نئی صدی کا آغاز اس طرح ہوا تھا کہ پاکستانیوں پر آمریت مسلط تھی اور امریکہ وحشت ناک سانپ کی طرح پھنکار رہا تھا۔ اس کے غیظ و غضب سے بچنے کا بہانہ بنا کر آمر صدر نے ہمیں ایک ایسی جنگ میں دھکیل دیا جس کا دوسرا سرا آج بھی ہمارے ہاتھ نہیں آ سکا۔ اس وقت بھی جب بڑے بڑے جُبہ و دستار کے حامل اور بہت بڑے سیاسی پھنے خان سجدہ ریز تھے، قائدِ ملتِ اسلامیہ امام الشاہ احمد نورانیؒ نے حکومت سے علانیہ اختلاف کیا اور صاف کہا کہ اگر ہم ڈٹ جائیں تو ہمارا اتنا نقصان نہیں ہوگا جتنا امریکہ کی کاسہ لیسی سے ہوگا لیکن اغیار سے تھر تھر کانپتے اور اپنوں کو مکے دکھانے والے آمر نے کہاں ماننا تھا۔
دو دہائیوں کے بعد پاکستان میں ایک بار پھر یہ باز گشت سنائی دے رہی ہے کہ یہاں ایک نئے عالمی بلاک کی تشکیل ہونے جا رہی ہے۔ افغانستان سے امریکی پسپائی کے بعد یہ پورا خطہ ایک نیا بلاک بننے جا رہا ہے۔ تجزیہ نگار اپنے تجربوں سے یہ ثابت کر رہے ہیں کہ نئے مقامی بلاک میں چین، روس، ایران اور افغانستان بھی شامل ہوں گے۔ باہمی اختلاف کے باوجود وسیع تر منظرنامے میں چین کی سرپرستی کی وجہ سے یہ ایک پاکستان دوست بلاک ہو گا۔ مشرقِ وسطیٰ میں کتنے ہی مسائل ہوں لیکن سعودیہ اور متحدہ عرب امارات ہمارے مخالف ملک تو ہو ہی نہیں سکتے۔ قطر اور ترکی فطری طور پر چین کے اتحادی ہوں گے۔ افغانستان میں طالبان آنے کے بعد کابل میں اسلام آباد دوست حکومت قائم ہونے جا رہی ہے۔ بھارت کی چڑچڑاہٹ اس کے میڈیا سے صاف نظر آ رہی ہے۔ یوں ایک دلکش کُن ترین منظر نامہ نظر آ رہا ہے۔
اگرچہ سفارتی محاذ پر معاملات اِس قدر سادہ نہیں ہوتے لیکن وقتی طور پر اس سارے حسین منظر کو سامنے رکھ کر بات کرتے ہیں۔ کیا ہم اس صورتحال سے فائدہ اٹھا سکیں گے؟ میرا جواب ہے نہیں ہرگز نہیں۔ اس کی وجہ ہمیں تاریخ سے ملتی ہے۔قیامِ پاکستان کے کچھ عرصہ بعد جب دنیا بلاکس میں منقسم تھی تو روس اور امریکہ نے بیک وقت ہمیں دعوت دی لیکن ہم نے بہت سوچ بچار کے بعد پڑوسی روس کی بجائے امریکہ جانے کو ترجیح دی کہ اشتراکی روس نے ہمارے مالی معاملات سدھارنے میں کہاں مدد کرنا تھی، ہم نے نقد مدد فراہم کرنے والے ملک امریکہ جانے کو ترجیح دی۔ سرمایہ داریت کے مرکز سے دوستی کرنے کے باوجود ہمارے حالات نہ سدھرے اور غربت نے یہاں ڈیرے ڈالے رکھے۔
