• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یوں تو پاکستان کو طویل عرصے سے مختلف محاذوں پر چیلنجز کا سامنا رہا ہے تاہم موجودہ حالات میں ایک نئے ناخوشگوار چیلنج نے جنم لیا ہے۔ اس سے اگر بر وقت نمٹنے کے لئے اقدامات نہ کئے گئے تو یہ صورت حال کسی بڑے نقصان کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے۔

یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہمارے سیاسی رہنماؤں نے عوام اور ریاست کے مفادات کو تحفظ دینے کے بجائے ہمیشہ اپنے مفادات کو ترجیح دی جس کی وجہ سے سیاسی نظام کا چہرہ مسخ ہو کر رہ گیا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ خود تو اقتدار میں آ کر ترقی کرتے رہے جبکہ ریاستی عملداری اور مطابقت دونوں کمزور ہو گئیں۔ اپنے مقاصد کی تکمیل کے لئے انہوں نے اداروں میں کرپٹ عہدیداروں کو تعینات کیا اور ان کو بھرپور تحفظ فراہم کیا۔ نیب، الیکشن کمیشن آف پاکستان اور ایف بی آر جیسے اداروں میں ایسے لوگوں کو تعینات کیا گیا جو خود قابلِ احتساب تھے۔ اُس کی ایک مثال حکومت اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کے درمیان شروع ہونے والا تنازعہ ہے۔

پاکستان میں عام انتخابات کی تاریخ ہمیشہ مشکوک رہی ہے۔ ملک میں ہونے والے ہر انتخاب کو شکست کھانے والے فریق نے متنازعہ بنایا۔ جب سے موجودہ حکومت اقتدار میں آئی ہے وہ الیکشن کا ایک ایسا نظام وضع کرنے کے لئے سنجیدگی سے کوشاں رہی ہے، جس کا بنیادی مقصد الیکشن کے نظام کو ماضی کے شکوک و شبہات سے مکمل طور پر پاک کرنا ہے۔ صاف وشفاف الیکشن کا مطالبہ ان تمام سیاسی جماعتوں کا بھی رہا ہے جو آج اپوزیشن میں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ موجودہ حکومت پہلے دن سے اپوزیشن جماعتوں پر زور دے رہی ہے کہ وہ انتخابات کے عمل کو صاف و شفاف بنانے کے لئے انتخابی اصلاحات کے لئے اپنی تجاویز پیش کریں۔ اس مقصد کے لئے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال حکومتی تجاویز میں بنیادی اہمیت کاحامل رہا ہے۔ ایسی ٹیکنالوجی دنیا کے کئی دیگر ممالک میں کامیابی کے ساتھ استعمال کی جا رہی ہے۔

انتخابی اصلاحات نہ صرف موجودہ حکومت کی اولین ترجیح ہے بلکہ یہ الیکشن کمیشن کے اسٹرٹیجک پلان 2019-23کا بھی بنیادی جزو ہے۔ اس تناظر میں نئی الیکٹورل ٹیکنالوجی کے ذریعے ووٹروں کی زیادہ سے زیادہ شرکت یقینی بنانا، عوام میں آگہی پیدا کرنا، ووٹر کی اصل شناخت اور انتخابی عمل پر عوام کا اعتماد بڑھانے سمیت کئی دیگر اقدامات کو بھی الیکشن کمیشن کے تیسرے اسٹرٹیجک پلان کا حصہ بنایا گیا ہے جو ’’انفارمیشن کمیونیکیشن اینڈ الیکٹورل ٹیکنالوجیز‘‘ کے زمرے میں آتے ہیں، جن میں انتخابات میں جدید ٹیکنالوجی کو پائلٹ کے طور پر استعمال کرنے کے علاوہ الیکٹرونک ووٹنگ مشین (ای وی ایم)، بائیو میٹرک ووٹنگ مشین (بی وی ایم) اور بیرون ملک مقیم شہریوں کو ووٹنگ کا حق دینے کا طریقہ کار شامل ہیں جس کے لئے آپریشنل اور قانونی غور کے لئے فزیبلٹی اسٹڈیز تیار کرنا بھی شامل ہیں جن کا الیکشن کمیشن کے اسٹرٹیجک پلان میں ذکر موجود ہے۔

