اس وقت حکومت کی طرف سے یونیورسٹیوں کے لئے ایسی بنیادی معلومات کو مرتب کرنے کی کوئی شرط عائد نہیں، حالانکہ یہ کوئی ایسا مشکل کام بھی نہیں۔ مثال کے طور پر لاہور کی ایک منافع کے لئے بنائی گئی یونیورسٹی اپنے فارغ التحصیل طلبہ کو ہر سال ان کی سالگرہ پر فون کال کرتی ہے، جن میں 15سال پرانے طلبہ بھی شامل ہیں۔ ایسا رابطہ برقرار رکھنا ایک قابلِ تحسین بات ہے، اور اگر پندرہ سال پرانے طلبہ سے رابطہ رکھا جا سکتا ہے تو حالیہ طلبہ سے ایک دو سال تک ان کی آمدن کے بارے میں بھی آگاہی رکھی جا سکتی ہے۔ ہمارے ہاں یونیورسٹیوں کے اعداد و شمار اکثر تحقیقی کامیابیوں کے بارے میں ہوتے ہیں یعنی شائع شدہ سائنسی مقالے، نئی اختراعات پر جاری کردہ پیٹنٹ اور تحقیق پر صرف شدہ رقم وغیرہ۔ یہ اعداد و شمار دیگر مقاصد کے لئے مفید ہوں گے مگر طلبہ اور والدین ان سے کوئی خاطر خواہ نتیجہ اخذ نہیں کر سکتے۔ معلومات کی عدم فراہمی کے باعث بہت سے طلبہ تعلیمی اداروں سے ایسی توقعات وابستہ کر لیتے ہیں جو حقیقت سے کوسوں دور ہوتی ہیں۔یہ دنیا کے لئے کوئی نیا مسئلہ نہیں ہے جس کا حل نہ ہو۔ چند سال پہلے امریکی جامعات کے لئے Common Data Set پروگرام شروع کیا گیا جس میں یونیورسٹیاں اپنے طور پرہر سال اپنی شماریات کا کتابچہ جاری کرتی تھیں، مگر ان لگ بھگ 45صفحوں پر مشتمل کتابچے کا دوسری جامعات سے موازنہ کرنا مشکل تھا۔ 2015میں صدر اوبامہ کی حکومت میں محکمہ تعلیم نے اگلا قدم اٹھاتے ہوئے ’’کالج اسکور کارڈ‘‘ (https://collegescorecard.ed.gov/) کے نام سے ایک ویب سائٹ جاری کی، جہاں طلبہ کو مطلوب زیادہ تر معلومات ایک جگہ جمع کی گئی ہیں۔ یہاں مطلوبہ معلومات تلاش کرنا، مخصوص اشاریات کا جائزہ لینا اور دوسری جامعا ت سے موازنہ کرنا نہایت آسان ہے۔ جمع کی گئی معلومات میں ادارے کی قسم (سرکاری، منافع کے لئے نجی یا بغیر منافع نجی)، جگہ(شہر، قصبہ، دیہات)، نصب العین اور مذہبی الحاق، گریجویشن کی شرح، سالانہ تعلیمی اخراجات،داخلے کی شرح، داخلہ ٹیسٹ کے مطلوبہ نمبر، گریجویشن کے دو سال بعد آمدن اور طلبہ کو دی جانے والی اسکالرشپ اور امداد کی تفصیلات شامل ہیں۔ داخلے کا فیصلہ کرنے کے لئے تمام قابلِ ذکر باتیں یہاں جمع کی گئی ہیں۔
پاکستان میں بھی اعلیٰ تعلیم کے مواقع بہتر بنانے کے لئے ایسی ایک کوشش مفیدثابت ہو سکتی ہے۔ پاکستانی جامعات کے لئے بھی ایک کالج اسکورکارڈ جیسی ویب سائٹ بنائی جاسکتی ہے۔ عوام کوشفافیت کے ساتھ درست معلومات کی فراہمی تاکہ وہ صحیح فیصلے کر سکیں، حکومت کی بھی خواہش رہی ہے۔ ماضی میں جب ہائر ایجوکیشن کمیشن نے یونیورسٹیوں کے درجوں کی فہرست مرتب کرنے کے لئے ان سے اعداد و شمار طلب کئے تو بہت سی چھوٹی، منافع کے لئے قائم نجی جامعات نے اس کی مخالفت کرتے ہوئے تعاون سے انکار کر دیا۔ہائر ایجوکیشن کمیشن کے ساتھ تعاون برقرار رکھنے کے لئے بروقت سالانہ رپورٹ جمع کروانے کو ایک لازمی شرط رکھا جا سکتا ہے جو یونیورسٹیاں اس کے باوجود تعاون نہ کریں، ان کے نام ویب سائٹ پر شائع کر دیے جائیں تاکہ طلبہ ان سے ہوشیار ہو جائیں۔ پہلے مرحلے میں یونیورسٹیوں کی جانب سے فراہم کردہ اعداد و شمار پر انحصار کیا جاسکتا ہے اور بعد ازاں ایچ ای سی انہیں اپنی اور دیگر اداروں کی شماریات اور مارکیٹ میں نوکریوں کی صورتحال کی کسوٹی پر پرکھ سکتا ہے اور خو ش قسمتی سے ایچ ای سی کے پاس ہائر ایجوکیشن ڈیٹا ریسپوریٹری اور ہائر ایجوکیشن مینجمنٹ انفارمیشن سسٹم کی صورت میں ایسے نظام کا بنیادی ڈھانچہ موجود ہے۔ یہ وہ کم قیمت اور موثر حل ہو سکتا ہے جسے حکومتیں تلاش کرتی رہی ہیں جس کے ذریعے شفافیت کو رواج دیتے ہوئے اعلیٰ تعلیمی نظام میں جوابدہی اور اخراجات کی کمی کو یقینی بنایا جا سکے گا۔
اگر کوئی طالب علم اس کے باوجود اپنا انتخاب غیر نصابی سرگرمیوں اور دیگر امورکی بنیاد پر کرنا چاہے، تو وہ یقینا ًایسا کر سکتاہے۔ مگر میرے خیال میں اکثریت تعلیمی فیصلے کرتے وقت اخراجات اور آمدن کو مدِ نظر رکھنا چاہے گی۔ اور یہ سلسلہ اگرباقاعدگی سے چلتا رہے تو جامعات ایک دوسرے سے مقابلے کی فضا میں اپنے تعلیمی معیار کو بڑھائیں گی اور ملک میں اعلیٰ تعلیم کے راستے مزید ہموار ہوں گے۔
اختتامیہ:پچھلے چند دن سے میرے خلاف ایک بے بنیاد پروپیگنڈا مہم چلائی جا رہی ہے۔ میں اس جگہ پر ان الزامات کی وضاحت کرنا چاہوں گی جو مجھ پر ایک ویڈیو کلپ ، جوسیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کی جا رہی ہے، کی بنیاد پر لگائے گئے ہیں۔ میں ایک تعلیمی محقق ہوں اور تعلیم سے متعلق معاملات پر اپنی رائے کا اظہار کرتی ہوں۔ میں اسلام کے عقائد اور ختمِ نبوت پر پختہ ایمان رکھتی ہوں۔ میرے بیانات کو جان بوجھ کر میرے خلاف توڑ مروڑ کر پیش کیا جا رہا ہے۔