• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گمبھیر مسائل کی یلغار اور کرپشن کے ہوشربا واقعات نے سیاسی قیادتوں ،قومی اداروں اور عدالت ِعظمیٰ کو شدید اضطراب میں مبتلا کر رکھا ہے۔ گزشتہ حکومت کی بے پرواہی، لاتعلقی اور نااہلی کے باعث بجلی کی لوڈشیڈنگ شہروں میں بھی اٹھارہ گھنٹوں تک پہنچ گئی تھی اور ملکی معیشت بری طرح ہانپنے لگی تھی۔ پیپلزپارٹی کی مخلوط حکومت مارچ 2008ء میں قائم ہوئی  تب بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں کا سرکلر ڈیٹ 200ارب تھا جو پانچ برسوں میں 500ارب سے تجاوز کر گیا۔ کک بیکس میں لتھڑی اِس حکومت کو عوام کے مسائل سے کوئی دلچسپی ہی نہیں تھی۔ اخبارات میں خبر آتی کہ پی آئی اے کا طیارہ ایندھن ختم ہو جانے کی وجہ سے دبئی لینڈ کر گیا ہے  مگر دگرگوں مالی حالت کے باعث آئل کمپنی نے ایندھن دینے سے انکار کر دیا ہے۔ اِس پر وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کی جبیں پر انفعال کے قطرے نمودار نہ ہوتے  کیونکہ اُنہیں اِس معاملے سے کوئی سروکار ہی نہ تھا  وہ تو فقط اِس بات میں دلچسپی رکھتے تھے کہ کروڑوں اور اربوں کیسے کمائے جا سکتے ہیں۔ توقیر صادق جن کی تعلیمی قابلیت میٹرک بتائی جاتی ہے  وہ پاکستان کے نہایت سٹرٹیجک اہمیت کی کارپوریشن کے چیئرمین لگا دیے گئے جن کے بارے میں یہ رپورٹ سامنے آئی کہ اُنہوں نے 82ارب روپے خوردبرد کیے ہیں۔ اب کرپشن کے جو اسکینڈل بے نقاب ہو رہے ہیں  وہ سینکڑوں نہیں ہزاروں اربوں کی کتھا سنا رہے ہیں۔زرداری حکومت اگر ملکی معاملات میں ذرا بھی سنجیدہ ہوتی  تو تھوڑی سی کوشش سے سرکلر ڈیٹ کی ادائیگی کی جا سکتی تھی مگر وہ آنے والوں کے لیے خالی خزانہ اور سنگین مسائل کا انبار چھوڑ کے چلی گئی۔ نواز شریف حکومت آئی تو وزیرِخزانہ جناب اسحق ڈار نے مژدہ سنایا کہ ہم ایک دو ماہ کے اندر سرکلر ڈیٹ ادا کر دیں گے اور بجلی کی لوڈشیڈنگ میں دو تین گھنٹوں کا افاقہ ہو جائے گا۔ اُنہوں نے 600 ارب کہاں سے نکالے  اِس کا راز بتانے سے ڈار صاحب شرما جاتے ہیں اور داد پانے کی توقع رکھتے ہیں۔ پھر خبر آئی کہ 480ارب ادا کر دیے گئے ہیں اور لوڈشیڈنگ میں یقینی طور پر کمی آ جائے گی۔ اِس یقین دہانی پر وزیراعظم نواز شریف نے بڑے اعتماد سے اعلان کر دیا کہ سحری  افطاری اور نمازِ تراویح کے دوران لوڈشیڈنگ نہیں ہو گی  مگر چند روز بعد ہی پورے ملک سے شکایات کاسلسلہ شروع ہو گیا کہ انہی اوقات میں بجلی غائب ہو جاتی ہے۔ وزیرِ منصوبہ بندی جناب احسن اقبال جو قوم کی اُمیدوں کے مرکز ہیں  چند روز قبل ایک ٹی وی چینل پر کہہ رہے تھے کہ گزشتہ رمضان کے مقابلے میں رواں رمضان بجلی کی فراہمی کے اعتبار سے بہتر ہے۔پاکستان کے عوام اِس اُمید پر انتہائی سخت حالات میں غیر معمولی قوتِ برداشت سے کام لے رہے ہیں کہ ایک سنجیدہ  اہل اور متحرک حکومت کی شبانہ روز کوششوں سے اچھے دن آئیں گے اور گوادر سے کاشغر تک اقتصادی کاریڈار کے قیام سے پاکستان بہت خوشحال اور اِس کے عوام کا معیارِ زندگی قابلِ رشک ہو جائے گا  تاہم اِس وقت عام آدمی سخت اذیت میں ہے۔
جناب وزیراعظم نے انرجی پالیسی پر میڈیا کے ساتھ مشاورت کا عمل شروع کر کے بڑی دانائی  دوربینی اور وسعتِ قلبی کا ثبوت دیا ہے۔ وہ موجودہ حالات سے جس قدر مضطرب ہیں  اِس کا اندازہ اِس گہری سنجیدگی سے ہوتا ہے جو اُن کے چہرے پر طاری ہے اور اِن سرگرمیوں سے بھی جن کے ذریعے وہ جلد سے جلد توانائی کا بحران ختم کرنا چاہتے ہیں۔ اِس ضمن میں ہمیں اِس امر کا گہرائی کے ساتھ جائزہ لینا چاہیے کہ واپڈا میں پاور ونگ ختم کرنے اور بجلی کی پیداوار اور تقسیم کی علیحدہ علیحدہ کمپنیاں بنانے سے معاملات بہتر ہوئے ہیں یا ہم کسی دلدل میں پھنستے جا رہے ہیں۔ جب واپڈا کا تصوراتی ڈھانچہ تیار ہو رہا تھا اُس وقت میں محکمہٴ آبپاشی میں کام کرتا تھا اور میں نے اِس پورے عمل کو بہت قریب سے دیکھا ہے۔ اِس کے پہلے چیئرمین غلام فاروق جو اپنے زمانے کے نابغہ روزگار تھے  اُنہوں نے چند برسوں میں آبی ذخائر کی منصوبہ بندی کی اور بجلی کی پیداوار میں زبردست اضافہ کیا  چنانچہ واپڈا میں دوبارہ پاور ونگ قائم کرنے کے تمام پہلووٴں کا پوری سنجیدگی سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ اِس کا انفراسٹرکچر پہلے سے موجود ہے  البتہ محاسبے اور مانیٹرنگ کے نظام کو موٴثر بنانے کی ضرورت ہو گی۔یہ تجویز بھی زیرِ غور ہے کہ بجلی پیدا کرنے اور اِسے تقسیم کرنے والی کمپنیوں کی نج کاری کا فیصلہ تباہ کن ثابت ہو گا۔ کراچی الیکٹرک سپلائی کمپنی کی نج کاری کے ہولناک نتائج ہمارے سامنے ہیں۔ اِس نے اپنے بجلی گھر بند کر دیے ہیں اور معاہدے کے تحت باقی ملک سے 750میگاواٹ سستی بجلی حاصل کرتی ہے۔ کراچی کے شہری اِس کی بدانتظامی اور بدعنوانی سے بلبلا اُٹھے ہیں۔
