• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ ہفتے کے کالم کے بعد پاکستان سے اس موضوع سے متعلق بڑی تعداد میں ای میل موصول ہوئی ہیں جن میں اس مسئلے کے حل اور خواندگی کی شرح میں اضافہ سے متعلق کئی ایک تجاویز پیش کی گئی ہیں لیکن فی الحال میرا مقصد اپنے ذہن میں موجود تجاویز کو قارئین کی خدمت میں پیش کرنا ہے اور اگر بعد میں کبھی موقع ملا تو پھر قارئین کی تجاویز کو بھی پیش خدمت کرنے کی کوشش کروں گا۔ میں نے گزشتہ کالم میں پاکستان میں تعلیم کی عمومی صورتحال کو پیش کرنے کے ساتھ ساتھ پورے ملک میں یکساں نظام ِتعلیم اور یکساں نصاب پر عملدرآمد کرنے کی ضرورت پر زور دینے کے ساتھ ساتھ پاکستان کے تمام اقسام کے اسکولوں اور مدارس میں یکساں سلیبس پر عملدرآمد کرنے کی اہمیت کو بھی اجاگر کرنے کی کوشش کی تھی۔ پاکستان کے مختلف صوبوں میں اے لیول سسٹم سے چلنے والے اسکولوں کو چھوڑ کر تمام اقسام کے اسکولوں کا سلیبس بڑا فرسودہ ہے اور جسے دنیا کے تقریباً تمام ممالک ترک کر چکے ہیں کیونکہ یہ سلیبس موجودہ دور کے تقاضوں کو پورا نہیں کرتا ہے اور اس سے صرف کلرکوں اور سرکاری ملازمین کو پڑوان چڑھانے ہی کا موقع میسر آتا ہے۔ مجھے معلوم ہے کہ ہمارے بہت سے قارئین اور ماہرین اے لیول سسٹم کے انگریزوں کا سسٹم ہونے کا ذکر کرتے ہوئے اس سلیبس کا جائزہ لئے بغیر ہی اسے مسترد کرنے کی اپنی قیمتی رائے سے آگاہ کرنے سے گریز نہیں کریں گے اے لیول سسٹم کو پاکستان کے حالات کے عین مطابق ڈھالا جاسکتا ہے جیسا کہ بھارت ، ملائیشیا، سنگاپور اور دنیا کے مختلف ممالک نے کیا ہے۔ اسی طرح پاکستان میں بھی اس سسٹم کو حالات کے مطابق ڈھالتے ہوئے عملدرآمد شروع کیا جاسکتا ہے۔(یہاں میری مراد انگریزی ذریعہ تعلیم نہیں ہے اس پر بعد میں تفصیلی روشنی ڈالوں گا) اس سے نہ صرف پاکستان کے طلبہ کے معیار کو بہتر بنانے میں مدد ملے گی بلکہ ان اسکولوں سے فارغ التحصیل ہونے والے طلبہ کو دنیا کی کسی بھی یونیورسٹی میں بغیر کسی مشکلات کے داخلہ حاصل کرنے میں آسانی حاصل ہو جائے گی۔ یہاں پر یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ پاکستان کے عوام خاص طور پر طلبہ کا IQ لیول دنیا کے دیگر ممالک کے عوام اور طلبہ کے IQ لیول کے مقابلے میں بہت زیادہ بلند ہے جس سے ہمیں استفادہ کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک سال قبل ایک بین الاقوامی ادارے کی جانب سے دنیا بھر میں IQ لیول سے متعلق کرائے گئے سروے سے پتہ چلتا ہے کہ پاکستان میں تمام تر منفی حالات اور دہشت گردی کے باوجود عوام اور طلبہ I Q لیول کے لحاظ سے دنیا میں چوتھے نمبر پر ہیں لیکن کتنی ہی بدقسمتی ہے کہ عوام اور طلبہ کے ذہنی استعداد کے لحاظ سے دنیا کے گنے چنے ممالک میں شامل ہونے کے باوجود انہیں دقیانوسی اور فرسودہ نظام ِتعلیم کا پابند بنا دیا گیا ہے۔ پاکستان ان خوش قسمت ممالک میں سے ایک ہے جس کے ماہرینِ تعلیم کی خدمات سے غیر ممالک ہمیشہ ہی استفادہ کرتے چلے آرہے ہیں۔ (کتنے افسوس کی بات ہے پاکستان خود ان کی خدمات سے استفادہ کرنے سے محروم ہے)۔
