• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سب صحیح ہے غلط کی طرح

اندھے، بگلے اور کھیر کی کہاوت یاد کرکے بھی آپ حالاتِ حاضرہ اور گورننس بارے سب کچھ جان سکتے ہیں یا پھر شاید یوں کہنا بھی درست ہو کہ ’’مستند نہیں اُن کا فرمایا ہوا‘‘۔ میڈیا جو کہتا ہے نہ کہے تو ہم سب صم بکم ہیں، وہ سارے عیوب جنہیں دور کرنے حکومت آئی تھی، سارے مہنگائی کی طرح بڑھتے اور ارزانی کی مثل ناپید ہو رہے ہیں۔ غیرسنجیدہ بات اتنے وثوق سے کی جاتی ہے کہ سنجیدہ لگے، میڈیا کے سوال ہی سے جواب سمجھنے پر مجبور کیا جاتا ہے، حقیقت سے بالا قانون بھی ایک کندئہ ناتراش نے تراش رکھا ہے، وہ اکثر سوالوں کے جواب میں کہتے ہیں میں تو موجود نہیں تھا، کیا کہہ سکتا ہوں۔ سعدی کے ایک قول کو اب یوں پڑھنا ہوگا ’’خری و ایلیسی ہمہ بہ وزیران و مشیران دادیم‘‘ (میں نے حماقت و بیوقوفی ساری کی ساری اربابِ حکومت کو دیدی ہے)، میڈیا والے زیرِ لب قہقہے لگاتے ہیں کہ ’’نازک مزاجِ شاہاں تابِ سخن ندارد‘‘۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان ایک قومی ادارہ ہے، اسے بھی باقی معاملات و ادارہ جات کی طرح دیا سلائی دکھا دی، بس اتنی معمولی سی برائی کو نیکی نہ کہنے پر کہ ایک وزیر ضعیف نے رگنگ کیلئے ’’رزقِ حلال‘‘ وصول کیا تھا، ویسے تو کھیر سے متعلق ایک مثال اور بھی ہے لیکن حدِ ادب حائل ہے بیان مناسب نہیں، البتہ اگر نئی نسل کو اندھے، بگلے اور کھیر بارے معلوم نہیں تو تعلیم عام کرنے کی خاطر بتائے دیتے ہیں کہ ایک اندھے کے سامنے کوئی کھیر رکھ گیا، ایک آنکھ والا گزرا تو اندھے نے آواز دی کہ ذرا یہ تو بتائو کہ اس برتن میں کیا ہے؟ جواب ملا کھیر ہے، وہ کیا ہے، وہ سفید ہوتی ہے، سفید کیا ہوتا ہے، کہا بگلے کی طرح، پوچھا بگلا کیا ہوتا ہے، وہ کہیں سے بگلا پکڑ لایا، اندھے کا ہاتھ بگلے کی گردن پر پھیر کر کہا اس طرح، اس پر نابینا نے کہا یہ تو بہت ٹیڑھی ہے میں یہ ٹیڑھی کھیر نہیں کھا سکتا۔ اس کہاوت کے سب کردار فرضی ہیں، حقیقی نہیں۔ ای سی پی اور حکومت تصادم کی راہ پر چل نکلے ہیں، اگر سواتی صاحب سوات کے نظارے دیکھنے چلے جائیں تو مطلع جزوی طور پر ابر آلود ہو سکتا ہے۔

٭ ٭ ٭ ٭ ٭

اپوزیشن منفی مہنگائی= حکومت

ایک گیت سنا تھا کہ سب کچھ کہوں گی، پر وہ نہ کہوں گی جس کا تم کو انتظار ہے، اول تو اپوزیشن مہنگائی کا اتنی روانی سے نام نہیں لیتی جتنا کہ اپنے مسائل کا، اور اگر خالی جگہ پُر کرنے کو لے بھی لے تو اس کے خاتمے یا اسے کم کرنے کیلئے کچھ کرکے نہیں دکھاتی گویا غریب عوام جس طرح کے سگے حکومت کے ہیں ایسے ہی سگے اپوزیشن کےبھی ہیں۔

