• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان ایسے صوفیاء اور اولیاء کی دھرتی ہے جن کی سوچ کا محور دھرتی کی تہہ سے پھوٹنے والی اقدار اور ثقافت سے جڑا ہوا ہے۔ ساری پاکستانی زبانیں معرفت کی زبانیں ہیں کیوں کہ ان کا تعلق زمین اور لوکائی سے ہے جو خالق کی طرف سفر کرتی ہیں۔ ان میں تخلیق ہونے والا ادب شاعر کو تصوف کی راہ پر لے جاتا ہے۔ اب کوئی کس حد تک اور کس منزل تک پہنچا اس میں اس کی ریاضت اور تپسیا کے ساتھ ساتھ اس کے ماحول اس کے اساتذہ اور قدرت کی عطا کا عمل دخل ہوتا ہے۔ وارث شاہ کو زبان و ثقافت کا وارث کہا جاتا ہے کیوں کہ وہ حرفوں اور لفظوں کی میناکاری جانتا ہے، نئے نئے لفظ، محاورے اور ترکیبیں تلاش کرتا ہے اور فکر و سخن کی دیوار پر ان سے ایسے ایسے نقش بناتا ہے جو آنکھوں کو بہت بھلے لگتے ہیں اور دلوں کو اپنی جانب مائل کرتے ہیں۔ وارث شاہ کو خدا نے زبان و بیان کی صلاحیتوں کے ساتھ ایسی مصورانہ قوتوں کے ساتھ بھی سرفراز کیا تھا کہ وہ آنکھ کے کیمرے سے دیکھی ہوئی چیزوں کو حرفوں کی مدد سے تصویر میں ڈھالتا تھا یوں منظر کشی کرتا تھا کہ سارا منظر بلکہ سارا ماحول آنکھوں کے سامنے حرکت کرتا محسوس ہوتا تھا۔لفظ سانس لیتے محسوس ہوتے تھے۔ تحریر باتیں کرتی تھی۔
رانجھا تصوف کے راستے پر چلنے والا ایک سالک ہے جو ایک لمبا راستہ طے کر کے اپنے مرشد ہیر کے پاس پہنچتا ہے اور اس کی رضا کی چادر اپنے وجود پر یوں اوڑھ لیتا ہے کہ اس کی ذات کہیں اوجھل ہو جاتی ہے وہ نفی ذات کر کے مرشد کی خوشنودی حاصل کرتا ہے کیونکہ یہ مرشد اس کا محبوب بھی ہے۔ اس داستان میں ہیر روح اور رانجھا قلبوت ہے۔ روح اور جسم کا ایک دوسرے کی طرف یہ سفر مادیت اور روحانیت کا سفر ہے۔ روح سے محبت انسان کی سرشت میں ہے کیونکہ روح حقیقت مطلق کا حصہ ہے مگر بعض اوقات انسان دنیا داری میں اُلجھ کر روح کی طرف سے غافل ہو جاتا ہے اور مکمل طور پر ایک مشینی زندگی بسر کرنے لگتا ہے جس میں اندرون کی طرف کھلنے والا کوئی دروازہ یا کھڑکی نہیں ہوتا۔ ہیر یعنی روح کی کشش رانجھے کو ریاضت کے لمبے راستے پر ڈال دیتی ہے۔ وہ ایک بااثر خاندان کا فرد ہوتے ہوئے بھی مرشد یعنی ہیر کے کہنے پر 12 برس تک بیلے میں جانوروں کی رکھوالی کرتا ہے اور اپنی ذات پر پڑے ہوئے نسل، قوم اور ثروت کے تمام غلاف اتار کر پھینک دیتا ہے پھر وہ اپنے مرشد کے کہنے پر جوگ لیتا ہے۔ جوگ لینا آسان کام نہیں۔ یہ بھی ایک بڑی آزمائش کا رستہ ہے مگر وہ ثابت قدم رہتا ہے۔ تصوف میں مجازی محبت کو حقیقی تک پہنچنے کے لئے سیڑھی تصور کیا جاتا ہے۔ مجاز دو افراد کو ایک وجود بنا کر اوپر کی طرف سفر کی ترغیب دیتا ہے۔ یہی روحانی ترقی ہے جو زمین سے شروع ہو کر آسمان تک پہنچتی ہے۔ ہیر اور رانجھا، دو وجود جو ایک ہو چکے تھے، نے خاکی ابدان کو الوداع کہہ کر ایک نئے سفر کا آغاز کیا کیونکہ زہر صرف مٹی کے وجود پر اثر کرتا ہے، سوچ، فکر اور محبت کو زہر نہیں دیا جا سکتا، وہ زندہ رہتے ہیں۔
