• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حرف بہ حرف … رخسانہ رخشی، لندن
آپ نے ہم سفر، ہم رکاب، ہم رتبہ، ہم ذات، ہم دم، ہم رنگ، ہم درد، ہم شکل، ہم سخن، ہم زباں، ہم جولی، ہم سایہ اور ہم عصر و ہم سبق تو ضرور اور باقاعدہ سنا ہوگا بلکہ سنتے ہی رہتے ہیں۔ مگر کچھ ’’ہم‘‘ ایسے بھی ہیں جو اپنے اندر ایک جنسی کشش رکھتے ہیں جس کے مطالب آسانی سے سمجھ میں آسکتے ہیں کہ بات کس موضوع پر ہورہی ہے، تو وہ ’’ہم‘‘ ہے، جسے ہم آغوش، ہم بغل، ہم بستر، ہم جنس، ہم پہلو وغیرہ۔ ’’ہم بستر‘‘ ساتھ سونے والا ہوتا ہے، تو ہم آغوش اور ہم بغل کے معنی بھی آپسی محبت و لطافت کے لے لیے جائیں کیونکہ ہم جنس کے آپسی ملاپ میں یہ الفاظ زو معنی سے ہوجاتے ہیں۔ اصل موضوع پر جانے سے پہلے اور بات جب بستر سے متعلق ہو تو پھر کیوں نہ مذہب کے حوالے سے پہلے اسے دیکھ لیا جائے کہ مردانہ ہم جنسیت تو تھی ہی عروج پر کہیں ظاہر، کہیں پوشیدہ، کہیں لیگل اور کہیں اِل لیگل، کہیں برائی، تو کہیں مضائقہ نہیں اور گناہ نہیں، مگر لمحہ فکریہ تو یہ ہے بلکہ قیامت اور تباہی کی وجہ یہ ہوگی کہ عورت ہی عورت میں جنسی سکون ڈھونڈے گی۔مردوں کی آپسی شادیاں تو یورپ میں خوب ہی رواج پا رہی ہیں، ایشیائی ممالک اور عرب امارات سے لے کر پسماندہ ترین ممالک میں یہ رواج بڑھ گیا ہے بلکہ ہم نے ایک کالم بھی لکھا تھا کہ ہم جنس شادیاں برطانیہ سے لے کر یورپ و امریکہ میں بھی قانونی اختیار حاصل کرچکی ہیں مگر خواتین کی آپسی شادیاں بھی آج کل زور پکڑ رہی ہیں، یورپ کی بات چھوڑئیے ایشین ممالک اور بہت سے اسلامی ممالک میں بھی یہ گناہ کا جال پھیلتا جارہا ہے کہ زنانہ نظر آنے والی مگر اندر سے مردانہ خصلت کی مالک، جنسی بے راہ روی خواہ مردوں کی ہو یا پھر عورتوں کی، یہ گناہ کبیرہ کے زمرے میں آتے ہیں، نبی پاکﷺ کا فرمان ہے کہ اگر مرد، مرد کے ساتھ شہوت پوری کرے تو وہ دونوں زناکار ہیں اور عورت، عورت کے ساتھ یہ گناہ کرے تو وہ دونوں بھی زنا کار ہیں۔ عورتوں ہی سے متعلق یہ ارشاد بھی ہے کہ عورتوں کی ہم جنسیت ان کی آپس کی زنا کاری ہے، یہ دونوں لعنت کی مستحق ہیں، حفظ ماتقدم کے طور پر اس موذی حرکت سے بچنے کے لیے آپﷺ نے ایک بستر پر سونے سے اسی لیے منع فرمایا کہ اس طرح سے ایک دوسرے کے جسم کی قربت کے امکان پیدا ہوسکتے ہیں اور ہم جنسیت پروان چڑھتی ہے۔ آپﷺ کا یہ بھی فرمان ہے کہ مرد، مرد کے ستر کو نہ دیکھے اور نہ ہی عورت کسی دوسری عورت کے ستر کو دیکھے، کوئی مرد دوسرے مرد کے ساتھ ایک ہی کپڑے میں نہ لیٹے، اسی طرح عورت بھی کسی دوسری عورت کے ساتھ ایک کپڑے میں نہ لیٹے جب کہ دونوں کے درمیان کوئی چیز حائل نہ ہو، اس کی وجہ یہ ہے کہ شہوانی جذبات کو بھڑکانے کا یہ ایک موثر ذریعہ ہے، جذبات بھڑک اٹھیں تو عورتوں اور مردوں میں ہم جنسیت کی عادت پیدا ہونے لگتی ہے، گناہ گمراہی کی طرف لے کر جس بھی راستے سے لے کر جائے وہ راستہ چھوڑ دینا چاہیے، آپس کی شرم و حیا اسی لیے ضروری ہے کہ کوئی ایسا امکان پیدا نہ ہو جو ضمیر کو مارنے کا کام دے کر شرم و حیا کے جذبات ختم کرکے جنسی جذبات ابھارنے کے کام آئے۔