پچھلے دنوں خیبر پختونخوا کے ایک بورڈ کا انٹرمیڈیٹ کا رزلٹ آیا۔ جہاں بہت سارے بچے اور بچیوں نے بہت اچھے مارکس لئے وہاں ایک دلچسپ نتیجہ سامنے آیا کہ اس قوم کی ایک ہونہار طالبہ نے 1100میں سے 1100نمبر لئے ہیں۔ اس پر ایک نئی بحث شروع ہو چکی ہے۔ ایک ٹی وی چینل پر آج صبح اس موضوع پر ایک پروگرام نے اس طرف میری توجہ دلائی۔ میری یہ کوشش ہے کہ آپ کے سامنے وہ وجوہات تحریر کروں جس کے باعث یہ ممکن ہو ا ہے، یہاں میں یہ واضح کرتا چلوں کہ میرا ہر گز یہ مقصد نہیں کہ اس طالبہ یا دیگرہونہار طلبا و طالبات جنہوں نے بہترین کارکردگی دکھائی ہے، ان سے کسی طرح ان کا کریڈٹ چھین لیں بلکہ ہم انہیں دل کی اتھاہ گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتے ہوئے ان کے بہتر مستقبل کیلئے دعا گو ہیں، ٹیلی ویژن پر ایک ماہر تعلیم نے فرمایا کہ ایسا رزلٹ آنا Unnaturalہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر آپ 70یا 80میں کسی کی بھی اس پررائے لیتے تو جواب یہی ملنا تھا۔ ہمارے دور میں Assesmentکے حوالے سے اتنی پیش رفت نہیں ہوئی تھی اور نہ ہی Examinersکو اس لیول کی ٹریننگ دی جاتی تھی۔ نتیجتاً امتحانات میں اتنے مارکس ملنا اس وقت ایک انہونی سی بات تھی۔ آج کل Exam Rubericsمیں Assesmentانتہائی آرگنائزڈ اور اسٹوڈنٹ فرینڈلی بنا دی گئی ہے مثلاً اگر چار نمبروں کا ایک جُز ہے تو اسے کئی حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے اور یہ دیکھا جاتا ہے کہ کیا امیدوار نے فلاں فلاںپوائنٹ تحریر کئے ہیں اگر ہیں تو اسے پورے مارکس ملتے ہیں Covid-Eraمیں صورتحال اور مختلف ہو گئی جب حکومتِ وقت نے یہ فیصلہ کیا کہ امتحانات صرف Elective Subjectsکے لئے جائیں گے مثلاً اس کیس میں صرف فزکس، کیمسٹری اور بائیولوجی یا ریاضی کے پیپرز لئے جائیں گے اور امیدوار ان میں جتنے نمبر حاصل کرے گا، ان پر 5فیصد نمبر بڑھا کر اردو، انگلش، اسلامیات اور پاک اسٹڈیز کے نمبر لگادیے جائیں گے۔ یہاں دو باتیں غور طلب ہیں۔ ایک یہ کہ جن مضامین میں امتحان لیا گیا وہ ٹیکنیکل مضامین ہیں جیسا کہ اگر امیدوار کی تیاری پوری ہو تو پورے نمبر آنے کے چانسز زیادہ ہیں۔ میرا مطلب ہے کہ اگر کوئی امیدوار کیمسٹری کی کوئی Equationصحیح لکھتا ہے تو اسے پورے مارکس مل سکتے ہیں۔ یہی معاملہ فزکس کا بھی ہے اور ر یاضی تو اس حوالے سے مشہور ہے کہ اس میں سالڈ مارکس آتے ہیںتو ایک تو یہ وجہ ہو گئی دوسری وجہ حکومت کا یہ فیصلہ کہ باقی مضامین جو لازمی مضامین کہلاتے ہیں جن میں اکثر مارکس کم آتے ہیں وہ نہ صرف ان ٹیکنیکل Subjectsکے Proportion سے مارک ہوئے بلکہ ان پیپروں میں پانچ فیصد اضافی نمبر ملے۔ یہ وہ خاص وجہ بنی کہ طالبہ نے ریکارڈ نمبر حاصل کئے۔ Examinationsاور Assesmentکے حوالے سے اور بھی کاوشیں ہوئی ہیں جن کی بدولت زیادہ نمبر حاصل کرنا ممکن ہوا ہے۔ مثلاً آج کل پرچے میں 22-23فیصد سوالات MCQsپر مشتمل ہوتے ہیں اور پھر 50فیصد جو سوالات ہوتے ہیں وہ بھی Short Answers کے حوالے سے ہیں کہ جن میں نمبر کٹنے کے چانسز بہت محدود ہوتے ہیں اور ایک ہونہار طالبعلم یہ 70یا 72فیصد نمبر آسانی سے لے سکتا ہے۔ پیپر کے اندر Theoretical Partبہت کم ہوتا ہے اور یہ پیپر کا وہ حصہ ہے جس میں نمبر کٹنے کے چانسز بن سکتے ہیں تو یہ وہ کچھ وجوہات ہیں جن کے باعث ان مخصوص حالات میں اور حکومتی فیصلوں کی روشنی میں ایسا ہوا۔ ہمیں اپنے ان ہونہار طلبا کو ہر طرح کا کریڈٹ دینا چاہئے۔ انہوں نے کووڈ کے اس مشکل دور میں بھی بہت محنت کی، مشکلات سے دوچار ہوئے، یہ صرف ملکی امتحانات نہیں ہیں کہ جس میں طلبا نے ایسی کارکردگی دکھائی ہے ۔ ہمارے ذہین اور محنتی طلبا کئی بار اے اور او لیولز کے امتحانات میں بھی ناقابلِ یقین نتائج لا چکے ہیں ۔ ٹی وی چینل پر ہی میں نے سنا گو کہ میرے پاس کوئی حتمی اطلاع نہیں ہے کہ متذکرہ بورڈ نے ان نتائج کو Reviewکرنے کیلئے ایک کمیٹی بنا دی ہے۔ میں یہ ضرور کہوں گا کہ Emergencyکی سی Situationتو رہی ہے ہر طرف سے جلدی کریں جلدی کریں کی بازگشت رہی ہے اور سسٹم میں اگر کوئی Lapesآئے ہیں تو ان کی طرف توجہ ضرور دی جائے مگر ایسے حالات میں Over React کرنے سے گریز کیا جائے۔
صاحبِ تحریر انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد کے ریکٹر ہیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)