22 لاکھ سے زائد آبادی اور چھ تعلقوں پر مشتمل سندھ کا معروف ترین ضلع سانگھڑ نہ صرف تاریخی اعتبار سے بلکہ زراعت کے لحاظ سے بھی کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ نارا کینال اور چٹیاریو ںڈیم کے آس پاس مشہور بقار جھیل سمیت چھ بڑی قدرتی جھلیں جن میں خطے کی معروف ترین’’ کرڑا‘‘مچھلی ،جسے اردو زبان میں’’روہو مچھلی ‘‘ کہا جاتا ہے، کی افزائش ہوتی ہے۔ ان جھیلوں میں دیگر درجنوں اقسام کی مچھلیاں بھی ہوتی ہیں جن کا شکار کرکے ماہی گیر حضرات اپنی روزی کماتے ہیں۔
ان جھیلوں کے علاوہ سانگھڑ میں ایسی جھیل بھی ہے جہاں مختلف اقسام کی مچھلیوں کے شکار کے علاوہ سطح آب پر کنول کے پھول کی طرح ایک ’’پسن ٹکی‘‘ نامی پھل اگتا ہے۔ سانگھڑ سے تقریباؑ 15 کلو میٹر دور شمال مشرق کی جانب سفر کریں تو ہیڈ جمڑاؤ روڈ پر گوٹھ غلام حسین لغاری کے قریب سانگھڑ ضلع کی ساتویں جھیل واقع ہے۔
اس کے کنارے شہد کی مکھیوں کی بہتات ہے اور اطراف کے درختوں میں شہد کےچھتے لگے ہوئے ہیں، اس لیے علاقے کے باسیوں نے اسے ’’مکھی جھیل ‘‘ کا نام دے دیا، جو پورے علاقے میں مچھلی کے شکار کے حوالے سے مشہور ہے۔ اس جھیل میں ایک ایسے پھل کی افزائش ہوتی ہے، جو سبزی کی طرح پکا کر بھی کھایا جاتا ہے، اس لیے مقامی باشندے اسے ’’سبزی فروٹ ‘‘ پھل بھی کہتے ہیں۔
یہ پھل کنول کے پھول کی طرح جھیل کی سطح آب پر کھلتا ہے، اس کی پیداوار میں نہ تو زمین کی ضرورت ہوتی ہے، نہ بیج ڈال کر ہل جوتنا پڑتا ہے اور نہ ہی آبیاری کی جاتی ہے، یہ ازخود کاشت ہوتا ہے ۔ اس پھل کا ذائقہ پستہ جیسے خشک میوے سے ملتا جلتا ہے۔ یہ پودا مئی کے مہینے میں بڑے پتوں کی صورت میں نمودار ہوتا ہےجب کہ دو ماہ بعد جولائی کے مہینے میں اس میں پھل لگنا شروع ہوجاتے ہیں۔ راقم کی رائے کے مطابق کنول کے پھول کے بعد یہ اپنی نوعیت کا واحد پودا ہے جو انسانی مشقت کے بغیر اگتا ہے۔
زرعی ماہرین کے تجزئیے کے مطابق پبن/ ٹکی سبزی فروٹ کی فصلکے ابتدائی مرحلہ میں سبز پتوں کے بیچوں بیچ سفید رنگ کی کلیاں پھوٹتی ہیں جو کچھ عرصے بعد سفید گلاب کی ہیئت اختیار کرلیتی ہیں اور جھیل کے نیلگوں پانی کی سطح پر حد نظر تک گلاب کی طرح سفید پھول نظر آتے ہیں، چند روز بعدیہ پھول سکڑ جاتے ہیں جب کہ ان کا رنگ بھی تبدیل ہوکر سبز ہوجاتا ہےاوریہ شہد کی مکھی کے چھتے یا سبز چھتری کی صورت اختیار کرلیتے ہیں۔
دو ماہ بعد ہر پودے میں ایک درجن کے لگ بھگ خوش ذائقہ پھل لگتا ہے۔ اس کے ہر دانے پر سبز رنگ کا خول چڑھا ہوتا ہے جسے چھیلنے کے بعد سفید رنگت کا گودا نکلتا ہے۔ یہ پھل نہ صرف کھانے میں خوش ذائقہ ہوتا ہے بلکہ طبی ماہرین اور حکماء کی رائے کے مطابق یہ زیابطیس، بلند فشار خون، ضعف معدہ اور دماغی کمزوری جیسےامراض کے لئے اکسیر ثابت ہوا ہے۔ جب یہ پک کر تیار ہوجاتا ہے تو لوگ کشتی میں بیٹھ کر جھیل میں اترتے ہیں اور اسے توڑ کر کشتی میں اکٹھا کرتے ہیں جسے سانگھڑ کی مارکیٹوں میں فروخت کی جاتا ہے۔ سیزن کے دوران بازار میں اس پھل کے دس روپے میں دو دانے دستیاب ہوتے ہیں۔ لوگ اس کی جڑ بھی توڑ کر لاتے ہیں اس میں سے بیہ کی سبزی نکلتی ہے، اس سے سندھ کے روایتی پکوان تیار ہوتے ہیں۔