• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ دنوں ایک گمنام خط کسی نے مجھے بھیجا خط کے متن میں ہمارے معاشرے کی بھرپور عکاسی کی گئی تھی اس لیے میں اس کو من و عن پیش کر رہا ہوں اسلام علیکم جو کچھ بھی ہورہا ہے اس میں غلط فعل کی طرف اشارہ کیا جائے۔ فاعل کے خلاف بات کی جائے اور مجرمانہ فعل کے نتیجے میں قرار واقعی سزا دلوانے کا انتظام کیا جائے۔ لیکن افسوس ہر فورم پہ مرد و عورت کی جنگ شروع ہوچکی ہے۔ الزامات کی بوچھاڑ ہے۔ ایسا لگ رہا ہے سارےمرد ایک طرف اور ساری خواتین دوسری طرف ہیں۔ یہ بہت ہی غلط ہورہا ہے۔ یہ مرد اور عورتیں اپنی بھڑاس (بلکہ بغض) نکال رہے ہیں۔ لیکن انھیں یہ اندازہ ہی نہیں ہورہا کہ اس طرح دو گروہ میں بٹ کر لڑنے سے نئی نسل پر کیا اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ وہ اس بحث سے کیا نتائج اخذ کر رہے ہیں، ان کی نفسیات پہ کیا اثر پڑ رہا ہے۔ نا تو سارے مرد غلط ہیں اور نا ہی ساری عورتیں بے حیا ۔چند لوگ برے ہیں جو :کسی بھی صورت ہمارے معاشرے کی عکاسی نہیں کرتے" ۔ لہذا اس بحث کو ’’ان مخصوص لوگوں تک ہی محدود‘‘ کیا جائے۔ پوری قوم اور معاشرے کو اس لپیٹ میں نہ لیا جائے۔ سوائے نفرت بڑھانے کے اور کچھ نہیں ہورہا۔ لڑکا ہو یا لڑکی تربیت سب سے پہلے گھر سے ہی حاصل کرتے ہیں، گھر ماں باپ اور بچوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ جب دونوں (ماں باپ) اپنے فرائض احسن طریقے سے انجام نہیں دیں تو بچوں میں بگاڑ آئے گا جس کا اظہار بڑے ہونے پہ ہی کیا جاتاہے۔ لہذا معاشرے میں بگاڑ کے ذمہ دار ماں باپ یعنی مرد و عورت دونوں ہیں۔ اس بات کو تسلیم کریں۔اور اب برائے مہربانی الزام تراشیوں کے ملزمان کو سزا دلوانے کی بات کریں۔ لہٰذا حالات سب جگہ ایک جیسے ہیں صرف قانون کی عملداری اور والدین کی ذمہ داری اصل حل ہے۔ طلاقوں کی بھرمار ہوگی۔ کر لیجئے گا فیصلہ مرد اچھے یا عورتیں۔دیکھیں بھائی، قانون عمل میں ہماری ہی وجہ سے ہی نہیں آرہا۔ ہم سزا کی بات ہی نہیں کرتے ۔ جب تک مجرم گرفتار نہیں ہوتا تب تک شور ہوتا ہے اس کے بعد خاموشی ۔ موٹر وے کا ملزم مجرم بن گیا، فرزانہ کے شوہر کو کیا سزا ملی؟ ننھی زینب کے قاتل کے ساتھ کیا ہوا کیا اسے سرعام پھانسی دی یا خاموشی سے؟ نور مقدم کا قاتل موقع سے پکڑا گیا بہت سارے ثبوت ہیں پھر بھی ابھی جیل میں ہے سزا کب ہوگی؟ اسی طرح کے کئی کیسز ہیں سب کا کیا انجام ہوا۔ کسی نے معلوم کرنے کی کوشش کی؟ مسئلہ یہی ہے کہ ہماری یاداشت خراب اور حوصلہ بہت کمزور ہے۔ ہم وقتی بحث کے لیے تیار رہتے ہیں لیکن ہر حادثے کے انجام تک پہنچانے میں اپنا کردار ادا نہیں کرتے۔ بڑی معذرت کے ساتھ والد صاحب کما کر تھک رہے ہیں تو والدہ گھر کے کام کرکے تھکن سے چور۔ دونوں کے پاس بچوں کو تربیت دینے، معاشرتی اونچ نیچ سمجھانے کا ٹائم نہیں ہے۔ بچے توجہ چاہتے ہیں جو quality products دینے سے پوری نہیں ہوتی انھیں quality time چاہئے۔

minhajur.rab@janggroup.com.pk

تازہ ترین