ہم لوگ اپنی ہوس و لالچ میں اور دنیاوی دلچسپیوں میں کھو کر اپنا ایمان تک بیچنے کو تیار رہتے ہیں۔ دیارغیر میں جہاں ہمیں مذہب و ملت اور اچھی قوم کی پہچان کرانا چاہئے وہاں ہم نے اپنی ساکھ و شخصیت گرانے میں کوئی کسسر نہیں چھوڑ رکھی۔ بہنوں کا رشتہ آپس میں کس قدر پاکیزگی اور تقدس لیے ہوتا ہے اور دوسرے رشتے بھی اپنے اندر نہایت مقدس مقام رکھتے ہیں مگر کیا ہوا کہ ایسی حرکات بہن، بھائی، باپ، بیٹی یا دوسرے رشتوں سے ہوجائے تو بھی نہایت ذلت کا مقام ہے اور گناہ عظیم ہے، مگر اگر دو بہنیں آپس میں ہم جنس پرست ہونے کا دعویٰ کریں تو پھر قیامت آ ہی جانا چاہیے۔ دونوں کی عمریں بھی دیکھیے52سال ثمینہ اور48سالہ نازیہ، دونوں نے ہم جنس پرست ہونے کا دعویٰ کرکے برطانیہ میں سیاسی پناہ حاصل کرنا چاہی مگر عدالت نے دونوں کو اس بنیاد پر سیاسی پناہ دینے سے انکار کردیا کہ وہ دونوں ہم جنس پرست ہیں۔ اسی طرح ایک پاکستانی لڑکے نے بھی اپنے ہم جنس سے شادی کے دعوے کے ساتھ سیاسی پناہ حاصل کرنا چاہی اور ان لوگوں کا یہ کہنا کہ ہمیں پاکستان میں مار دیا جائے گا اور دھمکیاں مل رہی ہیں، مگر عدالت انہیں ڈی پورٹ کرنے کا عمل شروع کرادیتی ہے یہاں سٹے کے بدلے۔ مذکورہ بالا بہنوں کا تعلق ضلع ساہیوال سے ہے، ان کا کہنا ہے کہ20سال پہلے ہمیں احساس ہوا کہ ہمارے رجحانات دوسروں سے مختلف ہیں، ہمیں مردوں سے زیادہ عورتوں میں دلچسپی ہونا شروع ہوگئی۔ والدین کی وفات کے بعد دونوں بہنوں کو جان سے مارنے کی دھمکیاں ملنا شروع ہوگئیں۔ اسی لیے انہوں نے برطانیہ میں رہنے کا فیصلہ کیا۔ ان کی باتیں جھوٹ لگتی ہیں۔ برطانیہ میں رہنے کے لیے انہیں ایسے اپنا ایمان خراب کرنے کی کیا ضرورت ہے، کوئی جنسی حرکات وہ سرعام تو نہیں کرتی ہوں گی جو لوگوں کو معلوم ہو کہ یہ ایسی ہیں اور اگر بہنوں نے آپس میں جنسی تعلق رکھنا ہی ہے تو وہ گھر کی چار دیواری کے ساتھ پردوں میں چھپ کر کرسکتی ہیں۔ لازمی ہے اسلامی ملک میں رہ کر ایسی غلیظ حرکات سرعام کی جائیں، برطانیہ میں بھی بعض خواتین اس عمل کو اچھا نہیں سمجھتیں، اگر کوئی عورت دوسری عورت کو غلط نظر سے دیکھے تو وہ غصے میں اسے گھورنا شروع کردیتی ہے، ایک دو مرتبہ گالی گلوچ ہوتے دیکھی گئی مگر سینٹر لندن کے بعض پوش ایریاز میں ہم جنس پرستوں کو بوس و کنار اور ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے گھومتے دیکھا گیا ہے، یہ سب زیادہ تر تعلیم یافتہ اور بہت اچھی جاب رکھتے ہیں، گرلز اسکول جہاں کو ایجوکیشن میں بعض والدین اپنے بچوں کو پڑھانا نہیں چاہتے وہاں پر ہی یہ خرافات پنپ رہی ہیں، کوایجوکیشن تعلیمی اداروں میں ایسا کچھ زیادہ نہیں ہے، اسلام میں بعض پابندیاں ہمارے لیے نہایت اہم ہیں، حتیٰ کہ آنکھوں میں جھانک کر بات رنے سے بھی آپ دوسروں میں کشش محسوس کرسکے ہیں، اس کی بھی اجازت نہیں ہے، اس لیے ’’ہم جنس‘‘ ہونے سے بچنے کو دور، دور رہنا ضروری ہے۔ 
تازہ ترین