طالبان کی جانب سے اقتدار سنبھالنے کے بعد افغان عوام میں جو خوف وہراس پھیلا، وہ ایک ماہ گزرنے کے باوجود برقرار ہے۔ عوام کا بڑے شہروں سے دیہات اور بیرونِ مُلک منتقلی کا سلسلہ ہنوز جاری ہے، بلکہ ہر گزرتے دن اس میں اضافہ ہو رہا ہے۔ افغان خواتین کی پوری فُٹ بال ٹیم نے سخت قوانین کے خوف سے مُلک چھوڑ کر ان خدشات پر مُہرِ تصدیق ثبت کی، تو دوسری طرف اقوامِ متحدہ نے بھی افغانستان میں انسانی المیہ رُونما ہونے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔ہجرت کا یہ سلسلہ سابق سوویت یونین کی جارحیت کے بعد شروع ہوا اور اب تک کسی نہ کسی شکل میں جاری ہے۔
گو کہ اِس دَوران افغانوں نے اپنی حکومتیں بھی قائم کیں، مگر عوام کے خدشات پھر بھی کم نہ ہوسکے۔طالبان نے رواں برس 15اگست کو کسی بڑی مزاحمت کے بغیر کابل پر قبضہ کیا، تو شہریوں سے پُرامن رہنے اور مُلک نہ چھوڑنے کی اپیل کی، مگر تمام تر یقین دہانیوں کے باوجود شہری اپنے مُلک میں رہنے کو تیار نہیں ہیں۔
دراصل، عوام طالبان کی گزشتہ حکومت کے تلخ تجربات کی وجہ سے خوف زدہ ہیں، جس کے سبب مُلک میں افراتفری کا عالَم ہے۔امریکی فوج کے انخلا کے آخری دنوں میں مُلک چھوڑنے کے لیے بے تاب شہریوں کی جہازوں سے لٹک کر اپنی جانیں گنوانے کی کہانیاں زیادہ پرانی بات نہیں۔
افغان عوام کا خیال ہے کہ جب طالبان کی باقاعدہ حکومت قائم ہوگی، تو وہ ماضی کی طرح سخت قوانین لاگو کریں گے۔ انسانی حقوق، خاص طور پر خواتین کے حقوق کی پامالی کا سلسلہ شروع ہو جائے گا، جس کے آثار نظر آنا بھی شروع ہوچُکے ہیں۔کابل سے موصولہ اطلاعات اور عالمی میڈیا کے مطابق وہاں افغان خواتین کو کام سے روکا جا رہا ہے۔
اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے مطابق، افغانستان میں برسوں سے جاری جنگ کے باعث ساڑھے چھے لاکھ سے زاید شہری اپنے ہی مُلک میں ہجرت پر مجبور ہوئے ہیں، جن میں 21فی صد مرد،21 فی صد خواتین، جب کہ 58فی صد بچّے شامل ہیں۔ حالیہ رپورٹ کے مطابق، رواں سال ایک لاکھ بیس ہزار افغانوں نے ضلع کابل سے مُلک کے دیہی علاقوں کی جانب ہجرت کی۔
گو کہ یو این ایچ سی آر کی جانب سے بے گھر افغانوں کو خوراک اور شیلٹرز وغیرہ فراہم کیے جارہے ہیں، تاہم متاثرین کی بڑھتی تعداد کے باعث ان کے لیے مزید امداد کی ضرورت پر بھی زور دیا گیا ہے۔ عالمی ادارے نے افغانستان کے ہم سایہ ممالک سے اپیل کی ہے کہ وہ بے گھر ہونے والے افغانوں کے لیے اپنی سرحدیں کھول دیں۔
اگرچہ حکومتِ پاکستان کی جانب سے واضح بیان سامنے آیا ہے کہ’’ پاکستان مزید افغان مہاجرین کا بوجھ برداشت نہیں کرسکتا،اِس لیے نئے افغان مہاجرین کو خوش آمدید نہیں کہا جائے گا‘‘، تاہم، خیبر پختون خوا حکومت نے افغانستان کے ساتھ ملحقہ سرحدی علاقوں میں تین مختلف مقامات پر مہاجر کیمپس کے انتظامات مکمل کرلیے ہیں۔
حکومتِ پاکستان نے ابھی تک سرکاری طور پر ان کیمپس کے قیام کی تصدیق یا تردید نہیں کی، مگر پشاور میں افغان کمشنریٹ کے اعلیٰ ذرائع اِس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ پانچ سے سات لاکھ نئے افغان مہاجرین کے پاکستان آنے کے امکانات ہیں، جس کی وجہ سے ضلع خیبر میں لوئے شلمان، ضلع چترال میں ارندو اور ضلع شمالی وزیرستان میں غلام خان کے مقام پر ایسے کیمپس کے قیام کے انتظامات کیے گئے ہیں، جنہیں افغان مہاجرین کے آنے کی صُورت میں باقاعدہ کیمپس میں تبدیل کیا جاسکے گا۔ خیبر پختون خوا میں پہلے ہی 14لاکھ رجسٹرڈ افغان پناہ گزین رہائش پذیر ہیں، جب کہ تین لاکھ سے زاید غیر رجسٹرڈ افغان مہاجرین بھی علاقے میں موجود ہیں۔