یکساں نظام ِتعلیم وضع کرنے کے بعد جس چیز کی سب سے زیادہ ضرورت ہے وہ بلاشبہ اردو کو عربی رسم الخط کے ساتھ ساتھ لاطینی یا رومن رسم الخط میں تحریر کرنے کا سرکاری طور پر بندوبست کرنا ہے۔ مجھے معلوم ہے پاکستان میں ایسے قارئین جو اردو زبان کو عربی رسم الخط میں لکھنے کی حمایت کرتے ہیں میری اس تجویز کی مخالفت کریں گے اور مجھ پر بھی پاکستانی عوام کو قرآن کریم پڑھنے سے دور لے جانے کا الزام لگائیں گے لیکن میں عربی رسم الخط کے ساتھ ساتھ لاطینی یا پھر رومن رسم الخط کو بھی سرکاری طور پر استعمال کرنے کے حق میں ہوں( دونوں کو بیک وقت استعمال کیا جاسکتا ہے۔ ) کیونکہ اب اردو زبان استعمال کرتے وقت رومن یا پھر لاطینی رسم الخط پورے پاکستان میں بھرپور طریقے سے استعمال کیا جا رہا ہے اور اسی رسم الخط کو استعمال کرتے ہوئے ملک میں خواندگی کی شرح کو سو فیصد تک بڑھایا جا سکتا ہے۔ موجوہ دور کمپیوٹر اور موبائل فون کا دور ہے۔ پاکستان میں اس وقت نوّے فیصد سے زائد لوگ اپنی روزمرہ زندگی میں فیس بک ، ٹوئٹر اور ایس ایم ایس استعمال کرتے وقت اردو کو لاطینی یا پھر رومن رسم الخط میں تحریر کرنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ (ان تمام لوگوں نے خود ہی رومن رسم الخط میں لکھنے لکھانے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ انہیں کسی نے زبردستی اس راہ پر گامزن نہیں کیا ہے) کیا کبھی کسی نے اس کی وجہ جاننے کی کوشش کی ہے؟ اس کی سب سے بڑی وجہ کمپیوٹر اور موبائل فون میں اردو زبان کو عربی رسم الخط میں تحریر کرنا بڑا مشکل کام ہے۔ اردو زبان کے لکھاریوں اور صحافیوں کو چھوڑ کر بہت ہی کم تعداد میں آپ کو لوگ اردو کو عربی رسم الخط میں لکھتے ہوئے دکھائی دیں گے۔ اس کی ایک وجہ کمپیوٹر اور موبائل فون میں اردو فونٹس یا اردو keyboard کے استعمال میں مشکلات کا سامنا کرنا ہے۔ اگرچہ مختلف ویب سائٹ سے اردو کی بورڈ کو ڈاؤن لوڈ کیا جاسکتا ہے لیکن یہ کی بورڈ (تختی) ایک دوسرے سے بڑے مختلف ہیں اور پاکستان کی نیشنل لینگویج اتھارٹی اس سلسلے میں کوئی قطعی کی بورڈ بھی تیار نہیں کرسکی ہے ( یہاں میری مراد فونیٹک کی بورڈ ہے کیونکہ زیادہ تر انگریزی کے ساتھ ساتھ اسی کی بورڈ کو استعمال کیا جاتا ہے) اور اس وقت مارکیٹ میں کئی ایک کی بورڈز استعمال کئے جارہے ہیں جو ایک دوسرے سے بڑے مختلف ہیں لیکن اگر اس سلسلے میں نیشنل لینگویج اتھارٹی کوئی سنجیدہ قدم اٹھاتی تو زیادہ مناسب ہوتا اور اس مسئلے کو اِس وقت تک حل کرلیا ہوتا۔دنیا کے مختلف ممالک میں اس قسم کے ادارے وقت سے پہلے ہی قدم اٹھالیتے ہیں اور پورے ہی ملک میں یکساں قسم کا کی بورڈ استعمال کرنے کا بندوبست کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر ترکی کے ادارہِ لسان ترکی نے ملک بھر میں دو کی بورڈز استعمال کرنے کا بندوبست کررکھا ہے جن میں سے ایک Qکی بورڈ ہے تو دوسرا F کی بورڈ ہے۔
