• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کئی سو ارب کے قرضے سے بنی کشادہ اور آرام دہ لاہور عبدالحکیم موٹروے پر سفر کرتے ہوئے خانیوال انٹرچینج پر اترے تو شام ڈھل چکی تھی، ہماری منزل چوک میتلا کے قریب چک 124 تھا جہاں ایک جنازے میں پہنچنا تھا۔ دھول سے اٹے راستے اور لہلہاتے کھیتوں سے گزر کر اپنے عزیزوں کی حویلی میں داخل ہوئے تو اندھیرا چھا چکا تھا۔ عزیز و اقارب کے علاوہ گاؤں اور قرب و جوار سے لوگوں کی بڑی تعداد نمازِ جنازہ میں شریک ہوئی۔ کورونا ایس او پیز پر عمل کرتے ہوئے آخری صف میں کھڑا ہوا تو عین سامنے ایک لڑکا کھڑا تھا جس کی بوسیدہ قمیص کاندھے سے پھٹی ہوئی تھی۔ میری نظریں اس بچے پر جم کر رہ گئیں جس کی عمر کالج میں پڑھنے کی تھی مگر اس کے والدین اس قابل نہیں تھے کہ اس کو نئے کپڑے لے کر دے سکیں۔ تدفین کے بعد کھانے کا دور شروع ہوا تو معززین بکرے کے گوشت سے پلیٹیں بھر کر حالاتِ حاضرہ پر گفتگو کرنا شروع ہو گئے۔ زمین دار کھاد اور بیجوں کی کوالٹی اور قیمتوں کا شکوہ کر رہے تھے مگر ان کے چہروں کی لالی او رکھیتوں کی ہریالی سے اندازہ ہو رہا تھا کہ وہ خوشحال زندگی گزار رہے ہیں۔ ان کی خدمت پر مامور غریب ملازم اور مزارعے میلے کچیلے کپڑے پہنے ہاتھوں میں ڈونگے لئے حسرت بھری نگاہوں سے بوٹیوں کی طرف تک رہے تھے، ان کی آنکھوں میں چھپی بے بسی اور سپاٹ چہرے دیکھ کر اندازہ لگانا مشکل نہ تھا کہ انھیں اور ان کے گھر والوں کو ایسا کھانا شاید مہینوں بعد نصیب ہوا۔ کھانا ادھورا چھوڑکر باہر نکلا تو گاؤں کے بچے بڑی لگژری گاڑیوں کو حیرت سے دیکھ رہے تھے۔ ایسی حیرت میں نے واشنگٹن کے ایئر اینڈ اسپیس میوزیم میں مختلف اسکولوں کے بچوں کے چہروں پر دیکھی تھی جب وہ چاند پر اترنے والے خلائی جہاز اپالوII کو دیکھ رہے تھے۔

رات گئے جنوبی پنجاب کے سب سے بڑے اور تاریخی شہر ملتان پہنچے تو گرد و غبار، ناقص صفائی، بے ہنگم ٹریفک، بے ترتیب اوورہیڈ برج اور بے مقصد میٹرو دیکھ کر دل دکھ گیا۔ ملتان جو کبھی خوب صورت چہروں اور دلکش لہجے والے صاف دل سرائیکیوں کا شہر تھا اب وہاں ہجوم تو تھا رونق نہیں تھی۔ نشتر اسپتال جہاں ساہیوال سے لے کر رحیم یار خان اور بلوچستان سے مریض علاج کے لئے آتے اور شفا پاتے تھے، آج اس کا معیار عدم توجہ، فنڈز کی کمی اور دوسرے عوامل کی وجہ سے انتہائی گِر چکا ہے۔ ملتان کے اطراف نادر آموں کے باغ تھے جہاں گرمیوں میں دھوپ کی تپش سے بچنے کے لئے لوگ جایا کرتے تھے اور بچے کھیلا کرتے تھے گزشتہ چند برسوں میں ان پیڑوں کو بے دردی سے کاٹ دیا گیا ہے تاکہ ہاؤسنگ اسکیموں کے لئے زمین ہموار کی جا سکے۔

ساؤتھ پنجاب کے سیاستدانوں اور وڈیروں نے مظلوم سرائیکیوں کو استعمال اور ان کا استحصال کر کے اعلیٰ ترین مناصب اور مراعات حاصل کیں مگر ان کی ترقی اور خوشحالی کے لئے کوئی کام نہیں کیا۔ ایک طرف ساؤتھ پنجاب کا مراعات یافتہ طبقہ ہے جن کے بچے ملکی اور غیرملکی درس گاہوں میں تعلیم حاصل کر کے اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوتے ہیں یا اپنے علاقوں میں آ کر سیاست کرتے ہیں، وزارتیں آپس میں بانٹ لیتے ہیں دوسری طرف محکوم عوام ہیں جن کے بچے پڑھ لکھ بھی جائیں تو ان کے نصیب میں درجہ چہارم یا پھر بڑے شہروں میں جا کر سیکورٹی گارڈ، ڈرائیور اور ویٹر جیسی نوکریاں کرنا ہی ہوتا ہے۔ موجودہ حکومت نے سرائیکی صوبے کے عوام کی محرومیاں ختم کرنے کا نعرہ لگا کر ووٹ اور سیٹیں حاصل کیں مگر اب تک عملی طور پر کچھ زیادہ کام نہیں کیا۔ ساؤتھ پنجاب سیکرٹریٹ کو دو شہروں میں تقسیم کر دیا گیا ہے جبکہ لاہور میں بیٹھے طاقتور بیوروکریٹ اپنے اختیارات کم کرنے پر تیار نہیں ہیں۔ نتیجے کے طور پر ساؤتھ پنجاب میں تعینات افسر کنفیوژن کا شکار ہیں اور عوام بھی اپنے کاموں کو لے کر پریشان نظر آتے ہیں۔

بوجھل دل کے ساتھ ملتان سے لاہور کے لئے روانہ ہوا تو خیال آیا کہ ان مصیبتوں اور محرومیوں کا شکار صرف جنوبی پنجاب کے باسی ہی نہیں بلکہ ملک کے ہر صوبے، ہر علاقے میں غریبوں کا استحصال ہو رہا ہے۔ موٹروے پر واپس جاتے ہوئے جھنگ کے کسی گاؤں کی بیوہ یاد آ گئی جس کے بچوں کا واحد سہارا اس کی گائے تھی جس کا دودھ بیچ کر وہ گزر بسر کرتی تھی اور پھر ایک دن وہ گائے مر گئی اور وہ بھیک مانگنے پر مجبور ہو گئی۔ عوام کو ریلیف دینا ہے تو حکومت میں شامل افراد کو سادگی اختیار کرنی ہو گی، لوگوں کے دکھ درد میں شریک ہونا ہو گا، کچھ عملی اقدامات کرنا پڑیں گے۔

(مضمون نگار سابق وزیرِ اطلاعات پنجاب ہیں)

تازہ ترین