اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے رہنما مولانا مطیع الرحمان نظامی کو صرف پاکستان سے محبت کے جرم میں پھانسی پر لٹکایا گیا تو یہ پورا سچ نہیں ہے۔ مولانا مطیع الرحمان نظامی کے’’عدالتی قتل‘‘ پر کئی پاکستانی اخبارات کی ہیڈ لائنز سے یہ تاثر ملا کہ نظامی صاحب بنگلہ دیش کے نہیں بلکہ پاکستان کے وفادار تھے۔ یہ تاثر حقائق کے منافی اور جماعت ا سلامی بنگلہ دیش کی پالیسی کے بالکل برعکس ہے۔ حسینہ واجد کی حکومت کی طرف سے قائم کئے گئے انٹرنیشنل وار کرائمز ٹربیونل نے اب تک جماعت اسلامی اور بی این پی کے جن رہنمائوں کوسزائیں دیں پاکستانی میڈیا نے ان رہنمائوں کو پاکستان نواز قرار دے کر حسینہ واجد کی ہاں میں ہاں ملائی۔ بدقسمتی سے پاکستان کا میڈیا بھارت کے بارے میں زیادہ اور بنگلہ دیش کے بارے میں کم جانتا ہے۔ ہمارے اکثر صاحبان علم و دانش کو یہ معلوم ہی نہیں کہ1971میں فوجی آپریشن سے قبل جماعت اسلامی مشرقی پاکستان کے رہنما پروفیسر غلام اعظم واضح الفاظ میں اقتدار اکثریتی جماعت عوامی لیگ کے حوالے کرنے کا مطالبہ کررہے تھے۔ جماعت اسلامی مشرقی پاکستان کی مجلس شوریٰ نے طویل بحث و مباحثے کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ اگر پاکستان کا وفاق قائم نہ رہا تو جماعت اسلامی مسلح جدوجہد کے ذریعہ آزادی حاصل کرنے کی بجائے آئینی علیحدگی کو ترجیح دے گی۔ فوجی آپریشن شروع ہوا تو خانہ جنگی نے زور پکڑا۔ جماعت اسلامی کے کارکن البدر اور الشمس نامی تنظیموں میں شامل ہوگئے اور انہوں نے پاکستانی فوج کے ساتھ مل کر مکتی باہنی کا مقابلہ شروع کردیا جسے بھارتی فوج کی سرپرستی حاصل تھی۔ 16 دسمبر 1971کو پاکستانی فوج کے سرنڈر کے بعد بنگلہ دیش معرض وجود میں آیا۔ شیخ مجیب الرحمان نے اقتدار سنبھالنے کے بعد جماعت اسلامی پر پابندی لگادی اور پروفیسر غلام اعظم کی شہریت منسوخ کردی۔ شیخ مجیب الرحمان کے قتل کے بعدجنرل ضیاء الرحمان اقتدار میں آئے۔ جنرل ضیاء الرحمان نے جماعت اسلامی پر عائد پابندی ختم کردی اور بنگلہ دیش کی سپریم کورٹ نے پروفیسر غلام اعظم کی شہریت بحال کردی۔ واضح رہے کہ جنرل ضیاء الرحمان’’پاکستان نواز‘‘ نہیں تھے۔ انہوں نے شیخ مجیب الرحمان سے پہلے پاکستان کے خلاف بغاوت کی تھی اور ایک میجر کی حیثیت سے چٹاگانگ میں ریڈیو اسٹیشن پر قبضہ کرکے بنگلہ دیش کی آزادی کا اعلان کیا۔ جنرل ضیاء الرحمان نے عوامی لیگ کی نفرت میں جماعت اسلامی کے ساتھ اتحاد کیا۔ ان کی موت کے بعد خالدہ ضیاء سیاست میں آئیں۔ جماعت اسلامی نے خالدہ ضیاء کی بی این پی کی حمایت کی اور 1991میں بی این پی الیکشن جیت گئی۔ اس الیکشن میں جماعت اسلامی کو18نشستیں ملیں لیکن یہ جماعت کنگ میکر بن کر سامنے آئی۔ عوامی لیگ نے جماعت اسلامی اور کچھ دیگر جماعتوں کے ساتھ مل کر حکومت بنانے کی کوشش کی۔ عوامی لیگ کے رہنما امیر حسین عامو نے جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل علی احسن مجاہد کوپیغام دیا کہ ہم پروفیسر غلام اعظم کو وزیر بنانے کے لئے تیار ہیں لیکن جماعت اسلامی نے یہ پیغام نظر انداز کردیا اور خالدہ ضیاء اقتدار میں آگئیں۔