اس داستان کو مجازی، حقیقی دونوں محبتوں کے حوالے سے جانچا اور پرکھا جا چکا ہے مگر ابھی بھی اس پر تحقیق کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ وارث شاہ ایک ایسا عالم شخص تھا جو پنجابی کے علاوہ ہندی، سنسکرت، عربی بھی جانتا تھا۔ اسے اسلام کے علاوہ ہندو مت، بدھ مت، سکھ ازم اور برصغیر کے دیگر مذاہب کا بھی گہرا علم تھا۔ کوئی بھی دینی یا اخلاقی بات کرتے ہوئے وہ اسے کسی ایک مذہب کی چار دیواری سے نکال کر آفاقی جزیرے کی طرف لے جاتا ہے جہاں مخلوق اور خالق کے علاوہ کسی کی کوئی پہچان نہیں۔ یہ داستان ایک رومانوی، سیاسی، سماجی، معاشرتی اور مذہبی داستان ہے۔ یہ ایک عہد کی مستند تاریخ ہے۔
ایک ایسی ڈاکومنٹری ہے جہاں پر ہر شے کا اصل چہرہ دکھائی دیتا ہے۔ پورا عہد زندہ جاوید ہمارے سامنے آجاتا ہے۔ کردار اپنے عہد کی زبان سے ہمیں روشناس کراتے ہیں اپنے مسائل کی الجھن کا تذکرہ کرتے ہیں اپنے دکھوں اور سکھوں کا احساس دلاتے ہیں۔ان کے گھر میں رکھی ہوئی تمام چیزیں بھی پردہ اسکرین پر نظر آتی ہیں۔یہ وہ چیزیں ہیں جو اب ہم استعمال نہیں کرتے مگر ہمارا اثاثہ ہیں ہمارا ورثہ ہیں۔ وارث شاہ سے پہلے بھی پنجابی زبان میں بہت ادب تخلیق ہو چکا تھا مگر وارث قدرت سے ایک منفرد ذہن ‘ دل اور قلمدان لے کر آیا تھا۔وہ بہت بڑا کھوجی تھا۔ٹوٹی پھوٹی عمارتوں، پرانی حویلیوں، قلعوں اور جھونپڑیوں میں جا گھستا اور وہاں پر دفن چیزوں کو احتیاط سے باہر نکالتا۔محبت سے ان پر پڑی گرد جھاڑتا۔اپنے جادوئی قلم سے ان کی کہانی تحریر کرتاتو اس کا ذہن ان کو رنگوں کے کینوس میں بدل دیتا۔
داستان ہیر رانجھا ایک عجائب گھر ہے۔آپ دروازہ کھول کر اندر داخل ہو جائیں اور لفظوں حرفوں‘تہذیب و ثقافت کے نوادرات کو اپنی آنکھوں سے دیکھیں ضروری ہے کہ وارث شاہ کو پڑھتے ہوئے آپ ظاہری آنکھوں کے علاوہ وجدان کی آنکھ کو بھی کام کا موقع دیں پھر آپ پر حیرتوں کے در خود بخود کھلتے جائیں گے۔آج وارث شاہ کو دنیا سے گئے ہوئے دو صدیوں سے زائد کا عرصہ بیت گیا ہے مگر وارث شاہ کی تعمیر کردہ زبان و ادب کی بلند عمارت سالوں بے توجہی کے گرد و غبار میں اٹی پڑی ہے۔ پنجابی دنیا کی بڑی زبانوں میں سے ایک ہے جس کے صوفی شاعر نہ صرف الله کے ولی ہیں بلکہ حاجت مندوں کا آسرا ہیں جو خالق اور مخلوق سے ایک جیسی محبت رکھنے والے ہمیشہ امن اور انسانیت کا درس دیتے تھے اسی لئے آج بھی ان کے مزار درِ مراد بنے ہوئے ہیں۔
آج وارث شاہ کے ورثے کو زندہ رکھنے کیلئے عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ نئی نسل کو پنجابی زبان سے واقفیت پنجابی زبان کو مدارس میں رائج کرنے سے ہی ہو سکتی ہے۔ ارباب ِ اختیار سے گزارش ہے کہ وہ تمام پاکستانی زبانوں کو پرائمری سطح سے لازماً نصاب کا حصہ بنائیں۔ صرف اسی صورت ہماری منفرد تہذیب اور ثقافت محفوظ ہو سکتی ہے اور زمین سے ہمارا تعلق بھی زیادہ استوار ہو سکتا ہے اور زمین سے یہ مضبوط رابطہ ہمیں محب وطن پاکستانی بنانے میں اہم کردار ادا کرے گا۔
تازہ ترین