ہمارے دیرینہ دوست محمد عبدالحمید نے اِس ضمن میں ایک نہایت صائب مشورہ دیا ہے۔ اُن کے نزدیک مسئلے کا حل یہ ہے کہ بجلی کی تقسیم کار کمپنیاں صارفین کے حوالے کر دی جائیں۔ ہر صارف کو اِس کا حصے دار بنا دیا جائے۔ کمپنی کے سربراہ کا تقرر وفاقی پبلک سروس کمیشن کے ذریعے عمل میں لایا جائے جو چھ ماہ بعد صارفین سے اعتماد کا ووٹ لینے کا پابند ہو گا اور جب تک وہ اِس کی کارکردگی سے مطمئن رہیں  وہ کام کرتا رہے گا۔ہماری سیاسی اور عسکری قیادت کی طرح ہماری عدالت ِعظمیٰ بھی شدید حالت ِ اضطراب میں ہے۔ اِس پر بے پایاں اعتماد کے باعث شہری اور ادارے حصولِ انصاف کے لیے اُسی کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ فاضل چیف جسٹس جناب افتخار محمد چودھری نے ازخودنوٹس کے ذریعے بہت سے بگڑے ہوئے کام سنوارے ہیں اور ایگزیکٹو کی غفلت اور قانون کی صریح خلاف ورزی کا بروقت محاسبہ کیا ہے۔ اِس کے سامنے لاپتہ افراد کے دلگداز معاملات ہیں جو اضطراب میں اضافہ کرتے ہیں۔ پچھلے دنوں متروکہ وقف املاک بورڈ میں ناقابلِ تصور بدعنوانیوں کے واقعات سامنے آئے جن میں چیئرمین آصف ہاشمی تمام حدیں عبور کر گئے تھے۔ اِسی طرح ای او بی آئی اسکینڈل اخبارات کی زینت بنے اور یہ تاثر قائم ہوا کہ اُن کے چیئرمین ظفر گوندل اربوں کے گھپلوں میں ملوث رہے۔ زمین کی خریدوفروخت میں ڈی ایچ اے اسلام آباد کا نام بھی آنے لگا جو ایک اچھی شہرت رکھتا ہے۔ اِس تصور کے بارے میں تو دو رائے ہو سکتی ہیں کہ فوج کو ہاوٴسنگ اتھارٹی قائم نہیں کرنی چاہیے  لیکن زمین کی خریدوفروخت میں اِس کا ریکارڈ تسلی بخش رہا ہے۔ عدالت ِ عظمیٰ کے سامنے ایف آئی اے نے یہ رپورٹ پیش کی کہ ڈی ایچ اے نے ای او بی آئی کو جو زمین فروخت کی  وہ بنجر ہے  وہاں کوئی ترقیاتی کام نہیں ہوا اور ڈی ایچ اے اِس کی سرے سے مالک بھی نہیں۔ فاضل چیف جسٹس نے اِس رپورٹ کی بنیاد پر ڈی ایچ اے کو فوری طور پر 22ارب جمع کرانے اور اُس کے اکاوٴنٹس منجمد کرنے کے احکام صادر کیے۔ فیصلہ تو انسانی جذبے کے تحت کیا گیا ہے کہ پنشنروں کے اثاثوں کی حفاظت ضروری ہے۔ چند روز پہلے ڈی ایچ اے کی طرف سے اخبارات میں ایف آئی اے کی رپورٹ کی تردید شائع ہوئی ہے۔ ڈی ایچ اے کے فنڈز منجمد ہو جانے سے اِس کے لیے مشکلات پیدا ہو گئی ہیں اور اُس کی شہرت کو نقصان پہنچا ہے۔ انصاف کا تقاضا ہے کہ تردید آنے کے بعد فاضل چیف جسٹس ایف آئی اے کے بجائے کسی اور ایجنسی سے تحقیقات کرانے کا حکم صادر فرمائیں اور تحقیقاتی رپورٹ آنے تک ادارے کے فنڈز بحال کر دیے جائیں کہ اِس کے ساتھ ہزاروں لوگ وابستہ ہیں اور عید قریب آ رہی ہے۔اُمید کی جاتی ہے کہ عدالت ِ عظمیٰ ڈی ایچ اے کو اپنا موقف پیش کرنے کا موقعہ فراہم کرے گی اور اُسے حالت ِاضطراب سے نکالے گی۔
تازہ ترین