اس میں کوئی شک نہیں کہ صحرائے تھر فطرت کا حسین شاہ کار ہے۔پیاسی دھرتی پر جب پانی سے بھرے بادل برستے ہیں تو چند ہی روز میں ریت اور خار دار جھاڑیوں سےڈھکے تودے سبزے کی چادر اوڑھ لیتے ہیں، ہر طرف ہریالی نظر آتی ہے۔ ان دنوں ر یگستانی خطے میں عیدکا سماں ہوتا ہے،کسان ، فصلیں کاشت کرتے ہیں، جانور خوشی سے دوڑتے بھاگتے پھرتے ہیں، موروں کا رقص دیکھنے کے قابل ہوتا ہے، جب کہ پرندے فضا میں مسرت و شادمانی سے اڑتے نظر آتے ہیں۔ جس طرح دھرتی رنگ بدلتی ہے اسی طرح اس پر بسنے والے بھی مفلوک الحال انسانوں کی قسمت بدلنے لگتی ہے، معیشت کا پہیہ بھی چل پڑتا ہے۔
محکمہ موسمیات کے پاس شہری علاقوں میں باران رحمت کی پیمائش کے لیے جدید آلات ’’رین گیجز‘‘ موجود ہیں مگر تھر کے باسی اپنے روایتی اوزار ’’ریج‘‘سے زمین کھود کر اندازہ کرلیتے ہیں کہ خطے میں کتنا پانی برسا ہے۔ایک سو ملی میٹر کے قریب بارش ہونے پر وہ ہل چلاکر کاشت کاری شروع کردیتے ہیں۔ پانی کے قحط اور غذائی قلت کی وجہ سے نقل مکانی کرنے والے باسی اپنے اہل خانہ اور مویشیوں کے ساتھ واپس اپنے گھروں کو لوٹتے ہیں ۔چند ہفتے قبل تپتے صحرا میں ابر رحمت برسنے سے ہر سوہریالی چھاگئی، سیاح موسم سے لطف اندوز ہونے کے لیے اس ریگزار میں پہنچنا شروع ہوگئے۔
تھر کے داخلی ر استوں ،ونگو موڑ،نوکوٹ قلعہ،اور عمرکوٹ گیٹ سے جب وہ اس خطے میں داخل ہوتے ہیں تو انہیں لق و دق صحرا کے برعکس ایک نیا تھر نظر آتا ہے۔ کراچی یا ملک کے دیگر شہروں سے پرصعوبت سفر کرتے ہوئے آپ سب سے پہلے مٹھی پہنچیں گے جو ایک خوبصورت شہر ہے۔ گڈھی بھٹ (بلند ریتیلا ) یہ ایک پرفضا مقام اور پکنک پوائنٹ ہے۔ یہاں سے آپ مٹھی شہر اور گرد ونواح کا نظار ہ کرسکتے ہیں۔ دن بھر لاتعداد سیاح یہاں آتے ہیں۔
مٹھی سے اگلی منزل اسلام کوٹ ہے جسے ’’ نیم کے درختوں ‘‘کا شہر کہا جاتا ہے۔ اس سے آگے گوڑی مندر آتا ہے۔ یہ جین دھرم کا قدیم مندر ہے۔ اس کے در ودیوار پر خوبصورت نقش و نگاربنے ہوئے ہیں۔یہاں سےآگے سفر کریں تو ویرواہ آتا ہے ۔ ’’واہ ‘‘مقامی زبان میں نہر کو کہتے ہیں۔ یہاں کسی دور میں ویر واہ نامی نہر بہتی تھی، جو خشک ہوکر ریتیلی زمین میں تبدیل ہوگئی لیکن اس کے نام پر آباد ہونے والا چھوٹا سا شہراب بھی موجود ہے۔ یہاں دیسی طور بنایا جانے والا کھویا اور اس کی اشتہا انگیز خوش بواس علاقے کی پہچان ہے۔
نگرپارکر شہر کی طرف جب چلیں گے تو پہاڑیوں کے دامن میں بھوڈیسر کا قصبہ آتا ہےجہاں سب سے پہلے ’’بھوڈیسر مسجد ‘‘اورتاریخی تالاب پر نظر پڑے گی۔ یہ مسجد پانچ سو سال قبل گجرات کے حاکم محمود بیگڑے نے تعمیر کروائی تھی جو آج بھی اپنی اصل ہیئت میں سیاحوں کی نگاہوں کا مرکز بنی ہوئی ہے۔بھوڈیسر سے آگے نگرپارکر کا خوبصورت شہر اور انگریز دور کا بنا ’’پالن بازار‘‘ یعنی مخصوص طرز کی بنی جھونپڑے نما دکانیں اور گھر اس شہر کی خاص شناخت ہیں ۔
بھوڈیسر سے نکلتے ہی منظر یکسر بدل جاتا ہے، سامنےدیومالائی کارونجھر پہاڑ دل فریب مناظر کو اپنی آغوش میں سموئے ایستادہ نظر آتا ہے۔ اس پہاڑ کے گرد و نواح میں کئی خوب صورت تفریحی مقامات واقع ہیں۔ یہاں پر ہائیکنگ کے لیے’’ تروٹ جو تلھو ‘‘یعنی کارونجھر ٹاپ واقع ہے، ایک گائیڈ یا تجربہ کار ہائیکر کی ہم راہی میں اس کی چڑھائیوں کو عبور کرکے پہا ڑی بلندی کو چھوا جاسکتا ہے۔
دیگر مقامات میں ساڑھدرو پوائنٹ،گومکھ،انچلا سراونیلگوں پانی کی نہریں شامل ہیں ۔اس سےپندرہ کلومیٹر کے فاصلے پر کاسبو کا قصبہ ہے جسے ’’موروں کی وادی ‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ صبح کے وقت یہاں موروں کا رقص دل کش منظر پیش کرتا ہے۔
پارکر شہر کا ّ آخری پوائنٹ ’’چوڑیو مندر ‘‘ہے،جہاں کا سفر بذات خود ایڈونچر کی حیثیت رکھتا ہے ۔ اس علاقے کا لینڈ اسکیپ دیوسائی سےملتا جلتا ہے۔ نگرپارکر سے ریگستانی علاقے میں چلنے والی جیپ کے ذریعے چوڑیو مندرتک دو گھنٹے کا سفر ہے۔ درگا ماتا کا یہ تاریخی مندر’’چوڑی جبل ‘‘کی چوٹی پر واقع ہے۔
چوڑی جبل کےگردونواح میں بے شمار چھوٹے چھوٹےگاؤں ہیں جن کے باسی زمانہ قدیم سے چوڑی سازی کے پیشے سے وابستہ ہیں۔ یہاں تیار کی جانے والی چوڑیاں ننگرپارکر، مٹھی اور شمال میں عمرکوٹ سمیت قریبی شہروں میں لے جاکر فروخت کی جاتی ہیں۔ پہاڑ کی چوٹی پر بنے مندر تک جانے کے لیے زینے بنائے گئے ہیں جن پر چلتے ہوئے وہاں پہنچا جا سکتا ہے ۔چوڑی جبل پاکستان کا آخری قصبہ ہے، جس سے آگے بھارتی بارڈر نظر آتا ہے۔
فطرت کے عظیم میوزیم کی سیرکے لیے ہر سال بیرون ملک سے لاکھوں کی تعداد میں سیاح آتے ہیں، لیکن یہاں محکمہ سیاحت و ثقافت کی عدم توجہی کی وجہ سے بنیادی سہولتوں کا فقدان ہے۔ اگر حکومت کی طرف سے ان علاقوں تک آمدورفت کے لیے ٹرانسپورٹ کی سہولت ، ریزورٹس اور کھانے پینے کے ہوٹل بنادیئے جائیں تو یہ سیاحت کے فروغ کے لیے شمالی علاقوں کی طرح کا بہترین مقام بن سکتا ہے۔