کراچی (رفیق مانگٹ) وہ آنکھوں آنکھوں میں کرتے ہیں اس طرح باتیں۔۔۔کہ کانوں کان کسی کو خبر نہیں ہوتی ۔۔۔ یہ تو شاعر کا تخیل تھا لیکن اعصابی سائنسدانوں نے دلچسپ انکشاف کیا ہے کہ ایک دوسرے کی آنکھیں آپس میں بات چیت کرتی ہیں ۔
جب آپ کسی سے بات کر رہے ہوتے ہیں آنکھوں کا رابطہ یاٹکڑاؤ عام بات ہے۔
لیکن جب دو افراد بات کررہے ہوتے ہیں توانکے مشترکہ توجہ کے حامل معاملے پر ہی آنکھیں ملتی ہیں اور ان کی آنکھوں کی پتلیاں پھیل جاتی ہیں۔
آنکھوں سے رابطہ اس بات کا اشارہ ہے کہ مشترکہ توجہ زیادہ اہم ہے اوروہ ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگی کی انتہا پر ہیں۔ جب آنکھوں کا رابطہ برقرار رہتا ہے یہ ہم آہنگی پھر کم ہوجاتی ہے۔
محققین کے خیال میں یہ درست ہے کیونکہ آنکھوں میں زیادہ ہم آہنگی گفتگو کوبے معنی بنا سکتی ہے۔موجودہ مطالعے میں یہ معلوم کرنیکی کوشش کی گئی کہ دو افراد کی آمنے سامنے گفتگو کے دوران آنکھوں کے روابط کس طرح مشترکہ توجہ پر اثر انداز ہوسکتے ہیں ۔
ان نتائج سے زوم اور دیگر ویڈیو کانفرنسنگ پلیٹ فارمز کی فرسٹریشن کی وضاحت میں مدد ملتی ہے، جن پر اسکرینوں پر کیمروں اور کھڑکیوں کی پوزیشننگ کی وجہ سے آنکھوں سے حقیقی رابطہ کرنا یا توڑنا تقریباًناممکن ہے۔ آنکھوں کا رابطہ واقعی عمیق اور طاقتور ہے۔
سویڈش مصنفہ اینیکا تھور کہتی ہیں کہ اچھی گفتگویقینی طور پر درست الفاظ کاچناؤ ہے ۔ لیکن گفتگو میں آنکھیں، مسکراہٹیں، الفاظ کے درمیان خاموشی بھی شامل ہے جب گفتگوکے یہ تمام عناصر ملتے ہیں تو ہم آہنگی پیدا ہوتی ہے ۔
ڈارٹ ماؤتھ کالج کے نیورو سائنسدانوں نے اس خیال کو لیا کہ کس طرح دو ذہن حقیقی زندگی میں ملتے ہیں، انہوں نے آنکھوں کے رابطے کے باہمی تعامل اور گفتگو کے دوران دو افراد کے درمیان اعصابی سرگرمی کی ہم آہنگی پر حیران کن نتائج کا انکشاف کیا۔
پروسیڈنگز آف دی نیچرل اکیڈمی آف سائنسز یو ایس اے میں شائع ہونے والے اس مقالے میں، محققین کہتے ہیں کہ بات چیت کرنے والے ساتھی کے ساتھ ہم آہنگ ہونا اچھا ہے ۔آنکھوں سے رابطہ ایک فرد کو اس شخص سے جوڑتا ہے جس کے ساتھ وہ بات کر رہے ہیں۔
اس کی غیر موجودگی سماجی خرابی کی نشاندہی کر سکتی ہے۔ نئی تحقیق میں، آنکھوں کی پتلیوں کے پھیلنے کو ہم آہنگی کی پیمائش کے طور پر استعمال کرتے ہوئے، ماہر نفسیات نے پایا کہ آنکھوں سے رابطہ مشترکہ توجہ کی انتہا ہے۔
ہم آہنگی بات چیت کرنے والے کی آنکھوں میں دیکھنے کے بعد تیزی سے کم ہوتی ہے اور تب ہی ٹھیک ہوتی ہے جب وہ شخص دور ہو۔
میونخ کے میکس پلانک انسٹی ٹیوٹ آف سائیکائٹری کے ماہر نفسیات کا کہنا ہے کہ یہ ایک شاندار مطالعہ ہے وہ کہتے ہیں کہ باہمی ہم آہنگی سماجی روابط کا ایک اہم پہلو ہے لیکن ہمیشہ مطلوبہ نہیں ہوسکتا ہے۔
برکلے کی یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کی سماجی ماہر نفسیات کا کہنا ہے کہ اس طرح کا تصور دوسرے محققین کو بات چیت کے بارے میں مختلف انداز میں سوچنے اور اس کا مزید گہرائی سے مطالعہ کرنے کی ترغیب دے سکتا ہے۔