اس تناظر کا تقابلی جائزہ لینے کے لئے دسمبر 2021تک ’’فزیبلٹی رپورٹس کا مکمل ہونا‘‘ اور ’’نئی ٹیکنالوجی کا جائزہ اور ستمبر 2022تک فزیبلٹی رپورٹس کا مکمل ہونا‘‘ ای سی پی کے پلان میں درج ہے۔ ٹیکنالوجیز اور میکانزم کے استعمال کے لئے دیا گیا وقت اس لئے بھی اہم ہے تاکہ ملک میں آئندہ ہونیوالے عام انتخابات کے انعقاد میں مشکلات درپیش نہ ہوں۔ اس حوالے سے بیرون ملک پاکستانیوں کو ووٹ دینے کے حق جسے آئین کے آرٹیکل 17کے تحت یقینی بنایا گیا ہے، بھی قابلِ ذکر ہیں۔ اس حوالے سے چودھری ناصر اقبال وغیرہ بالمقابل فیڈریشن آف پاکستان کی اپیل پر عدالتِ عظمیٰ کا فیصلہ بھی موجود ہے جس کے تحت بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کو ووٹ دینے کے حق کو یقینی بنانے کی تلقین کی گئی ہےاورالیکشن کمیشن کو الیکشن ایکٹ 2017کے تحت تمام اقدامات کرنے کے لئے کہا گیا ہے۔ جس کے آرٹیکل 94میں واضح کیا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان آئندہ عام انتخابات سے قبل بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے لئے ووٹ کے استعمال کو یقینی بنانے کیلئے پائلٹ پروجیکٹس کا انعقادکرے گا۔

سپریم کورٹ نے اپنے تفصیلی فیصلے میں یہ بھی تحریر کیا ہے کہ الیکشن کمیشن اور نادرا نے اس نظام کے بارے میں عدالت کو آگاہ کیا تھا جس میں تھرڈ پارٹی کے نمائندوں کی مثبت آرا بھی شامل تھیں۔ عدالتِ عظمیٰ ان نمائندوں کی طرف سے دی گئی بریفنگ کے تناظر میں آئی ووٹنگ کے طریقہ کار کو پائلٹ پروجیکٹ میں استعمال ہونے کے لئے محفوظ، قابلِ اعتماد اور موثر قرار دے چکی ہے۔ سپریم کورٹ نے امید ظاہر کی تھی کہ الیکشن رولز 2017میں نئے قواعد شامل کئے جائیں گے تاکہ بیرون ملک مقیم پاکستانی آئندہ ضمنی انتخابات اور عام انتخابات میں اپنے ووٹ کا حق استعمال کرسکیں۔اپنے اسٹرٹیجک پلان 2019-23میں انتخابی عمل کو جدید خطوط پر استوار کرنے اور عدالتِ عظمیٰ کی جانب سے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کے لئے آئی ووٹنگ کے لئے طریقہ کار وضع کرنے کی ہدایت کے باوجود الیکشن کمیشن اس پر عملدرآمد کرنے میں غفلت کا مرتکب پایا گیا ہے۔ اس طرزِ عمل سے ظاہر ہوتا ہے کہ الیکشن کمیشن نے نہ صرف اپنے ہی اسٹرٹیجک پلان کی خلاف ورزی کی بلکہ وہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے سے متعلق عدالتی فیصلے پر عملدرآمد نہ کرکے توہینِ عدالت کا مرتکب بھی ہوا ہے۔

وزیراعظم عمران خان انتخابی اصلاحات کے ذریعے ووٹ ٹمپرنگ کے امکان کو مکمل طور پر ختم کرنے کے ہمیشہ سے خواہاں رہے ہیں۔ چنانچہ حکومت نے الیکشن کمیشن پر زور دیا کہ وہ اس حوالے سے مناسب اقدامات کرے اور آئندہ الیکشن میں الیکٹرونک ووٹنگ مشین کا استعمال یقینی بنائے لیکن اس پر سنجیدگی کا مظاہرہ کرنے کے بجائے الیکشن کمیشن نے اس پر 37غیرسنجیدہ اعتراضات اٹھا دیے۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے استعمال سے انکار کرنا دراصل انتخابی عمل کو شفاف اور موثر بنانے کیلئے ٹیکنالوجی متعارف کرانے کی ضرورت سے انکار کے مترادف ہے اور یہ طریقہ کار پرانے اور بوسیدہ ووٹنگ نظام کو برقرار رکھنے کا جواز بھی ہے جو 1970 سے آج تک ملک میں ہونے والے ہر انتخاب میں تنازعات کا باعث رہا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس تنازعہ کو مزید طول دینے کے بجائے اسے مستقل طور پر ختم کرکے اصل مقاصد پر توجہ دی جائے۔

(صاحبِ تحریر وزیراعظم کے معاونِ خصوصی برائے اطلاعات، سیاسی اور دفاعی تجزیہ کار اور ادارۂ علاقائی امن کے بانی ہیں)

تازہ ترین