عوامی لیگ اور جماعت اسلامی کے تعلقات میں ایک دلچسپ موڑ1996میں آیا۔ عوامی لیگ نے جماعت اسلامی کے ساتھ مل کر تحریک چلائی کہ نئے انتخابات بی این پی کی حکومت کے تحت نہیں بلکہ غیر جانبدار نگران حکومت کے تحت کرائے جائیں۔ عوامی لیگ کے ساتھ اتحاد کا جماعت اسلامی کو شدید نقصان ہوا اور 1996میں اسے صرف تین نشستیں ملیں۔ 2001کے انتخابات میں بی این پی نے دوبارہ جماعت اسلامی سے اتحاد کیا اور اکثریت حاصل کی۔ اس الیکشن میں جماعت اسلامی کو17نشستیں ملیں۔ مولانا مطیع الرحمان نظامی وفاقی وزیر برائے زراعت وصنعت بنائے گئے۔ ان کی کارکردگی بی این پی کے دیگر وزراء کی نسبت بہت بہتر تھی لہٰذا بی این پی کے وز راء ان سے حسد کرنے لگے۔ بی این پی’’کنگ میکر‘‘ کو ساتھ رکھنا چاہتی تھی لیکن’’کنگ میکر‘‘ کی بڑھتی ہوئی مقبولیت سے خائف بھی تھی۔ بی این پی کے وزراء پر کرپشن کے الزامات کا جماعت اسلامی کو شدید نقصان ہوا اور 2008کے الیکشن میں جماعت اسلامی کو صرف دو نشستیں ملیں۔ یہ وہ موقع تھا جب عوامی لیگ کے اندر حسینہ واجد کے ناقدین کے ایک گروپ نے ان پر دبائو بڑھانے کے لئے جماعت اسلامی پر پابندی اور اس کی قیادت کے خلاف وار کرائمز کے الزام میں مقدمہ چلانے کا مطالبہ کیا۔ اس مطالبے کے حامیوں نے ڈھاکہ کے علاقے شاہ باغ میں کئی دن تک دھرنا بھی دیا۔ اس دھرنے میں بار بار یہ کہا جاتا رہا کہ پاکستان نے1971کے فوجی آپریشن میں ہونے والی زیادتیوں پر معافی نہیں مانگی لہٰذا اس آپریشن کے دوران پاکستانی فوج کا ساتھ دینے والوں کے خلاف مقدمہ چلایا جائے۔ یاد رہے کہ2002میں وزیر اعظم خالدہ ضیاء اور ان کے وزیر مطیع الرحمان نظامی پاکستان کے صدر پرویز مشرف کو ڈھاکہ میں یادگار شہداء پر لے گئے تھے اور وہاں مشرف نے مہمانوں کے تاثرات کے لئے رکھی گئی کتاب میں1971کے واقعات پر معذرت کی تھی۔بی این پی اس معذرت کو اپنا بہت بڑا کارنامہ قرار دیتی تھی لیکن عوامی لیگ معذرت کی بجائے معافی کا مطالبہ کرتی رہی۔حسینہ واجد کی طرف سے وار کرائمز ٹربیونل بنا کر جماعت اسلامی اور بی این پی کے رہنمائوں کے ٹرائلز شروع کئے گئے تو بنگلہ دیش میں یہ سوال اٹھایا گیا کہ جب عوامی لیگ نے بی این پی کے ساتھ مل کر جنرل حسین احمد ارشاد کی حکومت کے خلاف تحریک چلائی تو اس وقت اسے 1971کے جنگی جرائم کیوں بھول گئے؟ جب عوامی لیگ نے1996میں جماعت اسلامی کے ساتھ مل کر بی این پی کی حکومت کے خلاف ایجی ٹیشن کیا اس وقت اسے جماعت اسلامی والے معصوم کیوں نظر آئے؟ حقیقت یہ ہے کہ بی این پی شدید اندرونی بحران کا شکار ہوچکی ہے اور جماعت اسلامی ایک متبادل اپوزیشن جماعت کے طور پر ابھر رہی تھی۔ بھارت میں بی جے پی جیسی مذہبی جماعت کی اٹھان نے بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کوسیکولر اور لبرل جماعتوں کے متبادل کے طور پر مزید اجاگر کیا۔ عوامی لیگ جماعت اسلامی کی کنگ میکر پوزیشن سے بھی خائف تھی اور اسے یہ شک بھی ہے کہ بنگلہ دیشی فوج میں جماعت اسلامی کی جڑیں بہت گہری ہیں لہٰذا وار کرائمز ٹربیونل کے ذریعہ جماعت اسلامی کے نحیف اور بیمار رہنمائوں کو پھانسی پر لٹکانے کا اصل مقصد ایک ابھرتی ہوئی سیاسی طاقت کو ختم کرنا ہے۔ انسانی حقوق کی کئی عالمی تنظیمیں وار کرائمز ٹربیونل کی سزائوں پر اعتراضات کرچکی ہیں لہٰذا یہ سزائیں بنگلہ دیش کا اندرونی معاملہ نہیں ہیں۔ حسینہ واجد کی حکومت ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ کے اعتراضات کو پاکستان کی سازش قرار نہیں دےسکتی۔ میں کئی دفعہ یہ عرض کرچکا ہوں کہ پاکستان کی حکومت کو1971کے واقعات پر صرف معذرت کی بجائے معافی مانگ کر بنگلہ دیش کے ساتھ نفرتوں کا خاتمہ کردینا چاہئے لیکن بنگلہ دیش کی حکومت وار کرائمز ٹربیونل کے ذریعہ نئی نفرتوں کو جنم دے رہی ہے اور بنگلہ دیش کے جمہوریت پسند نوجوانوںکو عسکریت کی طرف دھکیل رہی ہے۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ کا تو سبق یہی ہے کہ سیاسی جماعتوں پر پابندیاں اور سیاسی رہنمائوں کی پھانسیاں نفرتوں کی آگ کو مزید بھڑکاتی ہیں۔ پاکستان میں نیشنل عوامی پارٹی کو سپریم کورٹ کے ذریعہ کالعدم قرار دیا گیا۔ یہ جماعت عوامی نیشنل پارٹی، نیشنل پارٹی اور بی این پی کی صورت میں آج بھی موجود ہے۔ پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی پر لٹکایا گیا ان کی پارٹی بھی ختم نہیں ہوئی۔ جماعت اسلامی پر بنگلہ دیش میں پابندی لگادی گئی تو یہ نئے نام کے ساتھ سامنے آجائے گی۔
جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے موقف کو سمجھنے کے لئے پروفیسر غلام اعظم کا وہ خط اہم ہے جو انہوں نے2012میں اپنی گرفتاری سے قبل ساتھیوں کے نام لکھا۔ اس خط میں انہوں نے واضح کیا کہ میں نے 14اگست 1971کو ڈھاکہ یونیورسٹی میں فوجی آپریشن کی مخالفت کی تھی۔’’بنگلہ دیش میں ظلم کاراج‘‘ کے عنوان سے اس خط کو جماعت اسلامی پاکستان نے منصورہ لاہور سے شائع کیا اور خط کے آخر میں پروفیسر غلام اعظم نے بنگلہ دیش کی آزادی و خود مختاری کو محفوظ رکھنے کی دعا کی۔ جماعت اسلامی بنگلہ دیش کا یہ المیہ ہے کہ عوامی لیگ1996میں اس کی اتحادی تھی اور 2016میں1971کے واقعات پر اسے جنگی مجرم قرار دے رہی ہے۔ جماعت اسلامی بنگلہ دیش نے کئی کردہ اور ناکردہ گناہوں کی سزا بھگت لی۔ بہت جلد بنگلہ دیش میں عوامی لیگ کا ٹرائل شروع ہونے والا ہے جس میں عوام حسینہ واجد سے پوچھیں گے کہ1996میں آپ کے سیاسی اتحادی2016میں جنگی مجرم کیسے بن گئے؟