• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

طالبان نے افغانستان کا عنانِ اقتدار سنبھالنے کے بعد اپنی 33رکنی عبوری کابینہ کا اعلان کردیا ہے۔ مولوی ہیبت اللہ اخوند زادہ سپریم لیڈر (امیرالمومنین) اور ملا حسن اخوند زادہ عبوری وزیراعظم ہوں گے جبکہ ملا عبدالغنی برادر اور مولوی عبدالسلام حنفی کو نائب وزیراعظم کی ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں۔ ملا محمد یعقوب وزیر دفاع، سراج الدین حقانی وزیر داخلہ ،مولوی عامر خان متقی وزیر خارجہ، ملا ہدایت اللہ بدری وزیر مالیات اور خیراللہ سید ولی خیرخواہ اطلاعات کے وزیر ہوں گے۔ تمام وزراء کا شمار طالبان کی سینئر قیادت میں ہوتا ہے جو 90کی دہائی میں بھی حکومت کا حصہ تھے۔ یہ امر دلچسپ ہے کہ 33رکنی عبوری کابینہ میں کسی خاتون کو وزیر نہیں بنایا گیا جبکہ کابینہ میں مزید توسیع کئے جانے کا امکان ہے جس کااعلان جلد متوقع ہے۔

طالبان قیادت کے لئے کابینہ کی تشکیل کٹھن مرحلہ تھا جو انہوں نے کامیابی کے ساتھ عبور کر لیا ہے لیکن اس کے باوجود مغربی ممالک طالبان کی حکومت تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ اب دیکھنا یہ ہوگا کہ کابینہ کس طرح سے آگے بڑھتی ہے اور مغربی تعصبات کے باوجود اپنی حیثیت کیسے منواتی ہے؟ طالبان حکومت کو اس وقت بنیادی طورپر تین بڑے چیلنجز کا سامنا ہے جن میں سب سے اہم اپنی صفوں میں اتحاد برقرار رکھنا ہے۔ 20سال کی طویل جدوجہد کے بعد جنگ جیتنا بجا طورپر کئی توقعات کو جنم دیتا ہے جنہیں فوری طورپر پورا کرنا شاید ممکن نہ ہو۔ یہ معاملہ مستقبل میں بھی قیاس آرائیوں کا موضوع رہے گاکیونکہ کچھ طاقتیں طالبان کی حقیقت کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں اور وہ طالبان حکومت کی صلاحیت کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کرنے کی کوشش کرتی رہیں گی لہٰذا سب سے پہلے اس تفرقہ انگیز پروپیگنڈےکے خاتمے کے لئے عملی اقداما ت کرنے کی ضرورت ہے۔

اس کے بعد حکمرانی کا مسئلہ ہے۔ طویل عرصے تک افغانستان کی باگ ڈور ایسے حکمرانوں کے ہاتھ رہی ہے جن کا اولین مقصد لوٹ مارکر کے اپنی زندگیوں میں بہتری لانا تھا۔ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے 20سال تک افغانستان پر قبضے کے حوالے سے جو دستاویزات شائع کی گئی ہیں ان میں آپریشنز کی مجرمانہ بدانتظامی اور زمینی حقائق کے برعکس جنگ جیتنے کی کہانی گھڑنا شامل ہیں۔ ’’سگار‘‘ کی دستاویزات میں افغان عوام پر تھوپی گئی اس قیادت کا بھی انتہائی توہین آمیز انداز میں ذکر کیا گیا ہے جو دھوکہ دہی کے ذریعے افغانستان پر مسلط ہوتی رہی جہاں ہر الیکشن پہلے سے زیادہ متنازع ثابت ہوا۔ ان حکومتوں کی طرف سے عوام کے معیار زندگی بدلنے اور انہیں درپیش مشکلات کے حل پر کوئی توجہ نہ دی گئی بلکہ آج کے حالات ’’جمہوریت‘‘ کے متعارف ہونے سے پہلے کے حالات سے کہیں زیادہ بدتر ہیں۔ یہ نام نہاد قیادت طالبان کے سامنے ریت کی دیوار ثابت ہوئی جس کے نتیجے میں صدر اشرف غنی لاکھوں ڈالرزلے کر ملک سے فرار ہو گئے جبکہ ان کے ساتھی بھی اپنے پسند کے ممالک کی جانب رخت سفر باندھ چکے ہیں۔ حالات سے ایسا لگتا ہے کہ افغانستان میں حکومت کیلئے باہر سے ایسے لوگوں کو صرف اسلئے ’’درآمد‘‘ کیا گیا کہ وہ ملک کو اچھی طرح لوٹ سکیں۔

