انتخابی موڈ میں ہیں۔ 6ماہ قبل کی نسبت پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کے لئے زیادہ پراعتماد دکھائی دے رہے ہیں تاکہ مسلم لیگ (ن) کے مقابلے میں تحریکی انصاف کی مقبولیت کو آزما سکیں۔
حال ہی میں انہوں نے وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو قبل از وقت بلدیاتی انتخابات کی اجازت دے دی ہے جو وہ مسلم لیگ (ق) سے مل کر لڑیں گے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الٰہی وزیراعظم کا اعتماد حاصل کرچکے ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مستقبل میں ان کا کردار زیادہ اہمیت کا حامل ہوگا۔ عمران خان بلدیاتی نظام میں پرویز الٰہی کے تجربے سے آگاہ ہیں۔
انہوں نے 2018میں وزارت اعلیٰ کے لئے عثمان بزدار کی حمایت کرکے اپنا وعدہ پورا کیا۔ اس کے علاوہ وزیراعظم چاہتے ہیں کہ مستقبل میں کسی سیاسی سودے بازی سے پرویز الٰہی کو دور رکھیں۔
دو ماہ قبل تک ایسی اطلاعات تھیں کہ وہ سابق صدر اور پیپلز پارٹی کے رہنما آصف علی زرداری کے ساتھ مل کر کوئی منصوبہ بنا رہے ہیں، گوکہ بلدیاتی انتخابات کے لئے کسی قطعی تاریخ کا اعلان نہیں ہوا۔
حکومت بلدیاتی نظام میں نمایاں تبدیلیوں کی خواہاں ہے اور یہ آئندہ سال فروری یا مارچ سے قبل ممکن نظر نہیں آتا۔
بلدیاتی انتخابی نتائج ہی عام انتخابات کے لئے طرز کے طے کریں گے۔ اگر تحریک انصاف بڑے شہروں میں میدان مار لیتی ہے تو وزیراعظم آئندہ سال کے اواخر تک قبل از وقت عام انتخابات کراسکتے ہیں، لہٰذا آنے والے مہینوں میں ملک میں انتخابی ماحول بن جائے گا۔
12ستمبر کو کنٹونمنٹ بورڈ کے انتخابات بھی دلچسپی کے حامل ہوں گے۔ تاہم بلدیاتی انتخابات سے قبل 2017کی مردم شماری کے تحت انتخابی حلقوں کی ازسرنو حد بندی ہوئی ہے۔
الیکشن کمیشن میں دو ارکان کی خالی اسامیوں پر تقرری کے لئے وزیراعظم عمران خان اور اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کے درمیان بالواسطہ رابطوں کے باوجود ابھی تک اتفاق رائے نہیں ہوسکا ہے۔ شہباز شریف نے وزیراعظم کے تجویز کردہ نام مسترد کردیئے ہیں۔
آئندہ عام انتخابات میں کامیابی کو یقینی بنانے کے لئے تحریک انصاف کی حکومت قبل از انتخاب حکمت عملی پر کام کررہی ہے، جس میں سمندر پار پاکستانیوں کو انتخاب لڑنے اور ووٹ ڈالنے کے حقوق دینا اور انتخابی عمل کے لئے الیکٹرونک ووٹنگ مشینوں (ای وی ایم) کا استعمال شامل ہے۔
ان دونوں نکات پر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان اتفاق رائے کا کم ہی امکان ہے۔ ان پر عمل درآمد کے لئے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلا کر یا آرڈیننس کے ذریعے منظوری حاصل کی جائے گی۔ میڈیا کو کنٹرول کرنے کے لئے پاکستان میڈیا ڈیولپمنٹ اتھارٹی (پی ایم ڈی اے) کے قیام کی کوشش بھی انتخابی حکمت عملی کا حصہ ہوسکتی ہے۔
وزیراعظم جو خود بھی الیکٹرونک اور سوشل میڈیا کی پیروی کرنے اور اس کی اہمیت سے بخوبی آگاہ ہیں ، یہ وہ ذرائع ابلاغ ہیں جنہوں نے گزشتہ عام انتخابات میں تحریک انصاف کی کامیابی میں کلیدی کردار ادا کیا۔