عالمی ادارے کی نئی رپورٹ کے مطابق افغانستان میں طالبان کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد مُلک چھوڑنے والے افغان باشندوں کی تعداد میں اضافہ ریکارڈ کیا جا رہا ہے۔تازہ اعداد و شمار کے مطابق، اِس سال یکم جنوری سے22 جولائی کے درمیان، یعنی غنی حکومت کا تختہ الٹنے سے پہلے، تقریباً 4 ہزار افغان باشندے ایران، پاکستان اور تاجکستان منتقل ہوئے۔ جولائی سے 22 ستمبر تک یہ تعداد بڑھ کر35ہزار400 تک پہنچ گئی، جو مہاجرین کی تعداد میں 9 گُنا اضافہ ہے۔
رپورٹ کے مطابق، پاکستان، ایران اور تاجکستان منتقل ہونے والے افغانوں کی اکثریت کے پاس کسی قسم کی کوئی قانونی دستاویز موجود نہیں، اِن افراد نے طالبان حکومت کے قیام کے بعد سیکوریٹی خدشات کے باعث مُلک چھوڑا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اِس سال کم از کم 19ہزار300نئے افغان مہاجرین ایران میں داخل ہوئے، 10ہزار800 نے پاکستان ہجرت کی، جب کہ 5ہزار300 نے تاجکستان میں پناہ لی۔ یو این ایچ سی آر نے علاقائی حکومتوں کو خبردار کیا ہے کہ اگر حالات مستحکم نہیں ہوئے، تو افغانستان سے بڑے پیمانے پر نقل مکانی کا خدشہ ہے۔
یہ اطلاعات بھی موصول ہو رہی ہیں کہ لاکھوں افغان شہری اپنا سامان باندھے پاکستان اور دیگر ہم سایہ ممالک کی سرحدیں کُھلنے اور داخلے کی اجازت کے منتظر ہیں۔ اِس کی ایک وجہ وہ خوف ہے، جو طالبان کے کنٹرول کے ساتھ ہی شہریوں کے سَروں پر منڈلا رہا ہے۔اُنہیں خدشہ ہے کہ طالبان کا رویّہ کسی بھی وقت تبدیل ہوسکتا ہے، ابھی تو اُنھیں اقتدار میں آئے جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے ہیں اور خواتین کی ملازمتوں اور لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی عاید کردی ہے۔
عالمی میڈیا کے مطابق، طالبان نے کچھ علاقوں میں 12سے 45 سال کی عُمر کی خواتین کی فہرستیں طلب کی ہیں تاکہ اُن سے نکاح کیا جاسکے، تاہم طالبان کی جانب سے اِن اطلاعات کی سختی سے تردید کی گئی ہے۔صوبہ غزنی میں ایک مقامی ریڈیو چینل میں خواتین کارکنوں کے کام کرنے اور موسیقی پر پابندی عاید کی ہے، جب کہ بعض علاقوں میں داڑھی منڈوانے پر بھی پابندی کی اطلاعات ہیں، اگر یہ اطلاعات درست ہیں، تو ان سے آنے والے دنوں میں طالبان حکومت کے تیور کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
اقوامِ متحدہ، تنازعے کے تمام فریقین اور ہم سایہ ممالک کو افغانستان میں ایک ایسی حکومت کے قیام کے لیے کردار ادا کرنا ہوگا، جو تمام افغانوں کے لیے قابلِ قبول ہو۔اگر ایسا نہ ہوا، تو طالبان کے ساتھ امن معاہدے کے ثمرات افغان عوام تک نہیں پہنچ پائیں گے اور افغانستان میں ایک اور انسانی المیے کو رُونما ہونے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔
اگر دوبارہ چنگاری بھڑکی، تو اُس سے ہم سایہ ممالک بھی محفوظ نہیں رہ سکیں گے ۔ اِس لیے بھی فریقین کو افغانستان میں پائیدار امن اور مستحکم حکومت کی راہ ہم وار کرنی چاہیے تاکہ 40سال سے جاری بے گناہ افغانوں کی خون ریزی کا سلسلہ ختم کیا جاسکے۔