خداوندا یہ تیرے سادہ دل بندے کدھر جائیں

کہ اپوزیشن بھی عیاری ہے، سلطانی بھی عیاری

نہ جانے بعض اوقات کیوں یوں لگتا ہے کہ حکومت امریکہ ہے، اپوزیشن برطانیہ، صرف عوام ہیں کہ کل بھی عام تھے آج بھی عام۔ ہر روز نرخ بدلتے ہیں، کیا ہمیں یہ تبدیلی کافی نہیں؟ اپوزیشن، حکومت کا کام نہیں روکتی اس کی ’’صلاحیتوں‘‘ میں اضافہ کرتی ہے، پارلیمان کو اس طرح سب سے بالاتر ادارہ بنا رکھا ہے کہ وہ قانون سازی سے بالا بالا رہے، دل کہتا ہے اب آئندہ کوئی جائے آئے نہیں، عوام خود ہی حاکم بھی ہوں محکوم بھی۔ ملک میں مہنگائی، کورونا، بیروزگاری، رشوت کو دوام حاصل ہے، جب چاہو جھولی بھر لو، ایک حکیم لقمان کے نیچے نیم حکیموں کی فوج ہے، اپوزیشن ہو یا حکمران، ان میں کوئی بندئہ مفلس دکھا دیں حالانکہ دانشمند ہمیشہ غریب ہوتا ہے، اہل ثروت کو ہی اربابِ حکومت کہتے ہیں، یہ جو الیکٹرانک ووٹنگ پر اتنا پیسہ ضائع کیا جا رہا ہے اگر غریب لوگوں کی بہبود پر لگایا جاتا تو ایک نیا تنازع کھڑا نہ ہوتا، آج حکومت اور اپوزیشن میں کیا فرق ہے؟ جواب چاہئے۔

٭ ٭ ٭ ٭ ٭

حکومت کے پہلے چند سال گورنر پنجاب کی نظر میں

گورنر پنجاب اس لحاظ سے سردوگرم چشیدہ انسان ہیں کہ انہوں نے طویل عرصہ برطانیہ کی ٹھنڈی فضائوں میں گزارا اور اب وہ گرم ترین پاکستان میں گورنر ہائوس کے گوشۂ فردوس میں مقیم ہیں، اور گاہے گاہے اپنی کامیاب دانش کے جلوے دکھاتے رہتے ہیں۔ ہم اس خوش قسمتی پر انہیں مبارکباد پیش کرتے ہیں، ان کا فرمان، آپ نے پڑھا کہئے وہ کس قدر دانشورانہ بات کر گئے کہ کسی بھی حکومت کے لئے پہلے چند سال میں مشکلات ہوتی ہیں، یہ سو فیصد درست ہے کیونکہ پی ٹی آئی نے 22سال جن مشکلات کو ایجاد کرنے میں صرف کئے وہ تمام زیادہ آب و تاب کے ساتھ نہ صرف پہلے چند برسوں بلکہ آخری چند برسوں میں بھی پوری طرح روبہ عمل ہیں، یہ ہے گڈ گورننس کی وہ شعبدہ کاری جسے کوئی انگریز گورنر پنجاب بھی نہ سمجھ سکا، وہ مرد خلیق ہیں، گورنر ہائوس میں داخل ہونے والے ہر مہمان کی چائے بسکٹ سے اور وہ بھی شاید اپنی جیب سے تواضع کرتے ہیں، ایک مرتبہ ہم بھی گئے تھے کسی ذاتی مشکل کو لے کر لیکن غالب کے اس شعر کے سوا کچھ نہ ہوا، مشکل آسان نہ ہوئی؎

تھی خبر گرم کہ غالب کے اڑیں گے پرزے

دیکھنے ہم بھی گئے تھے پہ تماشا نہ ہوا

٭ ٭ ٭ ٭ ٭

کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی

٭فیاض چوہان:سیاسی چھیڑ چھاڑ سے آزاد اینٹی کرپشن تاریخی کامیابیاں سمیٹ رہا۔

کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی۔

٭رحیم ﷲ یوسفزئی انتقال کر گئے، انہوں نے طویل عرصہ کامیاب صحافت کی، وہ قابلِ تقلید ہیں، ﷲ تعالیٰ مغفرت فرمائے۔ آمین

٭ ٭ ٭ ٭ ٭

تازہ ترین