• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عرصہ دراز سے سنتے آرہے ہیں کہ بلوچستان بڑا حساس صوبہ ہے۔ یہ صوبہ معدنی دولت سے مالا مال ہے۔ یہ سی پیک کا اہم ترین روٹ ہے۔ اس خطہ میں گوادر بندرگاہ کی بڑی اہمیت ہے۔ ان وجوہات کی بنا پر یہ صوبہ پاکستان دشمن قوتوں کے نشانے پر رہتا ہے۔ لیکن ان وجوہات کے علاوہ اس صوبہ کا احساس محرومی بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔ جہاں تک بلوچستان میں امن و امان کے مسئلےکا تعلق ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اس اہم مسئلہ کے حل کیلئے سیکورٹی اداروں کی کاوشیں رنگ لائی ہیں۔ ملک دشمنوں کا پروپیگنڈا اپنی جگہ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اب بلوچستان میں امن و امان کی صورتحال پہلے جیسی نہیں ۔ سیکورٹی اداروں کی قربانیوں اور کوششوں کی وجہ سے اب یہاں کافی بہتری ہے۔ لیکن دشمن اب بھی اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لئے ناپاک کوششوں میں مصروف ہے۔ پہلے بھارت نے اپنی تخریبی کوششوں کو جاری رکھنے کے لئے افغانستان کی سرزمین کھل کر استعمال کی۔ سابق افغان صدر اشرف غنی اور دیگر کٹھ پتلیوں کے نوٹس میں پاکستان کی طرف سے بار بار یہ مسئلہ لایا گیا مگروہ بھارت کو پاکستان بالخصوص بلوچستان میں کھل کھیلنے کے مواقع فراہم کرتے رہے۔ پاکستان نے نہ صرف یہ معاملہ عالمی طاقتوں کے سامنے پیش کیا بلکہ اقوام متحدہ کے سامنے بھی اٹھایا لیکن مقبوضہ کشمیر کے حل طلب مسئلے اور کشمیریوں پر ظلم کے پہاڑ توڑنے والے بھارت کیخلاف پاکستان کی اس شکایت پر بھی کوئی خاص توجہ نہیں دی گئی۔ اور افغان سرزمین سے بھارت جیسے گھٹیا دشمن کی پاکستان مخالف سرگرمیاں جاری رہیں۔ افعانستان میں طالبان کی آمد یا بہ الفاظ دیگر برسراقتدار آنے اور اشرف غنی وغیرہ جیسے کٹھ پتلیوں کے فرار کے بعد وہاں سے بھارت کو بے آبرو ہوکر نکلنا پڑا۔ اب بظاہر طالبان حکومت میں بھارت کے لئے اس کی مذموم کارروائیوں کے لئے افغانستان کے دروازے بند ہوچکے ہیں لیکن چند بچے کچھے پاکٹس سے اب بھی پاکستان میں دہشت گردی اور سیکورٹی فورسز پر حملوں کی کارروائیاں ہوتی رہتی ہیں۔ پاک آرمی اور سیکورٹی ادارے پاکستان دشمنوں کے راستے میں سیسہ پلائی دیوار ہیں لیکن ان قربانیوں اور کوششوں میں صوبائی حکومتوں کی طرف سے روک تھام کے اقدامات نظر نہیں آئے۔ حسبِ سابق بلوچستان میں احساس محرومی ختم کرنے کے لئےا قدامات میں وہ تیزی دکھائی نہیں دیتی جو ہونی چاہئے اور ہمیشہ کی طرح حکومت کی طرف سے بات بس اعلانات اور بیانات تک ہی محدود ہے، بلوچستان کے عوام کی خوشحالی، تعلیم اور روزگار کی فراہمی کے لئے عملی اقدامات ہی سے یہاں احساس محرومی کو ختم کیا جاسکتا ہے۔ لیکن اس طرح کے ماحول کے لئے بلوچستان میں حقیقی اور مضبوط حکومت کا قیام انتہائی اہم اور ضروری ہے اگرایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے، وفاق کی بے جا مداخلت اور ایک دوسرے کو گرانے کا سلسلہ یونہی جاری رہا تو بلوچستان کی ترقی و خوشحالی خواب ہی رہے gi۔ وفاقی اور صوبائی حکومت بیانات کے سبز باغوں سے نکل کر اپنے فرائض کا احساس کریں اور عملی اقدامات کریں ورنہ پاک فوج اور دیگر سیکورٹی اداروں کی قربانیوں اور کاوشوں کو ثمر بار نہیں بنایا جاسکے گا اور یہ نہ صرف بلوچستان بلکہ پاکستان کے لئے نیک شگون نہیں ہوگا۔وزیراعظم عمران خان اکثر اپنی تقاریر میں پاکستان کے مسائل کا ذکر کرتے ہیں۔ لیکن یہ نہیں بتاتے کہ ان مسائل کو حل کون کرے گا۔ ظاہر ہے کہ عوامی مسائل کو صرف حکومت وقت ہی حل کرسکتی ہے۔ جس کے لئے پوری قوم کا ساتھ بھی ضروری ہوتا ہے۔ صرف تقاریر سے بھلا مسائل کب حل ہوتے ہیں۔ حکومت اور قوم دونوں کو اس اہم نکتے پر غور کرنا چاہئے کہ بہت سے مسائل بڑھتی آبادی سے منسلک ہیں۔ بلکہ یہ کہنا بے حانہ ہوگا کہ بڑھتی آبادی کئی مسائل کی جڑ ہے۔ جب تک آبادی کو کنٹرول نہیں کیا جاتا بہت سے عوامی مسائل حل ہونا تو درکنار ان میں اضافہ ہی ہوتا رہے گا۔ آبادی پر قابو پانے کا منصوبہ صرف ایک بار سابق صدر مرحوم ایوب خان کے دور حکومت میں بنایا گیا اور اس پر عملدرآمد بھی شروع کیا گیا۔ اس کے بعد کسی کو ہمت ہی نہیں ہوئی۔ بڑھتی آبادی ہی کی وجہ سے بڑے تو کیا چھوٹے شہروں میں بھی پانی کی قلت کا سامنا ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ بڑی تیزی سے پانی کا لیول نیچے جارہا ہے۔ کوئی بھی حکومت ہو اور جتنی مرضی کوششیں کریں اگر آبادی میں اضافے کا سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو پانی کی قلت کا مسئلہ حل نہیں کیا جاسکے گا۔ تعلیم اور صحت کے مسائل میں اضافے کی بنیادی اور اہم وجہ بھی آ بادی میں روز افزوں اضافہ ہے۔ زرعی اراضی پر مکانات کی تعمیرات کو روکنے کی ذمہ داری حکومت کی ہے لیکن اس کی روک تھام پرتوجہ نہیں دی جارہی۔ مکانات کیلئے زرعی اراضی کی ضرورت بھی اسی لئے درپیش ہے کہ آبادی بڑھتی جارہی ہے اور وسائل کم ہوتے جارہے ہیں۔ یہ ایک غیر متوازن صورت حال ہے۔ وہ کشتی ضرور ڈوبتی ہے جس میں گنجائش سے زیادہ سواریاں یا سامان ہو۔ بڑھتی آبادی محدود ملکی وسائل کو ہڑپ کرتی جارہی ہے۔ اس میں حکومت کے ساتھ ساتھ پوری قوم بھی ذمہ دار ہے۔ یہاں تو بیوی اور بہو کو اس لئے بھی طلاق دی اور دلوائی جاتی ہے کہ یہ بچے پیدا نہیں کرسکتی، بے شک طبی وجوہات کی بنا پر اس کا ذمہ دار شوہر ہی ہو۔ لوگ اپنے وسائل اور آمدن نہیں بلکہ بچوں کی تعداد گنتے ہیں۔ مہنگائی میں بے تحاشہ اضافے کی ایک وجہ آبادی میں اضافہ بھی ہے بلکہ یہ سب سے اہم وجہ ہے۔ جہاں طلب زیادہ اور رسد کم ہو وہاں اشیاء کی قلت اور مہنگائی کو کنٹرول نہیں کیا جاسکتا۔ یہ معاشیات کا اصول بھی ہے اور حقیقت بھی۔ جہاں حکومت راوی فرنٹ پروجیکٹ جیسے منصوبوں کی خود حوصلہ افزائی کرے گی وہاں اجناس کی قلت میں تو اضافہ ہوتا ہی رہے گا۔ اب بھی وقت ہے کہ اپنے فرائض کا احساس کرکے بڑھتی آبادی پر قابو پانے کے لئے عملی اقدامات کئے جائیں۔

تازہ ترین