نجانے مجھے اعتزاز احسن کی شکل دیکھ کر کبھی غصہ اور کبھی پیار کیوں آ رہا ہے؟ اعتزاز احسن کو دیکھ کرکبھی رونے اور کبھی ہنسنے کو جی کیوں چاہتا ہے؟ کچھ سمجھ نہیں آ رہی کہ اعتزاز احسن مبارکباد کا مستحق ہے یا اس کے ساتھ تعزیت کی جانی چاہئے؟ اعتزاز احسن میرے سامنے آ جائے تو میں مکمل طور پر کنفیوژن کا شکار ہو جاؤں گا کہ عربوں کے سٹائل میں اس کی چمی لوں یا زور سے چٹکی کاٹوں؟ میرا کنفیوژن اتنا بڑھ گیا ہے کہ مجھے اعتزاز احسن کی وہ ”ریاست ہو گی ماں کے جیسی“ والی لمبی سی نظم بھی بھول گئی۔ جو ایک زمانے میں ”سپر ہٹ“ تھی اور پھر ”سپر پٹ“ ہو گئی۔ ”صرف نظم ہی نہیں پٹی بلکہ پورا نظم ہی پٹ گیا“۔ یہ عجیب سا جملہ ہے جو بیچارے قانون دان اعتزاز احسن کی سمجھ میں تو ہر گز نہیں آئے گا لیکن شاعر اعتزاز احسن اس کی گہرائی میں جا کر شاید اسے سمجھ لے لیکن زیادہ گہرائی میں آدمی کبھی کبھی گم بھی ہو جاتا ہے۔ ”سوشل تو میں کبھی بھی نہ تھا لیکن گزشتہ 16,15 سال سے تو میں نے سوشلائز کرنا بالکل ہی چھوٹ دیا ہے۔ گھر تو کیا مجھے تو اپنی سٹڈی سے نکلتے ہوئے بھی عجیب سی کوفت ہوتی ہے۔ سو مدت ہوئی اعتزاز احسن سے ملے ہوئے اور مستقبل قریب میں بھی اس حادثہ کی امید نہیں تو فی الحال اتنا ہی عرض کر سکتا ہوں کہ #
گر زندگی میں مل گئے پھر اتفاق سے
پوچھیں گے تیرا حال تری بے بسی سے ہم
اعتزاز احسن کی اطلاع کیلئے عرض ہے کہ ”اتفاق“ اس شعر میں میں نے نہیں ڈالا کیونکہ یہ شعر میری ہوش سے بہت پہلے کا ہے۔ اعتزاز احسن کے ساتھ ”دکھ سکھ“ کے بعد اس کے ایک ایسوسی ایٹ رضا ربانی کی طرف چلتے ہیں۔ جو میرا ”یک طرفہ بھائی“ ہے۔ وہی رضا ربانی جو اس جادونگری میں صدارتی امیدوار ہے۔ مدتوں پہلے میں نے جہانگیر بدر سے کہا تھا ”کبھی رضا ربانی سے تو ملواؤ“۔ جے بی حیران رہ گیا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ مجھے سیاستدانوں سے نفرت ہے۔ بات آئی گئی ہو گئی۔ پھر دیگر بعد کہیں رضاربانی سے آمنا سامنا ہوا اور میں نے ڈیڑھ منٹ میں اس سے اپنے رشتہ کے بارے میں ”بریف“ کیا اور اسے کنفیوژن کے عالم میں چھوڑ کر آگے نکل گیا۔
میں ناسٹیلجیا کا مریض اور لج پال آدمی ہوں۔ رشتے میرے لئے رومانس کی انتہا ہیں۔ اگر باوقار ہوں تو کوئی مجھے بتائے اس ملک کی غلیظ سیاست میں رضا ربانی سے زیادہ پاکیزہ کون ہے؟ للوؤں پنجوؤں کے درمیان اس سے زیادہ خاندانی کون ہے؟ لیکن پچھلے دنوں خود کہا اعتزاز نے کہ انڈے اور ٹماٹر کھانے کیلئے ان کو آگے کر دیا جاتا ہے۔
اب چلتے ہیں رضا ربانی رومانس کی طرف کہ صدارت کا یہ بہترین امیدوار میرا لگتا کیا ہے۔ 2004ء مجھے ایک بار پھر انڈیا جانے کا اتفاق ہوا۔ میرے بزرگوں نے تین شہروں جالندھر، امرتسر اور لدھیانہ سے ہجرت کی تھی۔ امرتسر کے فرید چوک سمیت ان شہروں میں آج بھی کچھ نہ کچھ میرے بڑوں سے منسوخ ہے۔ سو ظاہر ہے یہ شہر میرے لئے دھار مک شہروں کا درجہ رکھتے تھے۔ اس جذباتی سفر سے واپسی پر میں نے ”جنگ“ میں ”مٹھی بھر مٹی کی کتھا“ کے عنوان سے قسط وار کالم لکھے تو مجھے خوبصورت انگریزی میں ہاتھ سے لکھا ہوا اک خط موصول ہوا۔ جس پر اک چھوٹے سے پیلے سٹکر پر اردو میں لکھا تھا۔
