آج11مئی ہے۔ سرکاری اطلاع کے مطابق2جون کو قومی اسمبلی کا بجٹ اجلاس بلایا جائے گا اور3جون کو2016-17کا وفاقی بجٹ پیش کیا جائے گا۔ اس سال بجٹ سےپہلے ماہرین، غیر ماہرین تجارتی اور کاروباری اداروں، پیشہ وروں کی جماعتوں ، کالم نگاروں اور عوام الناس کے جن مطالبات، مشوروں اور بعض سیاسی جماعتوں کی طرف سے بجٹ کے نمونے جو پیش کئے جاتے تھے ان کا زور کم ہوگیا۔ ہوسکتا ہے کہ کسی جانب سے کوئی ایسا بجٹ آجائے مگر اس پر غور کرنے کےلئے وقت کم ہے۔ البتہ وزیر خزانہ نے جنگ کے بلائے ہوئے سیمینار میں حصہ لیا اور وعدہ کیا کہ ان کی ٹیم نے سیمینار کی اہم سفارشات نوٹ کرلی ہیں اور مناسب تجاویز کو بجٹ میں شامل کرلینگے۔ حکومت کی طرف سے ہر بجٹ کو غریب دوست یا غریب پرور کہا جاتا ہے مگر نتیجہ ہمیشہ اس کے برخلاف نکلتا ہے۔
کاروباری افراد حکومت کی جانب سے کسی شے پر ٹیکس لگنےیا اس میں اضافہ کرنے سے پہلے ہی اس کے نرخ بڑھادیتے ہیں۔ گندم کی نئی فصل کی آمد پر آٹے پر دو روپے فی کلو بڑھادیئے گئے۔ شکر کی پیداوار کا سیزن ابھی ختم ہوا ہے کہ یوٹیلیٹی اسٹورز پر چینی66روپے سے68روپے کردی گئی ہے۔ بین الاقوامی مارکیٹ میں پام آئل کی قیمت کم ہوئی مگر ملک میں پام آئل اور بناسپتی گھی کی قیمتیں بڑھ گئی ہیں۔خود حکومت نے کراچی میں دودھ کی قیمت85روپے لیٹر کردی۔ وزیر خزانہ نے مرغی کے گوشت اور چنے کی دال کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافے کا نوٹس لیا۔ انہوں نے وزارت خوراک کو اس سلسلے میں تحقیق کی ہدایت کی۔
دوسری طرف اگر پاناما لیکس پیپرز کا قصہ اسی طرح چلتا رہا اور دونوں فریقین کا جوڈیشل کمیشن کے ٹی اوآرز کا معاملہ طے نہیں ہوا۔ تو بجٹ اجلاس ہفتہ عشرہ بڑھ بھی سکتا ہے۔وفاقی بجٹ کو مختلف ذرائع سے سہارا ملنا ہے۔ اس میں ٹریڈ پالیسی کی خاصی اہمیت ہے ہماری تاریخ کا یہ باب بڑا اندوہناک ہے کہ ایک سال کے سوا جب کوریا کی جنگ ہورہی تھی ہمارا توازن تجارت ہمیشہ خسارے میں رہا اور بعض سالوں میں یہ کافی تشویش ناک رہا۔
اس سال بھی خسارہ غیر متوقع نہیں۔ صنعتی شعبے میں ہماری ٹیکسٹائل کی صنعت سرفہرست ہے مگرسوت اور موٹے کپڑے کی صنعت میں خسارہ اچھا ثابت نہیں ہوگا۔ٹیکسٹائل کے دوسرے شعبوں میں تنوع کا فقدان ہے۔ گزشتہ7/8 سال میں ملک میں کوئی نئی ٹیکسٹائل مل بھی نہیں لگائی گئی۔پرانی ملوں کی اسپننگ اور ویونگ مشینیں پرانی ہوچکی ہیں اور ان کی پیداواری صلاحیت بھی گھٹ گئی ہے۔ جولائی2015سے فروری 2016 تک ٹیکسٹائل کی برآمدات میں9فیصد کمی ہوئی ہے۔ نئی اور پرانی مشینوں کے فرق کو اس مثال سے دیکھئے کہ جب بھٹو صاحب کے دور میں پاکستان اسٹیل ملز قائم ہوئی تو ملک بھر میں خوشیاں منائی جارہی تھیں کہ فولاد صنعت کی بنیاد ہے اب ہمارے ہاں صنعتی ترقی کا دور شروع ہوگا لیکن40سال کے اندر اندر یہ سفید ہاتھی بن گیا اور اربوں کی امداد کرکے اس کو زندہ رکھنا مشکل ہوگیا ہے اب یا تو اس کی نج کاری کی جائے یا فروخت کردیا جائے۔ اب ایک سال کے بجائے تین سالہ ٹریڈ پالیسی بنائی گئی ہے۔2018میں برآمدات کا ہدف35ارب ڈالر رکھا گیا ہے اس وقت ہماری برآمدات 24ارب ڈالر کے قریب ہیں ان میں ہرسال 6ارب ڈالر کا اضافہ ہوا کرے گا۔ ہماری برآمدات روایتی انداز میں گھوم رہی ہیں۔ مثلاً2013-14میں ہماری برآمدات کا حجم 25.110 ارب ڈالر تھا۔ ان میں پانچ اشیا کو اول درجے میں رکھا جاسکتا ہے ۔ یہ تقسیم13-14میں بہ اعتبار مالیت ہے۔ -1سوتی کپڑا ، -2نیٹ ویر -3 چاول، -4سوت اور سوتی دھاگا -5بیڈ ویر، درجہ دوم میں -1پھل اور سبزی ،-2چمڑے کا سامان، -3مچھلی اور اس کی مصنوعات، -4کھیلوں کا سامان، -5خام کپاس، -6اونی قالین، ہر سال ان ہی کی الٹ پھیر ہوتی رہتی ہے۔ باقی اشیا گو ان کی اقسام ڈھائی سو تک پہنچتی ہیں وہ کوئی خاص زرمبادلہ حاصل نہیں کرسکتیں۔ گندم ہماری خاص فصل ہے اور برآمد میں بھی اپنا حصہ ر کھتی ہے لیکن بار دانہ، گودام کا کرایہ، تحفظ، چوہوں سے بچائو پر کافی اخراجات آتے ہیں اور یوں اس کی پیداواری لاگت بڑھ جاتی ہے۔ویسے بھارتی پنجاب کے مقابلے میں اس کی فی ایکڑ پیداوار کم ہے۔ اب شکر بھی برآمدی اشیاء میں شامل ہوگئی ہے۔
ٹریڈ پالیسی کا دوسرا رخ درآمدات ہیں ان کو بے قابو چھوڑ کر فاضل توازن تجارت کبھی بھی حاصل نہیں کرسکتے2013-14میں درآمدات کا حجم45.073 ڈالر تھا اور یوں خسارہ19.963ارب ڈالر رہا۔ درآمدات تین قسم کی اشیاء پر مشتمل ہوتی ہیں ۔اول وہ اشیاء جو ملکی صنعت، معیشت کے لئے ضروری ہیں۔ دوسری وہ غذائی اشیاء جن کی ملک میں کمی ہونے کی وجہ سے باہر سے درآمد کرنا پڑتی ہیں اور تیسرے تعیش اور عام استعمال کی اشیاء ۔مالیت کے لحاظ سے ان کی درجہ بندی یوں کی جاسکتی ہے۔ -1تیل لبریکینٹ، -2مشینری اور ٹرانسپورٹ، -3 کیمیکلز، -4ساختہ سامان، -5غذائی اشیاء اور مویشی، -6مویشی، سبزیاں اور پھل سب سے پہلے ہمیں5اور 6نمبر کی اشیاء کی پیداوار بڑھانا چاہئے۔ جن کی ملک میں قلت ہے جیسے پام آئل، بناسپتی گھی، چائے ، شہد، مکھن، چنے، مسور، مونگ اور ارد کی دالیں۔پیاز، لہسن، ادرک، حلال گوشت، اس کی مصنوعات، مچھلی، جھینگے، کیکڑے ،نمکیات، حلوہ جات اور مٹھائیاں وغیرہ۔ ایک طرف ان کی پیداوار سے روزگار میں اضافہ ہوگا۔ دوسری طرف برآمد بڑھے گی اور درآمد میں تخفیف ہوگی۔ ان کے علاوہ چھوٹے چھوٹے نئے منصوبے بنائے جاسکتےہیں جن کے لئےبڑی سرمایہ کاری کی ضرورت نہیں جیسے کراچی، سندھ اور بلوچستان کے سوا حل پر ناریل کے باغات لگائے جاسکتے ہیںاور ان کی مصنوعات سے زرمبادلہ کمایا جاسکتا ہے۔ صوبہ سندھ کھجور کی صنعت کو منظم کررہا ہے۔ ایک زمانے میں پوٹھار میں زیتون کے پودے لگانے کامنصوبہ تھا۔ پتہ نہیں اس کا کیا حشر ہوا۔ چائے کی کاشت کو فروغ دیا جاسکتا ہے۔
ساتھ ہی ساتھ نئی اور پرانی کاروں پر عارضی پابندی لگائی جائے ، ملک کی آبادی اور گھسی پٹی تنگ سڑکیں اب مزید بوجھ سنبھال نہیں سکتیں، ملکی وسائل کو ترقی دیئے بغیر ہم 2018تک35ارب ڈالر کا ہدف حاصل نہیں کرسکتے۔ تجارت خارجہ میں ری فنڈ کا مسئلہ بھی بڑا ٹیڑھا ہے۔ برآمد کنندگان اس نام سے اربوں روپے ناجائز طور پر حاصل کرکے حکومت کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ اسٹیٹ بنک آف پاکستان کو اس سلسلے میں مناسب اقدامات کرنے کے لئے تیار رہنا چاہئے۔