ہمارے بڑے بھائی جو عمر میں ہم سے خاصے بڑے ہیں ایسے بھائی کے بارے میں سید ضمیر جعفری نے اپنی یادداشتوں میں لکھا ہے کہ اتنی بڑی عمر کا بھائی گھر میں ہو تو وہ کوئی غیرمرد دکھائی دیتا ہے، ہمارے بڑے بھائی صاحب نے کم وبیش پانچ شادیاں کی ہیں بعضوں کو وہ خود چھوڑتے رہے اور کچھ رضاکارانہ طور سے دنیا چھوڑ جاتی رہی ہیں، شروع کی دو شادیوں کے موقع پر ”جانجی“ اکٹھے کرنا کچھ مشکل دکھائی دیا تھا مگر تیسری شادی کے وقت ہم نے مستقل باراتی رکھ لئے تھے، جن میں سے بعض گاہے گاہے پوچھا کرتے تھے کہ بھائی جان اگلی شادی کب کر رہے ہیں، راول قبیلے کی وہ خواتین جو شادی بیاہ پر گڈوی کی تھاپ پر گیت گاتی ہیں وہ بھی ہمارے باراتی اسٹاف کا حصہ بن گئی تھیں، ہر چند کہ بھائی کی ہر نئی بارات کیلئے باراتی وہی پرانے والے ہی ہوا کرتے تھے مگر یہ بات میں پورے وثوق کیساتھ لکھ رہا ہوں کہ ان کا سہرا ہم ہر بار نیا خریدا کرتے تھے، پتہ نہیں پھر کیا ہوا کہ گڈوی والی نے ناز بے نیازی سے یا پھر مخول میں جب یہ مصرع ابھی اتنا ہی گایا کہ # دولہے کا سہرا پرانا لگتا ہیتو بھائی نے شاہانہ انداز میں ہاتھ اٹھا کر گانے والی کو خاموش کراکے ہم سے قدرے ترش لہجے میں کہا کہ ”یہ گانے میں ترمیم آپ جناب نے فرمائی ہے؟“ ہم صاف مکر گئے مگر وہ نہ مانے انہوں نے کہا کہ ہمارے خاندان میں تمہارے سوا کوئی دوسرا شاعر پیدا نہیں ہوا گڈوی والی مصرع میں گرہ لگانے کی قدرت نہیں رکھتی پھر میں کیسے مان جاؤں کہ آپ اس سازش کا حصہ نہیں ہیں ہم نے بتیرا کہا کہ شاعری خداداد عطیہ ہے کسی کو بھی عطا ہو سکتی ہے مگر وہ غصہ کھا گئے اورآج تک اسی غصے کے عالم میں ہماری آخری بھابھی کے ساتھ بڑھاپا گزار رہے ہیں، ہم پر یہ کوئی پہلا بہتان نہیں ہے ہمارے ساتھ اکثر ایسا ہوا ہے کہ کرتا کوئی ہے اور بھرتے ہم ہیں، ہم نے زندگی میں ناکردہ جرموں کی بہت سزائیں بھگتی ہیں، چند برس پہلے کی بات ہے اسلام آباد کے ایک چار تاروں والے ہوٹل میں بلوچستان کے غزل گو شاعر محسن چنگیزی کو ”نشان غزل ایوارڈ“ دینے کی تقریب تھی صدارت محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی تھی اور مہمان خصوصی جناب افتخار عارف تھے، محسن چنگیزی کی غزل کی تعریف میں افتخار عارف صاحب نے اپنے خطاب میں جب یہ جملہ کہا کہ ”محسن چنگیزی اس کم عمری میں اتنی خوبصورت غزل کہہ رہا ہے لیکن جب ہم اس کی عمر میں تھے تو ایسی غزل نہیں کہہ سکتے تھے۔“ اس پر میرے ساتھ بیٹھے پروفیسر ڈاکٹر راشد متین نے باآواز بلند کہا کہ ”آپ تو اب بھی ایسی غزل نہیں کہہ سکتے۔“ قہقہہ ضرور بلند ہوا مگر فوراً بعد تقریب میں سراسیمگی پھیل گئی، اختتام پر افتخار عارف میرے سامنے آکر کھڑے ہوئے اور انتہائی روہانسے سے ہو کر کہنے لگے۔ ”جبار بھائی آپ؟؟“ ہمیں فوراً ڈاکٹر راشد متین کا وہ جملہ یاد آگیا، ہمارا ہاسا نکلنا چاہتا تھا مگر ہم نے منہ پکا سا کر کے کہا کہ ہم نہیں تھے!! انہوں نے استفسار کیا کہ پھر کون تھا؟
وہ جو کوئی بھی تھا ہمارے گروپ کا حصہ تھا اس لئے نام نہیں بتاؤں گا پھر اس کے کافی عرصے بعد تک جب کبھی ملاقات ہوتی تو وہ کریدنے کی کوشش کرتے کہ آخر اس آوازے کا خالق کون تھا، مگر ہم نے آج تک اس راز سے پردہ نہیں اٹھایا۔ البتہ اس بات کا قلق ضرور ہے کہ افتخار عارف صاحب کو ہم پر شک نہیں کرنا چاہئے تھا کیونکہ ہم بنیادی طور پر سادہ بلکہ سیدھا سادہ انسان ہیں جو شخص اپنی آرزوؤں کے خون ہونے پر بھی خاموش رہے وہ آوازے کیا کسے گا بہر طور پر اس تشکیک آمیز ماحول اور بے ثباتی کے دور میں ہمارا سفر جاری ہے ہمیں اس موقع پر اپنی غزل کے دو شعر یاد آرہے ہیں #
