پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے دوران الیکشن ایکٹ 2017ء میں مجوزہ ترامیم میں میڈیا پر سب سے زیادہ زیر بحث الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے استعمال کی تجویز ہے ۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے الیکشن ایکٹ2017ء میں ترامیم پر آئینی بنیادوں پر 45اعتراضات کیے جنہیں حکومت کی جانب سے دور نہیں کیا گیا بلکہ اُن پر اصرار کیا گیا ۔ 7ستمبر 2021ء کو الیکشن کمیشن آف پاکستان نے سینیٹ کی پارلیمانی کمیٹی میں جو تفصیلی رپورٹ جمع کروائی، اُس میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے استعمال پر بھی 37اعتراضات اور تحفظات کا اظہار کیا گیا ۔ 10ستمبر 2021ء کو سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے پارلیمانی اُمور نے ملک میں آئندہ ہونے والے عام انتخابات میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے استعمال اور سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے سے متعلق مجوزہ بل کو مسترد کردیا جس پر وفاقی وزیر ریلوے اور پاکستان تحریک انصاف کے سینئر نائب صدر اعظم سواتی نے سینیٹ اجلاس میں الیکشن کمیشن آف پاکستان پر پیسے لینے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ ایسے اداروں کو آگ لگا دینی چاہیے ۔وفاقی وزیر ریلوے کے ان ریمارکس پر الیکشن کمیشن کے اراکین احتجاجاً واک آؤٹ کر گئے۔ بعدازاں وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد احمد چوہدری نے بھی الیکشن کمیشن آف پاکستان کو اپوزیشن کمیشن کا ہیڈکوارٹر قرار دیا اور کہا کہ چیف الیکشن کمشنر کو مستعفی ہو جانا چاہیے ۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان ایک آئینی وقومی ادارہ ہے جس کے ارکان کا تقرر حکومت اور اپوزیشن کے اتفاق رائے کے بعد کیا جاتا ہے ۔تحریک انصاف کی اعلیٰ قیادت نے اپنے وزراء کے غیر مناسب بیانات کا نوٹس نہیں لیا حالانکہ چیف الیکشن کمشنر اور دوسرے ارکان کا تقرر پی ٹی آئی کے دور حکومت میں ہی ہوا ہے ۔ اس سے قبل اگست 2019ء میں حکومت نے غیر آئینی طریقے سے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے 2 ارکان کی تقرری کی تو اس وقت کے چیف الیکشن کمشنر نے اُن ارکان سے حلف لینے سے انکار کردیا تو حکومت نے صدارتی آرڈیننس جاری کردیا جسے بعد ازاں اسلام آباد ہائی کورٹ نے غیر آئینی قرار دے کر الیکشن کمیشن کے آئینی کردار اور فیصلے کی توثیق کی ۔ اب ایک بار پھر تحریک انصاف کی حکومت نے اکثریت کے بل بوتے پر الیکشن ایکٹ 2017ء میں ترامیم کا فیصلہ کیا ہے اور الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ذریعہ انتخابات 2023ء کروانے کا فیصلہ کیا ہے تو بحث ایک مرتبہ پھر چھڑ گئی ہے کہ آیا ووٹنگ کے اس جدید طریقے کو اختیار کیا جائے یا نہ کیا جائے ؟
فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک (فافن) نے الیکٹرانک ووٹنگ مشین (ای وی ایم) اور آئی ووٹنگ بل میں قانونی خامیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے اپنی رپورٹ میں سیاسی اتفاق رائے کے بغیر الیکشن ایکٹ میں ترامیم کے جائز ہونے پر سوالات اٹھائے ۔ فافن نے کہا ہے کہ جس طرح 2017ء میں مشاورت کے بعد انتخابی اصلاحات میں اتفاق رائے پیدا کیا گیا تھا اسی طرح موجودہ حکومت بھی ای وی ایم پر سیاسی جماعتوں سے مشاورت اور اتفاق رائے پیدا کرنے کی روایت کو برقرار رکھے۔ فافن نے مشورہ دیا کہ حکومت کو سیاسی فیصلہ سازی کی ذمہ داری الیکشن کمیشن پر نہیں ڈالنی چاہئے کیونکہ اس سے انتخابات کی ساکھ مجروح ہوتی ہے۔ پلڈاٹ اور دیگر سیاسی ماہرین و مفکرین نے بھی الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے استعمال سے متعلق الیکشن کمیشن کے مؤقف کی تائید کی ہے ۔ اُن کے مطابق ای وی ایم فول پروف ہے نہ اگلے عام انتخابات کے حوالے سے ایک دم اتنا بڑا فیصلہ مناسب ہے جیسا کہ پچھلے انتخابات میں لیا گیا تھا اوررزلٹ ٹرانسمیشن سسٹم (آر ٹی ایس)جام ہو گیاتھااور الیکشن 2018ء کے نتائج پر سوالیہ نشان لگ گیا تھا۔
پاکستان مسلم لیگ ن ، پاکستان پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی نے الیکٹرانک ووٹنگ مشین کو حکومت کی اندھی دھاندلی کی منصوبہ بندی قرار دے کر الیکشن کمیشن آف پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ آئینی ادارے پرالزام تراشی کرنے والے وزراء کو نا اہل قرار دیا جائے ۔ مو لانا فضل الرحمٰن نے تو حکومت کی جانب سے الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے معاملے پر زبردستی کرنے پر آئندہ عام انتخابات کے بائیکاٹ کا عندیہ بھی دے دیا ہے ۔ جماعت اسلامی کا مؤقف ہے کہ الیکٹرانک ووٹنگ پر بات کی جا سکتی ہے کہ یہ ہو یا نہ ہو ۔ بتدریج ہو یا نہ ہو ۔ بہرحال الیکشن کمیشن اور سیاسی جماعتوں کی باہمی رضامندی کے بعد عام انتخابات منعقد ہو نے چاہئیں۔ ورنہ انتخابی عمل کا آغاز پُر خطر ہو گا ا ور انتخابی نتائج متنازع ہوں گے ۔اسی طرح اگرانتخابات الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ذریعے کروانے کے لئے آرڈیننس اور یک طرفہ قانون سازی کا سہارا لیا گیا تو یہ بھی جمہوریت کی روح کے منافی ہوگا ۔
پی ٹی آئی حکومت تو خود اس بات کی پرچارک رہی ہے کہ قومی اداروں کو متنازع نہ بنایا جائے ۔ اب اگر وزیر اعظم پاکستان اور کابینہ کے معزز ارکان خود قومی اور آئینی اداروں کو متنازع بنائیں گے تو اس سے جمہوریت کی نفی ہو گی ۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ الیکشن کمیشن کو سپریم کورٹ کی طرز پر مالی اور انتظامی خود مختاری دی جائے، اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ مل کر باہمی اعتماد کی فضا پیدا کی جائے اور انتخابی اصلاحات کا ایک جامع پیکیج پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے منظور کروایا جائے تا کہ اگلے انتخابات 2023ء کا پورا انتخابی عمل ہر قسم کی انجینئرنگ، دھونس اور دباؤ سے آزاد ہو اور ایک شفاف اور باوقار پارلیمنٹ وجود میں آئے مگر بدقسمتی سے ڈیڈ لاک پیدا ہو گیا۔اگر حکومت اور اپوزیشن جماعتوں کے درمیان موجود یہ ڈیڈ لاک اسی طرح برقرار رہا تو انتخابات 2023 ء کا بروقت انعقادخطرہ میں پڑ جائے گا، جس کا فائدہ سیاست دان نہیںکوئی اور اٹھائے گا۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)