پنجاب میں صوبائی سول سروس جس طرح یہ سمجھتی ہے کہ وفاقی سول سروس ان کے ساتھ زیادتی کرتی ہے، اسی طرح پولیس سروس آف پاکستان کی صوبائی سول سروس سے ریشہ دوانیاں بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ پنجاب میں ایک سوچی سمجھی پلاننگ کے تحت پنجاب پبلک سروس کمیشن کے ذریعے پولیس میں سب انسپکٹروں اور انسپکٹروں کی بھرتیاں روک رک دی گئی ہیں جس کی بڑی وجہ یہ ہےکہ ڈائریکٹ سب انسپکٹر اور انسپکٹر بھرتی ہونے والے افسران 15 سے 20 برسوں میں ڈی ایس پی اور ایس پی کے سینئر رینکس حاصل کرلیتے ہیں۔ پنجاب پولیس میں بطور ڈائریکٹ انسپکٹر بھرتیاں 1993،1995 اور 1998 میں کی گئیں اور 1999 کے بعد محکمہ میں انسپکٹروں کی براہِ راست انڈکشن کا عمل بند کر دیا گیا۔ اسی طرح پنجاب پولیس میں ڈائریکٹ سب انسپکٹروں کا آخری بیچ 2017 میں آیا اور اس کے بعد گزشتہ 4 برس میں صوبائی پبلک سروس کمیشن کو اس عہدے پر بھرتیوں کے لئے کوئی ریکوزیشن نہیں بھیجی گئی۔ اب دیکھا جائے تو درحقیقت پنجاب پولیس میں صرف سپاہی، اے ایس آئی یا اے ایس پی ہی بھرتی ہوتے ہیں۔ پنجاب میں انسپکٹر لیگل کی کل 462 اسامیاں ہیں جن پر اس وقت صرف 113 افسر کا م کر رہے ہیں۔ صوبائی پولیس میں لیگل انسپکٹروں کا پہلا بیچ 2004ء پھر 2007، 2013ء اور آخری بیچ 2016 میں بھرتی کیا گیا۔ پنجاب پبلک سروس کمیشن سے بھرتی ہونے والے ان لیگل انسپکٹروں کا بیچ 25 سے 30 افسروں کا ہی ہوتا ہے جس کی ایک وجہ مشکل امتحان ہے۔ ان میں سے بھی آدھے سول جج بننے کوترجیح دیتے ہیں اور کچھ دیگر محکموں میں جیسا کہ اینٹی کرپشن وغیرہ میں میں بطور اسسٹنٹ ڈائریکٹر بھرتی ہو جاتے ہیں ۔
پنجاب میں چند ترامیم کے ساتھ پولیس آرڈر 2002ء ہی چلتا آ رہا ہے، کوئی اپنا قانون نہیں بنایا گیا جبکہ خیبرپختونخوا نے 2017ء اور سندھ نے 2019ء میں اپنا قانون بنا لیا تھا۔ سندھ نے تو کانسٹیبل سے لے کر ڈی ایس پی تک براہِ راست بھرتی کئے لیکن پنجاب کی بدقسمتی سمجھیں یا پھر ریشہ دوانیاں کہ صوبائی پولیس سروس عدالتوں کے دروازے بھی کھٹکھٹا چکی ہے لیکن پنجاب پولیس کے طاقتور پی ایس پی افسروں کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ لاہور ہائیکورٹ میں 2021ء کے دوران طاہر مقصود چھینہ بنام حکومت پنجاب رٹ پٹیشن نمبر 743 اور سید عمران کرامت، آفتاب احمد اور عاصم افتخار بنام چیف سیکرٹری، ایڈیشنل چیف سیکرٹری ہوم اور آئی جی پنجاب پولیس رٹ نمبر 39581 دائر کی جا چکی ہیں لیکن پنجاب پولیس کے اعلیٰ عہدیدار ان پر جواب دینے سے گریزاں ہیں۔ صوبائی پولیس سروس کے حقوق کے لئے پنجاب اسمبلی میں اراکین اسمبلی سید حسن مرتضیٰ، شازیہ عابد، ارشد ملک اور خدیجہ عمر کی طرف سے ایک مشترکہ تحریک التوا بھی پیش کی گئی جس میں کہاگیا کہ پولیس سروس رولز 2008کے تحت سپرنٹنڈنٹ آف پولیس کے عہدے پر ترقی کے لئے 60فیصد صوبائی سروس کے ڈی ایس پیز کا کوٹہ تھا جبکہ 40فیصد اے ایس پیز (پی ایس پیز) کا کوٹہ تھا۔ پولیس ڈیپارٹمنٹ پنجاب نے جنوری 2021ء میں ایک نوٹیفیکیشن کے ذریعے پولیس سروس رولز 2008ء کو ختم کرکے نئے پولیس رولز 2020ء بنائے ہیں جس کی سیکشن 6 کی سب سیکشن 2 میں درج ہے کہ ایس پی کے عہدے پر پروموشن کے لئے اب 40 فیصد صوبائی سروس کے ڈی ایس پیز اور 60 فیصد اے ایس پیز (پی ایس پیز) کا کوٹہ ہوگا یعنی صوبائی پولیس سروس کے ملازمین کا 20 فیصد کوٹہ کم کردیا گیا ہے۔ پنجاب پولیس کے پالیسی ساز پی ایس پیز کے اس فیصلے سے صوبائی پولیس سروس کے ملازمین کی حق تلفی ہوئی ہےاور سپاہی سے لے کر ڈی ایس پیز تک سب بددلی اور بے چینی کا شکار ہیں۔ پولیس سروس آف پاکستان کے رولز آف پروسیجر کے سب رول 7 میں واضح طور پر لکھا ہے کہ محکمہ پولیس میں ملازمین کی کمی کو دور کرنے کے لئے نیا خون بھرتی کیا جائے۔ اسی طرح پروموشن پالیسی کے حوالے سے سب رول 5 میں لکھا ہے کہ محکمہ پولیس میں گریڈ 18 کی پوسٹوں پر ترقیاں پولیس سروس آف پاکستان اور صوبائی پولیس سروس کے گریڈ 17 کے افسروں کو صوبائی حکومت کی سفارش پر دی جائیں گی۔ پولیس آرڈر 2002ء کے آرٹیکل 165(E)کے نافذ العمل ہونے کے بعد صوبائی پولیس سروس کے افسروں کی ایس ایس پی ، ڈی آئی جی اور ایڈیشنل آئی جی کے عہدوں پر ترقی میں امتیاز بھرتا جا رہا ہے جو کہ آئین پاکستان کے تحت دیئے گئے بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ پولیس آرڈر 2002ء کے نافذ العمل ہونے سے قبل کانسٹیبل، اے ایس آئی اور سب انسپکٹر بھرتی ہونے والے گریڈ 20 اور 21 میں ترقیاں پاگئے جن میں ڈی آی جی (ر) غلام اصغر خان، ڈی آئی جی (ر) رانا واسع اور حامد مختار گوندل جبکہ آئی جی پنجاب چودھری امین کی مثالیں موجود ہیں۔ آج پنجاب پبلک سروس کمیشن کے ذریعے بھرتی ہونے والے انسپکٹر، سب انسپکٹر اور اے ایس آئی کی ترقیاں بھی سرخ فیتے کی نظر ہو رہی ہیں۔ جب تک سنیارٹی اور ترقیوں کی فہرستیں محکمہ داخلہ کا پولیس ونگ بناتا رہا حالات نارمل رہے لیکن آج صوبائی پولیس سروس کے حقوق کی پامالی پر حکومت کوئی حل نکالنے میں سنجیدہ نظر نہیں آ رہی۔ پولیس سروس آف پاکستان جیسے طاقتور گروپ نے تو پولیس ریفارمز نہیں ہونے دیں۔ حکومت کو چاہیے کہ عوام کی حفاظت پرمامور پنجاب پولیس کے افسروں اور ملازمین کی دہائی بھی سنے۔
18 ویں ترمیم کے بعد پولیس کے معاملات صوبائی حکومتوں کے دائرہ اختیار میں آ چکے ہیں۔ جب تک صوبائی حکومتیں ترقیاں کرتی رہیں کسی کو کوئی اعتراض نہ تھا اور معاملات بخوبی چل رہے تھے۔ اب آئین اور قانون کے مطابق پنجاب حکومت بھی دیگر صوبوں کی طرح بااختیار ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان اختیارات کا بروقت اوردرست استعمال کرکے پنجاب پولیس میں جونیئر کیڈر پر انسپکٹروں اور سب انسپکٹروں کی انڈکشن کا سلسلہ دوبارہ شروع کیا جائے تاکہ فورس میں جوان خون شامل ہونے سے محکمہ کی کارکردگی میں بہتری آسکے، اس کے علاوہ ملازمین میں پائی جانے والی بے چینی اور اضطراب کو بھی ختم کیا جاسکے۔