طالبان کو ماضی کے حکمرانوں کی طرح وسائل مہیا نہیں ہوں گے، انہیں عوامی مسائل کے حل اور ان کی خدمت کے لئے ہنگامی اقدامات کرنا پڑیں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ انہیں بعض علاقوں میںگڑ بڑ کرنے کی کوششوں سے بھی موثر انداز میں نمٹنا ہوگا۔ تشددان مسائل کا حل نہیں، بلکہ ایسے چیلنجز سے نمٹنے کے لئے لوگوں سے بات کرکے انہیں یقین دلانا ہوگا کہ ان کے حقوق کا خیال رکھا جائے گا، ان کے ذہنوں سے خوف کی فضا کو ختم کرنا ہوگا۔ گورننس کے دائرہ اختیار میں یہ بھی ہے کہ ملک سے دہشت گردی کے تمام مراکز کے خاتمے کے لئے ہنگامی اور موثر اقدامات کئے جائیں۔

افغانستان کی بحالی کے عمل کا تیسرا اور انتہائی اہم پہلو معیشت ہے۔ افغانستان اس وقت عملی طورپر دیوالیہ ہونے کے دہانے پرکھڑا ہے۔ ماضی کے حکمرانوں نے ملکی خزانے میں کچھ بھی باقی نہیں چھوڑا۔ ملک کو فوری طورپر بحالی کی طرف گامزن کرناہے جس کے لئے بلاشبہ آمدنی کے ذرائع درکار ہیں۔ مغربی ممالک کی جانب سے فنڈز فراہم کرنے کی بھرپور مخالفت کی جا رہی ہے جبکہ قرضے دینے والی عالمی تنظیموں نے بھی سردست افغانستان کی امداد روک لی ہے۔ اصولی طورپر ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ عالمی برادری طالبان حکومت کے ساتھ روابط استوار رکھتی اور انسانی بنیادوں پر امداد جاری رکھتی تاکہ طالبان قیادت کو اپنے وعدوں پر پورا اترنے کا موقع مل سکتا لیکن امداد کے راستے بند کر کے نوزائیدہ حکومت کے لئے سنگین معاشی مسئلہ پیدا کر دیا گیا ہے جو طالبان اور افغان عوام کے مفاد میں نہیں۔ عالمی برادری کے بیانیے سے صاف ظاہر ہوتاہے کہ افغانستان کی معاشی بحالی کا زیادہ تر بوجھ علاقائی ممالک بالخصوص پڑوسی ممالک کو برداشت کرنا ہوگا۔ آزمائش کی اس گھڑی میں تمام پڑوسی اور علاقائی ممالک کو طالبان حکومت کومستحکم کرنے کے لئے لائحہ عمل مرتب کرنا ہوگا تاکہ نئی حکومت کامیابی کے ساتھ آگے بڑھ سکے اور درپیش چیلنجز کامقابلہ کر سکے، اگر دنیا سے دہشت گردی کا قلع قمع کرنا ہے تو سب سے پہلے غربت کا خاتمہ کرنا ہوگا۔ اس وقت ضروری ہے کہ علاقائی ممالک آگے بڑھیں اور مشکل کی اس گھڑی میں افغان عوام کے ساتھ مکمل اظہار یکجہتی کریں۔ یہ تعجب کی بات نہیں کہ طالبان نے چین سے نئی حکومت کو تسلیم کرنے کی اپیل کی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ طالبان قیادت نے یہ جان لیا ہو کہ اس وقت چین افغانستان کو درپیش معاشی بحران سے نکالنے کے لئے ایک اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔

افغانستان جو گزشتہ 40برس سے آگ میں جل رہا تھا، آج ایک دوراہے پر کھڑا ہے جہاں ایک راستہ لوگوں کی خدمت کیلئے ایک مضبوط ریاست کے طور پر ابھرنے کی طرف جاتا ہے جبکہ دوسرا راستہ گہرے گڑھے کی طرف گامزن ہے۔ اگر افغان حکومت عوام کو بااختیار بنانے اور ان کا معیار زندگی بدلنے میں ناکام ہوتی ہے تو اسے ایک بار پھر آگ کی بھٹی میں جلنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ اب یہ افغانستان کے پڑوسی اور علاقائی ممالک پر منحصر ہے کہ وہ نئی حکومت کو اس مشکل وقت سے نکالنے میں کیا کردار ادا کرتے ہیں اور کیا اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ کہیں افغانستان دوبارہ دہشت گردی کا گڑھ نہ بن جائے؟

تازہ ترین