• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مہنگائی کے بوجھ تلے دبے عوام پر حکومت نے ایک اور بوجھ ڈالنے کی تیاری کر لی ہیں۔ یکم نومبر سے گھریلو صارفین کیلئے گیس 270فیصد مہنگی کرنے کی تیاری کی جا چکی ہے جس کے تحت مختلف سلیبز کے گیس بلز میں ساڑھے پانچ سو روپے سے لے کر نو ہزار روپے سے زائد تک کا ا ضافہ ہوگا۔ 

گیس ریٹ میں اضافے کا اطلاق یکم نومبر سے 28فروری تک ہو سکتا ہے۔ سوئی نادرن گیس اور بجلی کمپنیوں نے عوام کو لوٹنے کا نیا طریقہ سلیب ریٹ متعارف کروا دیا۔ 

سلیب (1) 272روپے، سلیب (2)1257 روپے، سلیب (3) 4570روپے، سلیب (4)9125 روپے، سلیب (5)18227روپے، سلیب (6)18290روپے، پہلے سلیب ریٹ اور دوسرے میں فرق 1000روپے کا ہے۔ 

دوسرے سے تیسرے میں فرق 3300روپے کا ہے۔ تیسرے سلیب اور چوتھے کا فرق 9000روپے کا ہے۔ عملدرآمد ہونا ابھی باقی ہے۔ صارفین پوچھتے ہیں کہ آخریہ سلیب کیا ہوتا ہے؟ سلیب دھوکہ اور ظلم ہے۔ 

آپ گاڑی میں پٹرول ڈلواتے ہیں تو کبھی ایسے ہوا کہ ایک لیٹر 100روپے فی لیٹر، دو لیٹر 1100روپے فی لیٹر، تین لیٹر 3300 روپے فی لیٹر، صرف ایک دن ریڈنگ لیٹ لینے سے بل 272سے 1257ہو سکتا ہے۔ بجلی کا بل دیکھیں۔ 

واپڈا والے 300یونٹ کا بل 3300بمعہ ٹیکس اور 301یونٹ کا 4400بمعہ ٹیکس۔ کیا ایک یونٹ زیادہ صرف کرنے سے 1100روپے کا فرق پڑتا ہے؟ کیا آپ نے کبھی 5لیٹر کوکنگ آئل لیا تو 1000کا اور 6لیٹر 2000کا یقیناً ایسا نہیں ہے پھر اس کا نوٹس کون لے گا؟ 

وزیراعظم کچھ تو خدارا سوچیں، مہنگائی کم نہ کریں لیکن زیادتی بھی تو نہ کریں۔ اس قوم کو بیوقوف بنانے کا ایسا فارمولا جس پر آج تک کسی کا خیال نہیں گیا عوام ازل سے لٹ رہی ہے اور نوٹس کوئی نہیں لیتا۔

طرفہ تماشہ یہ ہے کہ ایک طرف تو زیادہ بجلی استعمال کرنے والوں کو زیادہ نرخ ادا کرنا پڑتے ہیں تو دوسری طرف سوئی گیس کے سلیب بناکر انہیں زندہ درگور کیا جارہا ہے۔

پاکستان مسلم لیگ (ن)کے صدر اور قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے گیس کی قیمتوں میں 35فیصد اضافے کی اطلاعات کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ فیصلہ در حقیقت آئی ایم ایف کا مطالبہ ہے۔ حکومت اس کی شرائط پوری کر رہی ہے۔ حکومت نے قوم سے ٹیکس فری بجٹ کا جھوٹ بولا تھا۔

اپنی تاریخ کی بدترین مہنگائی کے بوجھ تلے دبے مفلوک الحال عوام پر پہلے ہی بالواسطہ بھاری ٹیکسوں کا بوجھ لاد دیا گیا ہے جس سے ہر شخص کی چیخیں نکل رہی ہیں۔ 

وزیراعظم عمران خان نے اگرچہ بدعنوان عناصر بالخصوص نشانے پر آئی ہوئی اپوزیشن کو رلانے کا اعلان کیا تھا لیکن اب عوام رو رہے ہیں۔ پہلے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 15دن بعد اضافہ کرکے عوام کا بھرکس نکالا جاتا ہے۔ بجلی کی قیمتوں میں پہلے ہی اضافہ کیا جا چکا ہے۔ 

