• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میری رائے یہاں زیادہ تر افراد کی رائے سے مختلف ہے، چناںچہ اس کا غیر مقبول ہونا خارج ازامکان نہیں۔ افغانستان میں پیش آنے والے واقعات اور طالبان کا اقتدار پر قابض ہونا پہلے سے ہی امریکہ کے ساتھ طے شدہ منصوبہ تھا ۔ امریکہ کو شکست کا سامنا تھا، اور امریکیوں میں ہزار خرابیاں سہی لیکن وہ اتنے حقیقت پسند ضرور تھے کہ طالبان کے ساتھ بات چیت کا راستہ کھلا رکھتے ۔ اس تمام کوشش کا بنیادی ہدف سیاسی اسلام کو فروغ پانے سے روکنا تھا۔ میں نے یہ بات آپ کو پہلے بھی بتائی ہے اور دوبارہ بھی بتائوں گاکہ امریکہ کسی حقیقی دشمن کے بغیر نہیں چل سکتا۔ 1991ءمیں سوویت یونین کے انہدام کے بعد وہ دنیا کی واحد سپرپاور بن گیا تھا۔ تنہائی کا بوجھ برداشت نہ کرتے ہوئے ایک دشمن کو ایجاد کرنے کا فیصلہ کرلیا ۔ یہ دشمن مسلمان اور اسلامی دنیا تھی ۔ عثمانی سلطنت کے زوال کے بعد اس کی شروعات برطانیہ نے کی تھی ۔ اُنہوںنے تہیہ کیا تھا کہ وہ آئندہ کبھی سیاسی اسلام کو سر نہیں اٹھانے دیں گے۔

امریکن انٹر پرائز انسٹیٹیوٹ نے ایک ’’اسٹریٹیجک رپورٹ‘‘ لکھی تھی جس میںوہ پالیسیاں طے کی گئی تھیں جو امریکہ کو اکیسویں صدی میں عالمی غلبہ حاصل کرنے کا موقع دیں گی۔ اس رپورٹ کا عنوان، ’’نئی امریکی صدی کا منصوبہ‘‘ ہے ۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ یہ رپورٹ ایسے اقدامات کا احاطہ کرتی ہے کہ جو امریکہ کی بالا تر حیثیت یقینی بنائیں گے ۔ اس کا مطلب اکیسویں صدی میں عالمی سطح پر امریکہ کی کھلی بالا دستی قائم کرنا تھا۔ اس کے لئے فعال جوازدرکار تھا، جو گیارہ ستمبر کے واقعات کی صورت اُنہیں مل گیا۔ کہا جاسکتا ہے کہ گیارہ ستمبر کے تباہ کن حملے بہت جچے تلے اور طے شدہ منصوبے کے تحت کروائے گئے تھے ۔اس طرح امریکہ نے دہشت گردی کی جنگ شروع کرتے ہوئے اپنے تزویراتی مقاصد حاصل کرلئے کمزور اور ڈگمگاتا ہوا افغانستان اُن کے لئے بہترین ٹھکانہ ہوسکتا تھا کیوں کہ اس کی فوج برائے نام تھی ۔ لیکن امریکہ بھول گیا کہ افغانستان اپنی آزادی کا تحفظ کرنے کا تاریخی جذبہ رکھتا ہے۔ جس ملک(افغانستان) میں امریکہ نے اپنا پائوں رکھا ، اسے ایشیا کا دل قرار دیا۔ طالبان کے فروغ اور پھیلائو کو روکا جانا ضروری تھا۔ طالبان گیارہ ستمبر سے پہلے وجود میں آچکے تھے۔

چنانچہ امریکہ اور اس کے ساتھی، جیسا کہ برطانوی انٹیلی جنس، اسرائیل کی موساد اور انڈیا کی رانے پاکستان کو نقصان پہنچانے کے لئے خطرناک تنظیمیں قائم کیں ، جیسا کہ تحریک طالبان پاکستان۔ ان کی کارروائیوں کے نتیجے میں کم و بیش دولاکھ پاکستانی اپنی جانوں سے ہاتھ دھوبیٹھے ، اور بہت بڑی تعداد میں معذور اور زخمی ہوگئے ۔ دہشت گردی کے ان واقعات نے پاکستانی معیشت کو ایک سو پچاس ارب ڈالر کا نقصان پہنچایا۔ افغانستان پر قبضے نے سیاسی اسلام کے فروغ کا خطرہ ٹال دیا ۔ اس کے بعد اب امریکہ کا خیال تھا کہ وہ پاکستان کے چند برسوں میں ٹکڑے ٹکڑے کر دے گا۔

