• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پنجاب کے نئے چیف سیکرٹری ڈاکٹر کامران افضل نے اپنے عہدے کا چارج سنبھال لیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب پڑے پڑھے لکھے ایماندار، آئیڈیل اور اولڈ سکول بیوروکریٹ ہیں۔ اپنے عہدے کا چارج سنبھالتے ہی انہوں نے پنجاب کے انتظامی سیکرٹریوں، کمشنروں اور ڈپٹی کمشنروں سے میٹنگز کیں۔وقت کے اتنے پابند ہیں کہ 2بجے میٹنگ تھی تو کچھ سیکرٹری لیٹ ہوگئے جس پر ایک خاص انداز میں انہیں ہمیشہ وقت کی پابندی کا خیال رکھنے کی تاکید کی۔ سیکرٹری سی اینڈ ڈبلیو کیپٹن (ر) اسد اللہ میٹنگ میں لیٹ ہوئے تو عذر پیش کیا کہ ان کی معلومات کے مطابق میٹنگ اڑھائی بجے تھی جس پر چیف سیکرٹری نے کہا کہ آپ کو میٹنگ کے وقت کا علم ہونا چاہیے تھا۔ اس پہلی میٹنگ میں تمام سیکرٹریوں کے علاوہ دونوں ایڈیشنل چیف سیکرٹری ایس اینڈ جی اے ڈی ارم بخاری اور ایڈیشنل چیف سیکرٹری داخلہ ظفر نصر اللہ خان بھی شریک ہوئے۔ 19 ویں کامن کی ارم بخاری اور 17ویں کامن کے ظفر نصراللہ چیف سیکرٹری پنجاب ڈاکٹر کامران افضل سے سینئر ہیں۔ نئے چیف سیکرٹری کی تعیناتی پر پنجاب کی بیورو کریسی میں چہ میگوئیاں جاری تھیں کہ 21ویں کامن کے چیف سیکرٹری تعینات ہونے پر یہ دونوں سینئر افسران وفاق میں چلے جائیں گے لیکن کچھ افسران کا خیال تھا کہ ایس اینڈ جی اے ڈی اور محکمہ داخلہ اتنے بڑے محکمے ہیں کہ یہاں سے دھکے دے کر نکالو تب بھی کوئی نہیں جاتا۔ ایڈیشنل چیف سیکرٹری ایس اینڈ جی اے ڈی ارم بخاری نے بھی خلاف توقع نئے چیف سیکرٹری کی خوشامد کرتے ہوئے کہا کہ جناب ہم آپ کی ٹیم ہیں، آپ جیسا کہیں گے ویسا ہی کام کریں گے، آپ کو پنجاب میں خوش آمدید کہتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ ایڈیشنل چیف سیکرٹری داخلہ ظفر نصر اللہ خان جو سابق چیف سیکرٹری جواد رفیق ملک کی میٹنگز میں کم ہی نظر آئے، 17 ویں کامن کے افسر ہونے کے باوجود 21 ویں کامن کے چیف سیکرٹری کی میٹنگ میں بڑے ٹائم پر پہنچے۔ بھئی کیوں نہ آتے ان دونوں افسران کی (COURTESY)کی ایک بڑی وجہ ان کی اے سی آرز ہیں جو چیف سیکرٹری نے ہی لکھنی ہیں۔ چیف سیکرٹری ڈاکٹر کامران افضل میٹنگ میں اپنے 21 ویں کامن کے بیچ میٹس سیکرٹری ٹرانسپورٹ علی مرتضیٰ شاہ اور کیپٹن (ر) سیف انجم کے ساتھ کھڑے ہو کر گپ شپ بھی کرتے رہے۔ چیف سیکرٹری نے اپنی اس پہلی میٹنگ میں ڈویلپمنٹ، پرائس کنٹرول اور گڈ گورننس کو بہتر کرنے کا کہا اور نچلی سطح پر کرپشن کی اطلاعات کی نشاندہی کی۔ اب نئے چیف سیکرٹری تو آگئے لیکن سوال یہ ہے کہ سٹائل آف گورننس کیا چل رہا ہے؟ اس وقت تو پنجاب میں ایڈہاک قسم کا گورننس سٹائل ہے۔ آئے دن پوسٹنگ ٹرانسفر ہو رہی ہے۔ نئے چیف سیکرٹری نے کہا کہ افسران پوسٹنگ ٹرانسفر کی فکر نہ کریں کسی کو بغیر وجہ کے تبدیل نہیں کیا جائے گا لیکن سروس ڈلیوری تو بعد کی بات ہے کوئی بندہ سیٹ پر ٹک ہی نہیں رہا جس کی وجہ سے پالیسیوں پر عملدرآمد میں تسلسل نظر نہیں آ رہا۔ وزیر اعلیٰ سیکرٹریٹ کی طرف سے اپنی مرضی سے چیزیں چلائی جا رہی ہیں۔ گورننس نچلے درجے پر پہنچنے کی وجہ سے وزیراعظم عمران خان نے یہی بہتر سمجھا کہ ڈاکٹر کامران جیسا سلجھا اور بہتر بندہ لگایا جائے۔ پہلے گورننس سابق پرنسپل سیکرٹری طاہر خورشید (ٹی کے) اور سابق چیف سیکرٹری جواد رفیق ملک چلا رہے تھے۔ سابق چیف سیکرٹری وزیر اعلیٰ کے معاملات میں دخل اندازی نہیں کرتے تھے۔ 100 میں سے 2 پوسٹنگز چیف سیکرٹری کرتے تھے۔ اب وفاقی حکومت سارے خراب معاملات کو ٹھیک کرنے کے لئے ڈاکٹر کامران افضل کو لائی ہے۔ لیکن کچھ سوال اب بھی باقی ہیں کہ کیا نئے چیف سیکرٹری کو موقع دیا جائے گا اور کیا انہیں سپورٹ دی جائے گی کہ وہ گورننس کے انحطاط کو ختم کر سکیں؟ پہلے سے یہ مثالیں موجود ہیں کہ جب کوئی چیف سیکرٹری وزیر اعلیٰ کو ’’درست‘‘ نہیں لگتا تو وزیراعظم چیف سیکرٹری سے کہتے ہیں میری مجبوری ہے آپ واپس آ جائو۔ وزیراعظم نے پنجاب کے اب تک تبدیل ہونے والے 4 چیف سیکرٹریوں میں سب کو پورا مینڈیٹ دیا کہ پنجاب میں سب ٹھیک اور سیدھا کر دو، اپنی ٹیم بنائو۔ میجر (ر) اعظم سلیمان خان جب چیف سیکرٹری پنجاب بنے تو ہر طرف یہی باتیں ہو رہی تھیں کہ اب جب تک حکومت ہے یہی چیف سیکرٹری رہیں گے لیکن انہیں بھی صرف چند ماہ ہی ملے۔ پھر جواد رفیق ملک آئے جو ایک سال 4 ماہ رہے۔ ان حالات میں آپ نے ایک اور نیا بندہ بھیجا۔ کیا اب دوبارہ اس انحطاط کو ریورس کرنا چاہتے ہیں؟ اچھی بات کہ آپ ریفارمز کرنا چاہتے ہیں لیکن آپ فالو اپ نہیں کرتے۔ جب سیاسی مجبوریاں سامنے آتی ہیں تو آپ اپنے ہی مینڈیٹ والے افسران کو واپس بلا لیتے ہیں۔ آپ نے 5واں چیف سیکرٹری اور 7 واں آئی جی پولیس تعینات کیا ہے۔ اب اہم سوال یہ ہے کہ موجودہ چیف سیکرٹری‘ جو ایک سٹار افسر ہے، کو پنجاب میں لا کر گورننس کو بہترکرنے کا موقع دیں گے اور کیا اس دفعہ آپ کی سیاسی مجبوریاں آڑے تو نہیں آ جائیں گے؟آپ ایک ہی چیز کو بار بار دہرا رہے ہیں۔ ہر دفعہ کہتے ہیں کوپنجاب کو سیٹ کرنے لگے ہیں۔ آپ کو اس بات کا یقینی طور پر اندازہ ہوگا کہ اگر پنجاب میں گورننس ٹھیک نہ ہوئی تو اس کے سیاسی اثرات تباہ کن ہوسکتے ہیں۔ آپ کی نیت اچھی ہوگی لیکن سوالیہ نشان یہ ہے کہ کیا نئے چیف سیکرٹری ڈاکٹر کامران علی افضل وزیر اعلیٰ عثمان بزدار اور ان کی ٹیم کے ساتھ چل پائیں گے؟ نئے چیف سیکرٹری اور وزیر اعلیٰ کے ورکنگ سٹائل میں نارتھ پول اور سائوتھ پول جتنا فرق لگتا ہے۔ یہ فرق کیسے مٹایا جاسکے گا ، یہ ایک بڑا سوالیہ نشان ہے؟ ویسے تو عثمان بزدار کے ساتھ ٹی کے کی ٹیم ہی اچھی تھی بہر حال آپ بہتر سمجھتے ہیں۔ اب نئے چیف سیکرٹری کو بھی اگر مینڈیٹ دیا ہے تو انہیں فری مائنڈ کے ساتھ کام کرنے کا موقع دیں۔ سروس ڈلیوری اور گڈ گورننس کے لئے سب سے زیادہ ضروری ایڈہاکزم کا خاتمہ اور پالیسیوں کا تسلسل ۔ تبادلے ضرور کریں کیونکہ آپ کا اختیار ہے لیکن پہلے اچھے طریقے سے کام کرنے کا موقع دیں۔ سول سروس آف پاکستان میں اتنی اہلیت موجودہے کہ جیسے وہ دیگر تین صوبوں میں کام چلا رہی ہے پنجاب میں بھی بحرانوں سے نبرد آزما ہوسکتی ہے۔

تازہ ترین