اب گیس کا بم بھی گرایا جانے والا ہے۔ موسم سرما کے آنے سے قبل ہی صارفین گیس کی بندش یا اس کا پریشر کم ہونے کی شکایا ت کرتے ہیں۔ موسم سرما میں مختلف وجوہات کو بہانہ بناکرایل پی جی مافیا کو خوب لوٹ مار کا موقع دیا جاتا ہے جو چھ ماہ جی بھر کر من مانے نرخ وصول کرتے ہیں۔ دیہی اور پہاڑی علاقوں کے لئے سوختہ لکڑیوں کی قیمتیں بھی بڑھادی جاتی ہیں۔ 

وزیراعظم جنہیں عالمی امور اور اپوزیشن کیخلاف بیان بازی سے فرصت نہیں وہ عوامی مسائل سے یکسر نظریں چرائے ہوئے ہیں۔ اپوزیشن لیڈر کے بقول متوقع گیس کی قیمتوں میں اضافہ بلاجواز اور حکومت کی ایک اورسنگین حماقت ہے۔ 

عوام میں مزید مہنگائی برداشت کرنے کی ہمت اور سکت نہیں۔ شہبازشریف کے بقول عمران خان اپنی پے درپے حماقتوں سے ملک میں خانہ جنگی کرانے پر تلے ہیں۔ پہلے ہی گیس اور بجلی کی قیمتوں میں تاریخی اضافہ ہو چکا ہے۔ قیمتوں میں مزید اضافے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ مسئلہ حکمرانوں کی نااہلی اور کرپشن ہے۔ 

گیس اور بجلی کی قیمتوں میں اضافہ مسئلے کا حل ہوتا تو بجلی کے بعد گیس کا گردشی قرض قوم کے گلے نہ پڑتا۔ گیس کی قیمت بڑھنے سے روٹی کی قیمت بڑھے گی۔ عوام کے بل مزید بڑھ جائیں گے۔ پہلے ہی حکومت معیشت کا نائن الیون کرچکی ہے۔ حکومت اب مہنگائی سے قوم کا تورا بورا بنا رہی ہے۔ 

مہنگائی جس رفتار سے کی جا رہی ہے، یہ ثابت ہوچکاہے کہ کل تک معیشت پر عبور رکھنے کا دعویٰ کرنے والوں کی حکومت کو معیشت کی الف ب بھی معلوم نہیں۔ قوم کو مہنگائی سے مارنے کا گناہ کرنے کے بجائے حکومت گھر چلی جائے۔ آٹا، چینی، گھی،ادویات، بجلی، گیس سمیت ہر چیز مہنگائی کی حدیں عبور کر چکی ہے۔ مہنگائی نے عوام کی کمر توڑ دی ہے۔ غریب کا جینا حرام ہو گیا ہے۔ 

اسی ہفتے پہلے بجلی میں 5سے 35فیصد اضافہ کیا گیا،اب گیس کی قیمت میں 35 فیصد اضافے کی تجویز ہے۔ 141فیصد گیس کی قیمت حکومت پہلے ہی بڑھا چکی ہے۔ حکومت کا دعویٰ تھا کہ قیمت بڑھانے سے گیس کمپنیوں کا خسارہ کم ہو گا۔ حقیقت یہ ہے کہ قیمت بڑھانے کے باوجود گیس کمپنیاں اب بھی خسارے میںہی ہیں۔

وزیر اعظم کو ایسے غیر مقبول اور عوام دشمن فیصلے کرنے والوں کی گرفت کرنی چاہئے اور عوام کے مسائل کا خود جائزہ لینا چاہئے کہ وہ مہنگائی کے ہاتھوں کس قدر زچ ہو چکے ہیں۔ 

گھی اور خوردنی تیل کی قیمت ساڑھے تین سو سے بھی آگے (370روپے) جانے پر ان کو ذرہ بھر بھی فکر نہیں ہے، آٹے کی قیمتیں بڑھ چکی ہیں، چینی بلند نرخوں پر فروخت ہورہی ہے، اب شوگر ملز پر پہرے بٹھانے سے شوگر مافیا کی بلیک مارکیٹنگ کرنے والوں کو مزید لوٹنے کی کھلی چھٹی دی جارہی ہے آخر اس ملک کے بائیس تئیس کروڑ عوام کہاں جائیں؟

تازہ ترین