جدید ٹیکنالوجی کے نمود نے ترقّی پذیر ممالک کے لئے ترقّی کی بہترین راہیں ہموار کر دی ہیں ۔انہی میں سے ایک شعبہ نینو ٹیکنالوجی ہے۔ اس شعبے کی خصوصیات بڑے دلچسپ انداز سے آشکار ہوئی ہیں جب کسی بھی مواد کو نہایت چھوٹے حجم خصوصاً 1سے 100نینومیٹر کے درمیان میں منتقل کیا جاتا ہے تو اس کی مادّی خصوصیات میں نمایاں تبدیلی رونما ہوتی ہے۔ نینومیٹر، میٹر کا ویسا ہی حصہ ہے جیسا کہ ایک ذرّہ زمین کا حصہ ہو۔ مثال کے طور پر اگر سونے کو نینواسکیل پر چھوٹا کیا جائے تو حجم کے مطابق اس کا رنگ ہرا مائل نیلا، سرخ یا جامنی ہو جاتا ہے۔ نوبل انعام یافتگان Smalley اور Kroto نے دریافت کیا کہ اگر گریفائیٹ کو لیزر سے انتہائی اعلیٰ درجہ حرارت پر گرم کیا جائے تو ایک نئے قسم کا کاربن وجود میں آتا ہے جو کہ سالمی (molecular) فٹ بال کی مماثلت رکھتا ہے۔اس سے ادویات کی سست رہائی اور دیگر مواد کی تشکیل کے لئے دلچسپ و عجیب استعمال آشکار ہوئے ہیں ۔نینو ٹیکنالوجی طبّ، ادویات، زراعت، خوراک، پانی کی صفائی، آرائش حسن کا سامان ، بجلی کا سامان اور دیگر شعبوں میں اپنی راہیں بڑی تیزی سے استوار کر رہا ہے۔ نینو ٹیکنالوجی کی منڈی میں آج امریکہ کا سب سے بڑا حصّہ (28%) ہے اس کے بعد جاپان کا (24%) حصّہ اور پھر یورپ کا حصّہ (25% جس میں جرمنی، فرانس اور یوکے شامل ہیں) ہے ۔صرف نینو الیکٹرانک کی منڈی کا تخمینہ4 ٹریلین امریکی ڈالر ہے اور اس میں تیزی سے مزید اضافہ ہو رہا ہے اور اگر زراعت و ادویات کے شعبوں کا اندازہ لگایا جائے تو نینوٹیکنالوجی سے کہیں بہترنتائج اخذ کئے جا سکتے ہیں۔طب کی دنیا میں نینو ٹیکنالوجی کے بے شمار فوائد سامنے آئے ہیں۔ نینو ادویات میں انسانی جسم میں جذب ہونے کی بہترین صلاحیت موجود ہے لہٰذا ان ادویات کی کم مقدار بہتر کارکردگی اور کم ضمنی نقصانات کے ساتھ استعمال کی جا سکتی ہیں۔ طبّی تجزئے کیلئے یہ ٹیکنالوجی بہتر نقول (images) فراہم کر سکتی ہے، مثال کا طور پر کینسر کے خلیوں کی نقول۔ مناسب طریقوں سے انجینئر کردہ Nanoparticles صحتمند خلیوں کو نقصان پہنچائے بغیر بیمار خلیوں تک حرارت، روشنی، اور ادویات پہنچاسکتے ہیں۔
زراعت سے وابستہ نینو مصنوعات کی منڈی کی صورتحال کا تخمینہ 20/ارب امریکی ڈالر لگایا گیا ہے جو تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ نینو ٹیکنالوجی اب مصنوعات کی ذخیرہ اندوزی اور حفاظت کیلئے بھی استعمال ہو رہی ہے۔مثال کے طور پر چاندی کے نینو پارٹیکلز پلاسٹک کے ڈبّوں میں استعمال کئے جا رہے ہیں جو جراثیم مار کر ان مصنوعات کی خوردنی مدّت (shelf life) کو بڑھا دیتے ہیں۔زراعت میں کیڑے مار ادویات کے استعمال کو کم کرنے اور بہتر بنانے کے لئے نینو کیپسول کیڑے مار ادویات کے ساتھ تیارکئے گئے ہیں جو کہ صرف کیڑے کے پیٹ میں جاکر ہی اپنا اثر دکھاتے ہیں اور انسانوں اور پودوں کو ان کے مضر اثرات سے محفوظ رکھتے ہیں۔