خدا کا شکر ہے کہ چین نے ون بیلٹ ون روڈ اور پاک چین اقتصادی راہ داری (سی پیک) منصوبہ شروع کردیا۔ اس کا مقصد ایشیا میں تجارتی روابط قائم کرنا تھے ۔ یہ منصوبہ چین کی سلک ر وڈ کی جدید شکل تھا۔ پاکستان کا طرہ امتیاز یہ ہے کہ یہ اسلامی دنیا کی واحد ایٹمی طاقت ہے ۔ اسلئے اسرائیلی اور انڈین چاہتے تھے کہ جلد ہی اسے ان ہتھیاروں سے محروم کردیا جائے ۔ صورتحال کا درست اندازہ لگاتے ہوئے 2008ءتک آئی ایس آئی نےیہ عزائم ناکام بنانے کیلئے حکمت عملی بنانا شروع کردی۔ اس وقت چین نے گوارد بندرگاہ اور سی پیک کی تعمیر شروع کردی تھی ۔ اب امریکی، برطانوی اور اسرائیلی انٹیلی جنس ایجنسیوں کا پاکستان کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کا منصوبہ کھٹائی میں پڑ گیا ۔ اس دوران طالبان بھی زور پکڑتے گئے اور سلطنتوں کے قبرستان میں مدفون افراد کی تعداد بڑھنے لگی۔ اب اس میں امریکی اور نیٹو بھی شامل تھے ۔ پاکستان کو بھی سمجھ میں آگیا کہ جنہیں وہ اپنے اتحادی کہا کرتا تھا ، وہ تو دراصل اُس کے جانی دشمن تھے ۔ طالبان کو پاکستان یاکسی اور ملک نے براہ راست مسلح نہیں کیا تھا۔ اُنہوں نے شان دار گوریلا جنگ لڑی ۔ امریکیوں کو محسوس ہونے لگا کہ چیونٹی ہاتھی کی سونڈ میں گھس گئی ہے ۔ اس طرح افغان طالبان کو جنگ میں فتح نصیب ہوئی۔ امریکیوں نے حماقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے بھارت کو کروڑوں ڈالر دئیے تھے تاکہ وہ افغان نیشنل آرمی کو ٹریننگ دے۔ لیکن حالیہ واقعات بتاتے ہیں کہ وہ تمام سرمایہ کاری ضائع ہوگئی ۔ لیکن حالات سے دھوکا مت کھائیے ۔ ابھی سفر ختم نہیں ہوا۔ افغانستان پر دوبارہ قبضہ کرنے یا پاکستان پر چڑھائی کرنے کیلئے امریکہ کوئی اور جواز تلاش کرنے کی کوشش میں ہے ۔ اُس کی افغانستان میں انسانی اور خواتین کے حقوق پر منافقانہ تشویش صرف دوبارہ مداخلت کا ایک بہانہ ہے ۔ یہ تشویش اُس وقت کہاں تھی جب امریکی اور نیٹو فورسز افغان عورتوں اور بچوں کو قتل کرنے میں مصروف تھیں؟ مجھے امید ہے کہ پاکستان اس حماقت کو بھانپ لے گا۔ امریکہ اور اس کے اتحادی ہٹلر کی طرح کے جھوٹے ہتھکنڈوں کے ماہرہوچکے ہیں ۔

ہمارے سامنے اس وقت ایک تاریخی لمحہ ہے ، خاص طور پر اگر اسلامی امارات افغانستان ایک حقیقی معنوں میں اسلامی حکومت بن کر ابھرنے میں کامیاب ہوگئی ۔ اس سے عالمی نظام بدلنا شروع ہوجائے گا۔ پاکستان کو وارننگ مل چکی ہے۔ اور مسٹر عمران خان کو یہ بات ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے ۔ علامہ اقبال نے خبردار کیا تھا کہ مغربی سرمایہ دارانہ نظام کو حقیقی خطرہ اشراکیت، یا خود سے نہیں بلکہ سیاسی اسلام سے ہے ۔ علامہ صاحب درست تھے ۔ وہ لمحہ آچکا۔ اب یہ مسلمانوں اور اُن کی حکومتوں پر منحصر ہے کہ وہ سامنے آنے والے مواقع کو ضائع نہ ہونے دیں ۔

تازہ ترین