• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس وقت پاکستان میں دو سو جامعات، اعلیٰ تعلیمی ادارے اور ان سے الحاق شدہ بہت سے کالج کام کررہے ہیں۔ ان دو سو میں سے بمشکل ہی کوئی ایک یا دو درجن جامعات عالمی درجہ بندیوں میں کہیں دکھائی دیتی ہیں، جیسا کہ یو ایس نیوز، ٹائمز ہائر ایجوکیشن اور کیو ایس ورلڈ یونیورسٹی رینکنگ۔ ان میں سے چند ایک ہی تواتر سے ان درجہ بندیوں میں دکھائی دیتی ہیں۔ یہ تمام درجہ بندیاں مختلف شماریاتی پیمانوں میں ڈھل کر یک ہندسی شناخت حاصل کرتی ہیں۔

گزشتہ چند ایک برسوں سے ہمیں گاہے گاہے کئی ایک شماریاتی پیمانوں کا بتایا گیا کہ کس طرح ہماری جامعات ان کے مطابق کام کررہی ہیں، جیسا کہ کتنے پیپرز شائع ہوئے، کتنی گرانٹس وصول کیں، وغیرہ۔ بدقسمتی سے ان میں سے زیادہ تر شماریات کا طلبہ اور ان کے خاندانوں سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ ان اعلیٰ تعلیمی اداروں کا معیار مختلف درجوں کا ہوتا ہے۔ چوٹی کی جامعات کے طلبہ کی ایک خاطر خواہ تعداد کو آئیوی لیگ اسکول اور جامعات قبول کر لیتی ہیں یا گریجویشن کے بعد جاب مارکیٹ میں ان کی مانگ بہت زیادہ ہوتی ہے۔ اس منظرنامے کے دوسری جانب انتہائی پست معیار ہے۔ مہارت اور قابلیت پیدا کیے یا ان کی جانچ کیے بغیر طلبہ کو مشینی انداز میں ڈگریاں فراہم کردی جاتی ہیں۔ ان سند یافتگان کو مقامی ادارے بھی ملازمت نہیں دیتے ۔ مختلف اعلیٰ تعلیمی اداروں کے فارغ التحصیل طلبہ کے حصولِ ملازمت کے مواقع اور آمدنی کے امکانات میں بہت فرق ہوتا ہے۔

ضروری نہیں کہ مہنگی تعلیم ہی اچھا کیرئیر یا بہتر آمدنی کے امکانات یقینی بنائے۔ اگرچہ پاکستان کی مہنگی اور مشہور جامعات نجی شعبے میں چل رہی ہیں لیکن سرکاری شعبے میں چلنے والی کئی ایک جامعات، جیسا کہ نسٹ، یو ای ٹی لاہور، یو ای ٹی ٹیکسلا، آئی بی اے کراچی اور بہت سے میڈیکل کالج، مہنگے نجی شعبے سے کہیں بہتر کارکردگی دکھا رہے ہیں۔ حتیٰ کہ کچھ نجی جامعات بھی منافع کمانے کے لئے نہیں چلائی جا رہیں لیکن بہت سی منافع کے لئے ہی ہیں۔ یہ منافع طلبہ کی فیس کے ذریعے حاصل کیا جاتا ہے۔

اِن جامعات میں انڈر گریجویٹ طلبہ کے چار یا پانچ سالہ تعلیم کے اخراجات بھی مختلف ہیں ۔ پنجاب یونیورسٹی (2021)کے پانچ سالہ اخراجات 120,000اور یو ای ٹی (2021) کے 400,000سے لیکر آغا خان یونیورسٹی (2021) کے 14,500,000روپے تک ہیں۔ زیادہ تر جامعات کے تعلیمی اخراجات ان کے درمیان کہیں ہوتے ہیں۔ کچھ کی فیس کا جواز پیش کیا جا سکتا ہے، دیگر کا نہیں۔ پاکستانی مہنگی جامعات کی فیس امریکی جامعات کے مساوی ہے لیکن پاکستان کا جی ڈی پی امریکہ سے 50گنا کم ہے۔ اگر امریکیوں کے لئے یہ اخراجات برداشت کرنا آسان نہیں تو پاکستان میں تو یہ کسی بحران سے کم نہیں۔

یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے پر صرف ہونے والے وقت کی قیمت (جو عموماً چار سال ہوتا ہے) ایک طرف رکھیں تو بھی اس کی مالی قیمت اتنی زیادہ ہے کہ خاندانوں کو مقروض کردیتی ہے۔ اور اگر وہ تعلیم طلبہ کو اتنی مہارت نہ سکھا پائے کہ وہ نفع بخش ملازمت حاصل کرلیں تو پوسٹ گریجویشن کے دوران اور اس کے بعد بےروزگاری اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی پریشانی مسائل دوچند کردیتی ہے۔ طلبہ اور اُن کے اہلِ خانہ کے سامنے دستیاب امکانات کیا ہوتے ہیں جب وہ کسی تعلیمی پروگرام کو منتخب کرنے اور اس پر سرمایہ کاری کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں؟ یہ فیصلہ کرنے میں چند اشاریے مدد گار ثابت ہو سکتے ہیں، جن میں گریجویٹ ہونے والے طلبہ کا تناسب، فارغ اتحصیل ہونے کے چھ ماہ بعد ملازمت حاصل ہونے کی شرح، پہلی اوسط تنخواہ، دو سال بعد اوسط تنخواہ وغیرہ شامل ہیں۔ اکثر غیرملکی جامعات ایسے اشاریے فراہم کرتی ہیں اور طلبہ کی اکثریت کے لئے بھی ایسی معلومات اہم ہیں مگر ہمارے ہاں چند ایک چیدہ یونیورسٹیوں کے علاوہ باقی ادارے وڈیوز اور پمفلٹس کے ذریعے صرف بلند بانگ دعوے کرتے نظر آتے ہیں جو مستند اعداد و شمار کے بغیر ہوتے ہیں۔

یہ معلومات ان خاندانوں کے لئے نہایت اہم ہیں جو اپنے حالات اور وسائل کو مدِنظر رکھتے ہوئے یہ اندازہ لگانا چاہتے ہیں کہ کیا تعلیم پر صرف کی گئی رقم اور اگر ضروری ہو تو اس کے لئے حاصل کئے گئے قرض کی تلافی تعلیم کے بعد ملازمت کی تنخواہ سے ہو پائے گی؟ مگر چونکہ ایسے اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں، چنانچہ ایسے لوگوں کو اپنے جاننے والوں اور رشتہ داروں سے حاصل کردہ معلومات پر، جن کا درست ہونا یقینی نہیں، بھروسہ کرنا پڑتا ہے۔ اس سے بھی بری صورتحال یہ ہو سکتی ہے کہ اداروں کے غیرحقیقی دعوئوں پر اعتبار کرتے ہوئے مستقبل کے لئے مزید مشکلات کا راستہ کھول لیا جائے۔ منافع کے لئے بنائی گئی یونیورسٹیوں کے مفاد میں ہوتا ہے کہ وہ اپنے طلبہ کے نتائج اور اُن کی کامیابیوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کریں۔ اس کا نتیجہ عموماً یہ نکلتا ہے کہ طلبہ اچھی ملازمت اور تنخواہ کی امید میں بھاری فیسیں ادا کرتے ہیں، مگر ملازمت حاصل کرنے کی کوشش کے دوران انہیں بتایا جاتا ہے کہ ان کے پاس ملازمت کے لئے ضروری قابلیت نہیں ہے۔ (جاری ہے)

تازہ ترین