پھر دنیا میں دائیں اور بائیں بازو کی خلیج مزید گہری ہوئی تو ہم ہاتھیوں کی لڑائی میں شمشیر بکف مجاہد بن کر کھڑے ہوئے، 1954میں ہم سیٹو اور اس کے بعد سینٹو کے رکن بھی بن گئے۔ دنیا میں دو دھڑوں کی اِس لڑائی میں اس طرح بےدھڑک کودنے کے حوالے سے بڑی بڑی ریاستیں سو بار سوچا کرتی ہیں لیکن ہم کون سا بزدل تھے سو کود گئے اور اشتراکیت مخالف بلاک میں سینہ ٹھونک کے کھڑے تھے۔ آج بھی پاکستان میں وہ نسل موجود ہے جو ہمیں کراچی کی سڑکوں پر عالمی قوتوں کے سربراہان کے استقبال کی رودادیں سناتی ہے۔ ہمیں یہی بتایا گیا تھا کہ اس بلاک میں شمولیت سے صدیوں سے موجود غربت کا عفریت مٹ جائے گا۔ ہر طرف سونا برسے گا لیکن حالات اس کے برعکس ہوئے۔ اس سب کارروائی کا انجام اتنا بھیانک ہوا کہ بنگال میں بھوک اور احساسِ کمتری نے بغاوت کے حالات پیدا کر دیے، ہمارے حکمران پر اعتماد تھے کہ جن کی محبت میں ہم نے اتنا بڑا جوا کھیلا ، وہ سب بغاوتوں سے نمٹ لیں گے۔ میرے والد امام الشاہ احمد نورانیؒ نے تب بھی فرمایا تھا کہ امریکی سہارے پر اعتماد کرنے کے بجائے بنگالیوں کے سر پر ہاتھ رکھیں ملک بچ جائے گا بلکہ آپ خود جا کر شیخ مجیب سے ملے اور اسے متحدہ پاکستان پر آمادہ تک کر لیا لیکن حکمرانوں کو امریکی بیڑے پر اعتماد تھا۔ ہم امریکی بلاک کے اہم ممبر ہوتے ہوئے بھی جنگ ہار گئے اور ہمارا ایک بازو ہم سے الگ ہو گیا۔
ستر کی دہائی میں ہمیں پھر نوید سنائی گئی کہ اب ہمارے دن پھرنے والے ہیں ہم نے اشتراکی روس کو افغانستان میں پھنسا لیا ہے۔ امریکہ اور عرب ریاستیں ہمیں مالامال کر دیں گی۔ ہم نے اس جہاد سے بھی بہت امیدیں لگائیں لیکن جب آخری روسی فوجی دریائے آمو کے پار اتر رہا تھا تو میرے ملک میں کلاشنکوف کلچر اور ہیروئین کے دور کی آمد ہو رہی تھی۔ پھر یاد کیجئے ہمیں پرویز مشرف نے بھی نوید سنائی تھی کہ اب بس دن بدلنے کو ہیں ہم نے امریکی جنگ میں حصہ دار بن کر ایک نئی بنیاد رکھ دی ہے اب اس ملک میں دولت ہی دولت ہو گی ہم عالمی کھلاڑی بننے کو ہیں اور نہ جانے کیا کیا لیکن انجام کیا ہوا: بم دھماکے، دہشتگردی خون ریزی ،لاشیں ہی لاشیں ،بدترین لوڈ شیڈنگ ،تاریخی مہنگائی اور لاقانونیت کی انتہا۔
آج ہم پھر بھارت کے قصاب مودی کو کشمیر دینے کے بعد نئے متوقع بلاک سے امید لگائے ہوئے ہیں لیکن لکھ لیں اگر ہم نے چلن نہ بدلا تو انجام ہمیشہ کی طرح پہلے جیسا ہو گا۔ پاکستان کی ترقی عزت شرف اور عروج کا سفر ایک بنیادی فلسفے سے منسلک ہے کہ یہاں آئین کی بالادستی قائم کر دیں اور جمہور اور جمہوریت کو زندہ رہنے دیں۔ اگر ہم نے جمہوریت اور آئین کو موقع دیا تو جنوبی کوریا کی طرح بے وسیلہ ہو کر بھی عالمی معیشت بن جائیں گے اور آئین سے کھلواڑ ہوتا رہا تو پھر یوگنڈا، روانڈا کی طرح ملک وسائل سے مالامال ہو کر بھی (خاکم بدہن) مسائل کا شکار ہی رہے گا۔ ملک کی ترقی ان بلاکس میں شمولیت کا فائدہ صرف ایک صورت میں ممکن ہے کہ ملک کو آئین کے مطابق چلایا جائے۔
(صاحبِ تحریر سیکرٹری جنرل جمعیت علما ئے پاکستان ہیں)