Keyboard کے مسئلے کو حل کرنے کے بعد ہمیں اردو تحریر کرنے میں جس دیگر مسئلے کا سامنا کرنا پڑرہا ہے وہ اردو زبان کا خط ِ نستعلیق میں تحریر کیا جانا ہے۔ موجودہ دور میں صرف اردو زبان ہی خطِ نستعلیق میں تحریر کی جاتی ہے جبکہ عربی اور فارسی زیادہ ترخطِ نسخ میں تحریر کی جاتی ہے۔عربی اور فارسی زبانوں کے خطِ نسخ میں تحریر کئے جانے کے باعث ان زبانوں میں کمپیوٹر اور موبائل فون (ایس ایم ایس تحریر کرنے کے دوران) استعمال کرنے کے دوران کسی قسم کی مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑتا ہے کیونکہ خطِ نسخ میں تمام الفاظ ایک دوسرے سے ملتے وقت بھی ان کی اشکال میں کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوتی ہے اور متعلقہ لفظ اپنی شکل ہر صورت میں برقرار رکھتا ہے جبکہ خطِ نستعلیق میں ایک حرف جب دوسرے حرف سے ملتا ہے تو اس سے کئی ایک اشکال سامنے آ جاتی ہیں اور بعض اوقات ان اشکال کی تعداد 32سے بھی زائد ہو جاتی ہے جو اردو زبان کو خطِ نستعلیق میں تحریر کرنے میں مشکلات کا باعث بنتا ہے اور کمپیوٹر کی اسپیڈ بھی اس سے متاثر ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ بی بی سی اردو، وائس آف امریکہ کی اردو سروس اور دیگر ممالک کی اردو سروسز خطِ نستعلیق میں اپنی ویب سائٹ کو پیش کرنے سے کتراتی ہیں اور اپنی ویب سائٹ کو خطِ نسخ میں پیش کرتی ہیں حالانکہ اردو کے قارئین کے لئے خطِ نسخ پڑھنا کوئی آسان کام نہیں ہوتا ہے۔البتہ پاکستان کے اخبارات جن میں روزنامہ جنگ پیش پیش ہے تصویری شکل کے ساتھ ساتھ خط ِنستعلیق میں ویب سائٹ کو جگہ دینے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ اسی طرح ترکی میں اردو کی سرکاری ویب سا ئٹ trturdu.comبھی اپنی ویب سائٹ خط نستعلیق ہی میں پیش کررہی ہے کیونکہ روزمرہ زندگی میں اردو زبان کے لئے خطِ نستعلیق (جو خوبصورتی میں اپنا ثانی نہیں رکھتا) ہی مناسب سمجھا جاتا ہے۔ اس خط کے کمپیوٹر میں زیادہ جگہ لینے اور موبائل میں اس خط کے موجود نہ ہونے (صرف خصوصی طور پر ہی موبائل میں اسے جگہ دی جاتی ہے) کی بنا پر کئی ایک مسائل درپیش ہیں جس کی طرف نیشنل لینگویج اتھارٹی نے شاید ہی کبھی توجہ دی ہو۔ اس لئے اس مسئلے پر قابو پانے اور خواندگی کو بہتر بنانے کے لئے لاطینی یا پھر رومن رسم الخط کو سرکاری طور پر استعمال کرنے کا بندوبست کرنے کی ضرورت ہے۔
تازہ ترین