”انچارج ادارتی صفحہ ۔ السلام علیکم ۔ یہ مسٹر حسن نثار کے نام ایک پرائیویٹ خط ہے۔ ان کے ایک کالم سے پتہ چلا کہ وہ میرے ایک مرحوم دوست کے صاحبزادے ہیں۔ میں ان سے رابطہ کرنا چاہتا ہوں“۔
قارئین ! یہ خط جو آج بھی کسی بیش قیمت متاع کی طرح میرے پاس محفوظ ہے۔ انکل عطا ربانی کا خط تھا۔ ”قائداعظم کے اولین ائیرا ے ڈی سی اور رضا ربانی کے والد محترم مرحوم و مغفور ائیر کموڈور (ر) میاں عطاء ربانی صاحب کا خط
انگریزی میں لکھے گئے اس خط کے چند اقتباسات کا اردو ترجمہ ملاحظہ فرمائیے۔
”ڈیر مسٹر حسن نثار! میں بلا ناغہ تمہارا کالم ”چوراہا“ پڑھتا اور اس سے لطف اندوز ہوتا ہوں۔ مجھے تمہارا سٹائل، سوچ کا انداز، تمہاری شدت اور Conviction بہت پسند ہے لیکن فی الحال میں تمہارے اس کالم بارے بات کرنا چاہتا ہوں جو ”مٹھی بھر مٹی کی کتھا“ کے عنوان سے 28 دسمبر 2004ء کو ”جنگ“ میں شائع ہوا۔ میں یہ اعتراف کرتا ہوں کہ قیام پاکستان کے بعد میں نے کبھی ناسٹیلجیا کو نزدیک نہیں پھٹکنے دیا لیکن تمہارے کالم نے مجھے شدید ناسٹیلجیا میں مبتلا کر دیا۔ تم نے جالندھر امرتسر کا ذکر کیا۔ جہاں میرا بچپن اور لڑکپن گزرا۔ بعد ازاں میں تعلیم کیلئے علی گڑھ چلا گیا تھا۔ پھر تقسیم پر میں بابائے قوم کے ساتھ ان کے اے ڈی سی کے طور پر 7 اگست 1947ء پاکستان پہنچ گیا۔ فیملی کیمپوں سے گزر کر لائل پور پہنچ گئی۔ جہاں پہلے سے ہی ہماری زرعی زمینیں موجود تھیں۔ جالندھر کے عالی محلہ میں میں کرکٹ اور فٹ بال کھیلتا اور امام ناصر کے مزار پر بھی جاتا۔ تمہارے کالم نے برسوں بعد مجھے "HOME SICK"کر دیا۔ تمہاری ”مٹھی بھر مٹی کی کتھا“ کے جادو نے مجھے کہاں سے کہاں پہنچا دیا۔ تم پاکستان سے 4 سال چھوٹے ہو سو تمہیں کیا بتاؤں کہ تم ریلیٹ ہی نہ کر سکو گے۔ تم نے اپنے کالم میں اپنے مرحوم والد میاں نثار الحق کا ذکر کیا تو سنو تم میرے بچپن کے دوست اور محلہ دار نثار کے بیٹے ہو۔ خصوصاً عالی محلہ کے حوالہ کے بعد تو کوئی شک ہی نہیں رہ گیا … مجھے تم پر فخر ہے۔ میرا بھی ایک بیٹا ہے میاں رضا ربانی۔ امید ہے تمہیں کسی وقت مجھ سے مل کر خوشی ہو گی۔
دعاؤں کے ساتھ
عطاء ربانی
5846310
5842444
موبائل 0300-2907740
پھر انکل عطا جب بھی لاہور تشریف لاتے۔ ڈیفنس اپنی صاحبزادی کے گھر طلب کرتے اور ان زمانوں کے جالندھر و امرتسر کے ساتھ ساتھ میرے مرحوم والد کے بارے میں بھی بہت سی باتیں سناتے۔ جب وہ خود رخصت ہوئے تو میں ملک سے باہر تھا۔ کندھا بھی نہ دے سکا۔
آج انہی انکل عطا ربانی جیسی تاریخی شخصیت کا نیا نام بیٹا رضا ربانی صدارتی امیدوار ہے اور اس بات پر پریشان کہ اتنے شارٹ نوٹس پراپنے ووٹروں سے رابطہ کیسے کرے گا … رابطہ کر بھی لے تو ممنون حسین ہی جیتے گا … قائداعظم کے فیورٹ اے ڈی سی کا قابل اور نیک نام بیٹا نہیں کیونکہ …
”بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے“