• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میری ڈاک میں ایسے خطوط بھی ہوتے ہیں جن میں لوگ اپنے خواب تحریر کرتے ہیں ۔ میں ان لوگوں کے خواب کی تعبیر انفرادی طور پر دے دیتا ہوں کالم میں شائع نہیں کرتا ۔ پچھلے ہفتے کی ڈاک میں تین ایسے خط شامل تھے جن کو پڑھ کر میں حیرت زدہ ہوگیا ۔ تینوں خطوں کے خواب بجلی کی چوری سے متعلق تھے ۔میں نے ان لوگوں کوکیا تعبیر دی یہی تو ذاتی معاملہ ہے کہ میں اسے شائع نہیں کروانا چاہتا ۔ لیکن ان کے خواب ایسے ہیں کہ میں انہیں اپنے قارئین کی نذر کرنا چاہتا ہوں ۔
پہلے خط کا خواب اس طرح درج ہے ۔ ” میں کیا دیکھتا ہوں میں ایک غار میں ہوں ۔ غار کے دہانے پر ایک بڑا پتھر رکھ دیا گیا ہے غار میں سخت اندھیرا ہے اور بند ہونے کی وجہ سے وہاں سخت گرمی اور گھٹن ہے ۔ میں پتھر کے پاس کھڑا ہوکر کوئی درز تلاش کرتا ہوں کہ تھوڑی سی ہوا آجائے لیکن دہانہ پوری طرح بند ہے ۔ سخت اندھیرے سے گھبرا کر میں رونے لگتا ہوں ۔ اتنے میں مجھے غار میں ایک آواز سنائی دیتی ہے ۔ کوئی کہہ رہا ہے ۔ ” کیوں رو رہے ہو ؟ ۔ “ میں پوچھتا ہوں ۔ تم کون ہو ۔ وہ بتاتا ہے کہ میں بھی یہاں کل آیا ہوں اور اس وقت سے پریشان ہوں ۔ میں پوچھتا ہوں ۔ تم یہاں کیسے آئے ۔ اس نے کہا مجھے نہیں معلوم ۔ لیکن جو مجھے یہاں لایا تھا اس نے کہا تھا کہ اب اس اندھیری غارکی زندگی ہی تمہارا مقدر ہے ۔ میں نے اس سے کہا کہ اس غار میں تھوڑی سے روشنی تو کردو ۔ تو اس نے کہا ۔ تم تو کنڈا لگاتے تھے ۔ یہاں بھی کنڈا لگالو ۔ میں نے اسے بتایا ۔ میرے توہاتھ ہی نہیں ہل رہے ۔ کنڈا کیسے لگاوٴں گا ۔ پھر میں نے اس سے کہا ۔ اچھا تھوڑی سی ہوا تو مل جائے ۔ تو اس نے کہا ہوا کے سب روزن بند ہیں ۔ ان میں کنڈوں کے تالے لگے ہیں ۔ اس کے بعد میں خاموش ہوگیا ۔ غار میں اندھیرا بڑھتا جا رہا تھا ، گرمی میں اضافہ ہورہا تھا اور گھٹن بڑھتی جارہی تھی ۔ خوف اتنا بڑھا کہ میری چیخ نکل گئی اور میری آنکھ کھل گئی ۔ کمرے میں اے سی چل رہا تھا لیکن میرا بدن پسینے میں شرابور تھا ۔ میرے اس خواب کی تعبیر کیا ہے ؟ مجھے بتائیں میں بہت پریشان ہوں ۔
دوسرے خط کا خواب اس طرح بیان کیاگیا ہے ۔ میں ایک بجلی کمپنی کا اعلیٰ افسر ہوں ۔ میں کیا دیکھتا ہوں کہ میں ایک سرنگ میں داخل ہورہا ہوں ۔سرنگ کے دہانے پر ایک گارڈ بیٹھا ہے ۔ اس کے ہاتھ میں کچھ کاغذ ہیں جن کووہ پڑھتے ہوئے مسکرارہا ہے میں سرنگ میں آگے بڑھتا ہوں تو مجھے مشینوں کی گڑگڑاہٹ سنائی دیتی ہے ۔ میں گھبرا کر واپس آتا ہوں تو وہ گارڈ مجھے اشارے سے کہتا ہے کہ واپس غار میں جاوٴ ۔ میں کہتا ہوں ۔ وہاں تو بہت زیادہ شور ہے ۔ گارڈ کہتا ہے ۔ تم کو اس سرنگ میں چلتے رہنا ہے اور جوں جوں تم آگے بڑھتے جاوٴ گے یہ شور بڑھتا جائے گا ۔ میں اس سے کہتا ہوں کہ میرے کانوں کے پردے پھٹ جائیں گے ۔ گارڈ کہتا ہے ۔ وہ پھر بنادیئے جائیں گے ۔ میں کہتا ہوں اس شور سے میرا بدن لرز رہا ہے ۔ یہ ٹوٹ جائے گا ۔ میں اس سے پوچھتا ہوں ۔ ۔ یہ شور کیسا ہے گارڈ کہتا ہے یہ ان مشینوں کاشور ہے جو کنڈے سے چلتی تھیں ۔ ان مشینوں کاشور یہاں لاکر اس میں70گنا اضافہ کیاگیا ہے۔ مشینوں کے اس شور کاتم ہی نے اہتمام کیاتھا ۔ اب یہ تم کو واپس دیا جارہا ہے ۔ میں اس سے کہتا ہوں ۔ یہ سرنگ کب ختم ہوگی ۔ وہ کہتا ہے یہ کبھی ختم نہ ہوگی۔ اس میں تم کو ہمیشہ چلتے رہنا ہے ۔ سرنگ کا دروازہ بند ہوجاتا ہے شور مزید بڑھتا ہے اور میں گھبراجاتا ہوں اور اسی گھبراہٹ میں میری آنکھ کھل جاتی ہے ۔ اس خواب کی تعبیر کیا ہے ؟
بعض اوقات خوابوں کی تعبیر بتاتے ہوئے میں اس شخص کے بارے میں پوچھتا ہوں ۔ کیونکہ ایک ہی خواب کی مختلف شخصیات کے لیے تعبیر مختلف ہی ہوسکتی ہے ۔ تیسرے خط کا خواب پڑھ کر میں نے اس شخصیت کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے بتایا وہ ایک بجلی کمپنی میں ڈائریکٹر ہیں ۔ کمپنی میں اعلیٰ سطح پر جتنے فیصلے ہوتے ہیں ان میں وہ شامل ہوتے ہیں اور پالیسیاں بناتے وقت ان کی رائے کی بڑی اہمیت ہوتی ہے ۔ ان کے دستخط سے بڑے بڑے احکامات جاری ہوتے ہیں اور وہ کمپنی کے منافع میں بھی حصے دار ہوتے ہیں ۔ انہوں نے اپنا خواب اس طرح بیان کیاتھا ۔ ” میں دیکھتا ہوں کہ ایک صحرا میں ہوں وسیع صحرا ۔ چاروں طرف ریت ہی ریت ۔ آسمان پر سورج چمک رہا ہے ۔ میں تھکاوٹ بھی محسوس کررہا ہوں اور مجھے گرمی بھی لگ رہی ہے ۔ میں صحرا میں چلا جارہا ہوں ۔ پھر مجھے پیاس لگنے لگتی ہے اور بھوک کا احساس بھی ہوتا ہے ۔ میں صحرا میں سراب کا مشاہدہ انوکھے انداز میں کرتا ہوں ۔ میں دیکھتا ہوں کہ بسکٹوں کے ہزار ہا پیکٹ صحرا میں بکھرے پڑے ہیں ۔ میری بھوک بڑھ جاتی ہے میں آگے بڑھ کر ایک پیکٹ اٹھانا چاہتا ہوں تو وہ پیکٹ مجھ سے دور ہوجاتا ہے ۔ پھر میں کئی پیکٹوں کو پکڑنے کی جدوجہد کرتا ہوں لیکن تھک کر بیٹھ جاتا ہوں ۔ ریت بہت گرم ہے ۔ تھوڑی دیر بعد اٹھ کرمیں تیزی سے بھاگ کرایک پیکٹ کے پاس پہنچ جاتا ہوں تودیکھتا ہوں کہ وہ بسکٹ کا پیکٹ نہیں بلکہ کرنسی نوٹوں کی گڈی ہے ۔ میں حیران رہ جاتا ہوں ۔ پھر وہ ساری گڈیاں اچھلنے لگتی ہیں اور وہ کہتی ہیں ۔ تم نے یہیں بڑے پیار سے کمایا تھا اب آوٴ ہمیں کھالو … !! آوٴ ہمیں کھالو… !! میں پریشان ہوجاتا ہوں ۔ گرمی کی شدت بڑھتی ہے اور میری پیاس میں اضافہ ہوجاتا ہے ۔ میں کیا دیکھتا ہوں کہ پانی کے چھوٹے چھوٹے بے شمار تھرماس صحرا میں بکھرے پڑے ہیں ۔ میں ایک تھرماس کی طرف بڑھتا ہوں تو دیکھتا ہوں کہ یہ تھرماس بجلی کے میڑوں کی شکل کے ہیں میں آگے بڑھتا ہوں تو تھرماس وہاں سے آگے بڑھ جاتا ہے پھر میں تیزی سے دوسرے ، تیسرے ، چوتھے پر کوشش کرتا ہوں لیکن وہ سب مجھ سے زیادہ تیز نکلتے ہیں ۔ میں ان کو پکڑنے کے لیے دوڑ لگا دیتا ہوں ۔ لیکن وہ سب مجھ سے زیادہ تیز رفتار ثابت ہوتے ہیں ۔ آخر میں تھک کر ہانپنے لگتا ہوں تو مجھے میٹر تھرماسوں کے قہقہے سنائی دیتے ہیں ۔ وہ کہہ رہے ہیں ۔ ” تم ہمیں کبھی پکڑ نہ سکو گے کیونکہ ہماری رفتار تیز ہے ۔ اور ہمیں تیز تم نے ہی بنایا تھا …!! ہاہاہاہا ۔ !!! … ان کے قہقہے اس قدر بڑھتے ہیں کہ میری آنکھ کھل جاتی ہے یہ کیسا خواب ہے ؟ اس کی تعبیر کیا ہوئی ؟ ان خطوں کو پڑھ کر میں حیرت زدہ ہوگیا ۔ مختلف طبقے کے لوگوں کوایک ہی طرح کے خواب کیوں آئے؟ کیا بجلی کی چوری آج ایسا مسئلہ بن گیا ہے کہ وہ ہماری سوچوں سے ہوتا ہوا ہمارے خوابوں تک میں سرایت کرگیا ہے ۔ میں ان خوابوں کے بارے میں سوچتا ہوں تو ذہن میں یہ خیال آتا ہے کہ یہ خواب تو خود اپنی تعبیر ہیں ۔ اللہ ہم سب کوایسے خوابوں سے بچائے۔
تازہ ترین