ردی کے بھاؤ حسرتیں بازار میں بکیں
ہم زندگی میں پھر بھی نکھرتے چلے گئے
مرزا وہ ہمسفر بھی کھلونے تھے کالج کے
ٹوٹے تو ہر قدم پہ بکھرتے چلے گئے
ہماری شادی خاندان سے باہر ہوئی ہے ایسی شادیوں کے کچھ فوائد ہوتے ہیں طبی فائدے تو کوئی نبضی حکیم ہی بتا سکے گا مگر گھریلو فائدہ اس میں ہے یہ ہے کہ ساری عمر میاں بیوی ایک دوسرے کو سمجھنے میں گزار دیتے ہیں، گزشتہ دنوں تقریباً تیس سال کے بعد ہمارے ایک سسرالی بزرگ نے ہم سے کہا کہ ”جب تم بارات لے کر آئے تھے تھری پیس سوٹ میں تو تم تھے مگر چہرے مہرے سے کسی طور پر بھی شریف آدمی دکھائی نہیں دیتے تھے ہم نے دل ہی دل میں سوچا تھا کہ پتہ نہیں باؤ جی نے اپنی بیٹی کس بدمعاش کو دے دی ہے، یار جبار تم جو نظر آتے ہو وہ ہو کیوں نہیں؟“ ہم نے کہا یہ سب نظر کا قصور ہے آپ صبح صبح ننگے پاؤں گھاس پر چلا کریں نظر ٹھیک ہو جائے گی اور جس روز آپ نے لوگوں کو دنیا کی آنکھ کے بجائے دل کی آنکھ سے دیکھنا شروع کیا اس روز سب ہرا ہرا دکھائی دے گا۔ خیر یہ تو ہم عمر کے اس حصے میں ہیں جہاں کرے داڑھی والا تو پکڑا مونچھوں والا جاتا ہے مگرہمارے ساتھ بچپن میں بھی ایسا سلوک ہو چکا ہے کہ جو جرم ہم نے کیا ہی نہیں تھا اس کی بھی مار کھانا پڑ گئی تھی۔ ہم اس وقت کوئی سات آٹھ برس کے تھے یہ ان دنوں کی بات ہے جب ٹاویں ٹاویں گھروں میں ریڈیو ہوا کرتا تھا ٹیلیویژن کا کبھی کسی نے نام بھی نہیں سنا تھا ہفتے میں ایک دو بار ایک شخص ٹین کا ایک بکس اٹھائے آیا کرتا ہم ایک پیسہ لے کر اس بکس کے ساتھ آنکھیں لگا کر بیٹھ جاتے وہ مکہ مکرمہ، مدینہ پاک اور کربلائے معلیٰ کا تصویری خبرنامہ دکھا کر ٹن ٹن کر کے کہا کرتا کہ کھیل ختم پیسہ ہضم، ہم ان دنوں لولی پاپ کو ”تیلے والی مچھی“ کہا کرتے تھے تصویری خبرنامہ دیکھنا اور تیلے والی مچھی کھانے والے بچوں کو کھاتے پیتے گھروں کے بچے سمجھا جاتا تھا۔ سب سے بڑی تفریح گلی میں بندر نچانے والے کی آمد ہوا کرتی تھی، جسے دیکھنے کے لئے خواتین اور بچے گلی میں نکل آتے تھے۔ ایک دفعہ بندر والا آیا تو ہم سب ڈگڈگی کی آواز بن کر باہر آگئے اتفاق تھا یا ہماری قسمت میں مار لکھی ہوئی تھی کہ وہ بندر کی بجائے بندریا تھی مداری نے جب اپنی مخصوص آواز میں بندریا سے کہا کہ ”نچ گلابو“ تو ہماری تائی اماں جو ایک دن پہلے ہی ہمارے گھر مہمان آئی تھیں انہوں نے ہمیں مارنا شروع کر دیا بات دراصل یہ تھی کہ ہماری تائی صاحبہ کا نام گلاب جان تھا مگر پیار سے سب انہیں گلابو کہا کرتے تھے مداری نے جب بندریا کو گلابو کہا تو انہیں شک گزرا کہ ہم نے ان کا نام مداری والے کو بتایا ہے، شک کا فائدہ ہمیشہ ملزم کو ملتا ہے مگر ہم نے شک میں بھی بہت مار کھائی ہے، امی نے تائی صاحبہ کو بتیرا کہا کہ بہن یہ تو باہر ہی نہیں گیا مگر وہ مسلسل ہمیں کٹ لگاتی رہی اور کہتی رہیں کہ تم اس کو نہیں جانتی مجھے پتہ ہے اسی نے اسے میرا نام بتایا ہے۔ اس بات کو تقریباً پچپن برس بیت گئے مگر ہم آج بھی کٹ کھا رہے ہیں پہلے ہم انفرادی طور پر مار کھایا کرتے تھے آج اجتماعی طور سے کٹ لگائی جا رہی ہے پچپن برس پہلے بندر والے کی آمد پر مار پڑتی تھی آج بندروں نے خود غلیلیں ہاتھوں میں پکڑی ہوئی ہیں قصور ہمارا بھی کوئی نہیں ہوتا تھا اور بے گناہ وہ بھی ہیں جن پر آئے دن ”ڈرون“ پھر جاتے ہیں بچپن میں تائی مارتی تھیں تو امی دلاسہ دے کر ڈھارس بندھا دیا کرتی تھیں مگر اب تو ہم ایک دوسرے کو پرسہ بھی نہیں دے سکتے۔ 2 مئی کو ایبٹ آباد کی آڑ میں پوری قوم کو ”گجی مار“ مارا گیا مگر ہماری نکٹی پر وہ محفوظ ہاتھ بھی ہاتھ ملتے رہ گئے جن کو ایٹمی پروگرام کے پہرے داری پر بڑا مان ہے۔