وفاقی سول سروس کے گریڈ 20کے افسران کو گریڈ21 میں ترقی دینے کے لئے سینٹرل سلیکشن بورڈ 28 سے 30 ستمبر کو اسلام آباد میں ہو رہا ہے۔ چیف سیکرٹری پنجاب کو اس بورڈ میں بھیجے جانے والے افسران کے ناموں اور ان کے کیریئر کے حوالے سے بریفنگ دی جا چکی ہے۔ 28 ستمبر کو شروع ہونے والے سنٹرل سلیکشن بورڈ میں 23 ویں کامن کے آفس مینجمنٹ گروپ جبکہ 25 ویں اور 26 ویں کامن سے ڈسٹرکٹ مینجمنٹ گروپ (پاکستان ایڈمنسٹرٹیو سروس) شامل ہوںگے۔ پنجاب سے گریڈ 21 میں ترقیوں کے لئے صوبائی سیکرٹری خزانہ افتخار ساہو، صوبائی سیکرٹری حسن اقبال، فواد ہاشم ربانی، کمشنر سرگودھا ڈاکٹر فرخ مسعود، کمشنر ڈی جی خان سارا اسلم اور سیکرٹری ہیومن رائٹس ندیم الرحمان اور سمیرا احمد سمیت دیگر نام شامل ہیں۔ سیکرٹری ٹرانسپورٹ وجیہہ اللہ کنڈی، نجم شاہ، عثمان انور، شہاب خان اور عبدالوہاب شاہ کا نیشنل مینجمنٹ کورس چونکہ حال ہی میں ختم ہوا ہے اور اس کا رزلٹ ایک ماہ تک آنا ہے اس لئے ان کے نام زیر غور نہیں آ سکیں گے۔ میری اطلاع کے مطابق سیکرٹری خزانہ افتخارساہو، حسن اقبال اور فواد ہاشم ربانی نے چیف سیکرٹری پنجاب کامران علی افضل سے سنٹرل سلیکشن بورڈ کے آغاز سے قبل ہی ملاقاتیں کرلی ہیں اور انہیں ترقیوں کے لئے سپورٹ کرنے کی درخواستیں بھی کی ہیں۔ وفاقی سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ ڈویژن افضل لطیف پچھلے دنوں لاہور آئے ، خیال یہ ہے کہ صرف ان افسران کو گریڈ 20 سے 21 میں ترقی دی جائے جو ان گریڈز میں ترقی کے لئے بھی میرٹ پرپورا اتریں۔ افضل لطیف چونکہ خود افسر شاہی میں ایک اہل اور دیانتدار افسر کے طور پر جانے جاتے ہیں ایسی بات کرسکتے ہیں لیکن افسران کی اہلیت کو جانچنے کا پراسس اتنا سادا نہیں‘ یہ وہ بھی سمجھتے ہیں۔ افسران کی اے سی آرز ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ بن سکتی ہیں۔ بڑا افسر ذاتی پسند نا پسند کی وجہ سے کسی اہل افسر کی اے سی آر خراب کرسکتا ہے۔ اسی طرح ٹریننگ انسٹی ٹیوشنز میں انسٹرکٹرز کی پسند ناپسند کابھی بڑا عمل دخل ہےاور کئی دفعہ میڈیا بھی کسی افسر کو اچھا یا برا ثابت کردیتا ہے۔ یاتو ترقیوں کے حوالے سے فوج والا سسٹم ہو کہ اگر کوئی افسر اہل نہیں تو کیپٹن اور میجر رینک پر ہی ریٹائر کردیا جاتا ہے۔ فوج ایک ایسا ادارہ ہے جہاں پر آپ کوکسی سفارش کی ضرورت نہیں ہوتی، کیریئر ڈویلپمنٹ میں سب سے اچھا پرفارم کرنے والے کوبہترین پوسٹنگ ملتی ہے۔ سول بیورو کریسی میں ایسا کوئی سسٹم موجود نہیں۔ کسی کی اگر اچھی سفارش ہو تو کوئی اے سی آر نہیں دیکھی جاتی۔
پنجاب میں 5واں چیف سیکرٹری اور ساتواں آئی جی لگایاگیا، اگر پرفارمنس ٹھیک نہیں تھی تو پھر سزا کیوں نہیں دی گئی۔ ترقی دینے کے لئے اہلیت اورمیرٹ کو ملحوظ خاطر رکھنا بہت اچھی بات ہےلیکن اس سے پہلے کوئی موثر اور شفاف سسٹم اور میکنزم بنائیں۔ چیف سیکرٹری پنجاب نے وزیراعظم کو اپنی حالیہ بریفنگ میں صوبے کی گورننس میں ابتری کے حوالے سے بہت سی وجوہات بتائیں۔ بے لگام مہنگائی پر بھی بات ہوئی۔ یہ بات سمجھ سےبالاتر ہے کہ ایک اسسٹنٹ کمشنر اور ڈپٹی کمشنر اشیاء کی قیمتوں کو کیسے کنٹرول کرسکتے ہیں؟یہ ڈیمانڈ اورسپلائی کی بات ہوتی ہے جس کا خیال رکھنا خالصتاً حکومت کی ذمہ داری ہے۔ یہ کوئی وار ٹائم نہیں کہ انتظامیہ قیمتوں کو مکمل طور پر کنٹرول کرسکے۔ کیا حکومت ڈالر کی قیمت کو کنٹرول کرسکی جو تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکا ہے۔ یہ صرف بیورو کریسی کو دبانے کا ایک طریقہ ہے۔ موجودہ حالات میں شفافیت میں تھوڑی بہت توبہتری ہو سکتی ہے لیکن بنیادی تبدیلیاں بڑی مشکل ہیں۔ چیف سیکرٹری پنجاب نے صوبے میں کرپشن کی بات کی، انہوں نے مسائل کی نشاندہی تو بہت ٹھیک انداز میں کی لیکن معاملات کو کس طرح ٹھیک کرنا ہے‘ تفصیل نہیں بتائی یا شاید بتائی بھی ہولیکن اس کی رپورٹ نہیںملی، ٹاسک فورسز بنانا ہوں گی، ضلعوں پر پہلے ہی بہت پریشر ہوتا ہے۔ اشیائے ضرورت کی قیمتیں بڑھانے میں ملوث مڈل مین مافیا ایک ضلع میںسختی ہونے کے بعد دوسرے ضلع میںچلا جاتا ہے۔ چیف سیکرٹری پنجاب نے صوبے میں نیب کے ڈر کی وجہ سے افسر شاہی کی طرف سے کام نہ کرنے کا بھی بریفنگ میں ذکر کیا۔ اب سوال یہ ہے کہ نیب کا (PARADIGM)کون بدلے گا؟ یہ تو وفاق نے کرنا ہے۔ کیا وزیراعظم نیب کا رخ موڑنے کےلئے تیار ہیں۔ بیوروکریٹ اگر یہ سمجھتے ہیں کہ جتنا اچھا کام بھی کرلیں ہم نے پکڑے ہی جانا ہے تو ٹھیک سمجھتےہیں۔ اب پنجاب میں تو افسر شاہی اس ایک نکتہ پرمتفق ہے کہ کام کرکے پکڑے جانے سے بہتر ہے کہ سائیڈ پر ہو کر بیٹھے رہو۔ چیف سیکرٹری کیا کرینگے چار چھ افسر ہٹا دیں گے تو چیف سیکرٹری کے بغیر کسی اور ریفرنس سے وہ افسر دوبارہ تعینات ہوجائیں گے ۔