سب سے حیرت انگیز مواد جو کہ سائنسی تخیّلاتی زندگی سے بھی ذرا منفرد ہے وہ یہ ہے کہ یہ مواد اپنی ساخت یاد رکھتے ہیں۔ مستقبل میں آپ اسی مواد سے تیّار کردہ موٹر گاڑیاں چلا رہے ہوں گے اور اگر کوئی حادثہ وغیرہ ہو جائے اور گاڑی میں کوئی نشان یا گڑھا پڑ جائے تو پریشانی کی کوئی بات نہیں اپنی یادداشت کی خوبی کی بدولت گاڑی خود بخود اپنی اصل شکل میں واپس آ جائیگی۔ اسی طرح ازخود بھرائی رنگ و روغن (Self-healing paints) بنالئے گئے ہیں۔ اب اگر گاڑی میں کوئی کھروچ یا نشان لگ جائے تو گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں وہ طلسماتی طور پر آپ ہی بھر جائیگا۔ایک اور قابلِ ستائش دریافت بندوق کی گولی روکنے والا کاغذ ہے جو کہ نینو سیلیولوز (nanocellulose) سے تیار کیا گیا ہے جو لوہے سے بھی زیادہ مضبوط ہے اور گولیوں کیلئے ناممکن الدخل ہے۔اس کے علاوہ نینومواد (nanomaterials) سے تیار کردہ نئی دریافتیں منظرِعام پر آ رہی ہیں مثلاً خلائی طیارے، ہوائی جہاز، طویل المیعادی کم وزن بیٹریاں شامل ہیں۔ ایک اور دلچسپ پیشرفت کپڑا سازی کی صنعت میں ایجاد ہوئی ہے ،جہاں مخصوص کپڑے میں مچھر بھگانے کی دوا اس کی بناوٹ میں شامل کر دی گئی ہے۔ اس طرح کیڑوں سے بچاؤ کے لئے کوئی بھی لوشن یا اسپرے کی ضرورت نہیں ہوتی اور یہ خصوصیت کپڑے دھل جانے کے بعد بھی برقراررہتی ہے۔ تقریباً 20 کروڑ افراد سالانہ ملیریا کا شکار ہوتے ہیں جن میں سے 7 لاکھ افراد اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔اس طرح کے لباس ملیریا کی روک تھام میں یا کم از کم اس مرض سے بچاؤ کے لئے نہایت مفید ثابت ہو سکتے ہیں۔ نینو ٹیکنالوجی کااستعمال سستے اور زیادہ مضبوط کپڑوں کی بناوٹ ،ٹینس کے ریکٹوں اور دیگر کھیل کے سامانوں میں ہو رہا ہے۔نینو ٹیکنلوجی کااستعمال کرنے والی کپڑا سازی کی صنعتوں کی منڈی کی حیثیت کا تخمینہ تقریباً 115/ارب امر یکی ڈالر ہے۔اس نینو مواد کی ایک اور خوبی یہ ہے کہ برقی رویا مقناطیسی کشش کی موجودگی میں یہ مختلف اشکال تبدیل کرسکتا ہے۔امریکی فوج ان کو طاقتور اور جاندار بلٹ پروف انسانی سانچوں کی شکل میں بنارہی ہے جو کہ ان کے Robo-Cop سپاہی لڑائی کے دوران پہنیں گے۔یہ سوٹ ان سپاہیوں کی سوچنے کی صلاحیت سے منسلک ہوگا جس کی لہریں ان سپاہیوں کو پھرتی سے عمل کرنے پرمجبور کریں گی۔اسی طرح خفیہ ہیلی کاپٹر اور دیگر زمینی گاڑیوں کی آوازوں کو Smart Memory Alloys کے ذریعے ’noise cloaked‘ یعنی بغیر شور و آواز کے استعمال کیا جاسکے گا۔ وہ سامان جو "metamaterials" کے ذریعے تیار ہو رہا ہے وہ نظروں سے اوجھل ہوگا۔ اب ’ہیری پوٹر‘ کا غائب ہونیوالا چوغہ ایک حیرت انگیز حقیقت ہے۔آلوں اور دیگر اشیاء کو مختصر ترین حجم میں تشکیل دینے کی تکنیک نے جاسوسی کے شعبے کو بھی ترغیب دی ہے اسی سلسلے کی ایک نئی ایجاد چھوٹے کیڑے کے حجم کی مکھیاں بنائی گئی ہیں جن میں کیمرہ اور ساؤنڈ کا نظام نصب ہے۔ انہیں بڑی آسانی سے میلوں دور بیٹھ کر اپنے اشاروں پر نچایا جا سکتا ہے۔ یہ ہماری فوج کے چیف، وزیرِاعظم حتیٰ کہ صدر کے کمرے کی میز یا دیوار پر بیٹھ کر ان کی ساری گفتگو اور تصاویر میلوں دور کسی بھی سفارتخانے تک پہنچا سکتی ہیں۔ خفیہ مواد سے تیار کردہ یہ مکھیاں بیشتر ممالک میں نصب عام جانچ پڑتال کے نظام سے بچ نکلتی ہیں کیونکہ یہ بہت چھوٹے کیڑے کی مانند ہوتی ہیں لہذا معیاری جانچ کے آلے کی پہنچ ان تک نہیں ہو پاتی اور یہ مکمل طور پر محفوظ رہتی ہیں۔مائیکرو الیکٹرونک کے شعبے میں بھی حیرت انگیز پیشرفت ہو رہی ہیں۔ ایک نئے کاربن "graphene" کے برقی آلات مثلاً موبائل فون بیٹریوں پر بڑے عمدہ اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ گریفین شہد کے چھتّے کی شکل کی مانند ایک عنصر کے برابر ہوتا ہے۔ گریفین کی پرتوں) (plates پر مشتمل (lithium ion batteries ) بیٹریوں کی کارکردگی ایک عام بیٹری کی نسبت دس گنا زیادہ ہوتی ہے۔ اس ٹیکنالوجی کا استعمال برقی موٹر گاڑیوں میں بھی کیا جا سکتا ہے تاکہ بہت دور تک گاڑی صرف ایک ہی چارج سے جا سکے۔ نینو ٹیکنالوجی کے شعبے میں ایک اور دلچسپ دریافت برقی ناک ( electronic nose ) کی ایجاد ہے جو کہ نہایت ہی اعلیٰ حساسیت کی بدولت کافی کم مقدار کی منشیات یا دھماکہ خیز مواد کی کھوج لگا سکتی ہے۔ اس کیلئے کاربن کی باریک نلکیوں میں اشارے موصول کرنیوالے receptor داخل کر دیئے جاتے ہیں جب یہ receptor مطلوبہ سالمے کے قریب آتے ہیں تو برقی ناک سے منسلک علامتی گھنٹی بج جاتی ہے۔ کاربن کی نینو نلکیاں انسانی بال سے 10,000 گنا باریک ہوتی ہیں۔ انہیں اب اور بھی دوسرے مقاصد مثلاً پانی کی صفائی کی چھلنی (nanofilters) کیلئے ، امرا ض کی قبل از وقت تشخیص کیلئے اور کچھ خاص حیاتیاتی نشانات (bio markers) کوجانچنے کیلئے بھی استعمال کیا جارہا ہے تاکہ امراض کے پھیلنے سے پہلے ہی ان سے بچاؤ کی تدابیر طے کر لی جائیں۔ نینو نلکیوں کے ذریعے شمسی خلیے بنائے جا سکتے ہیں جنہیں دیواروں اور کھڑکیوں پر پینٹ کر کے صاف شفاف توانائی حاصل کی جا سکتی ہے۔
پاکستان کو اب کسی بھی حال میں اس شعبے کے فروغ سے پیچھے نہیں ہٹنا چاہئے جیسا کہ ہم نے آئی ٹی کے شعبے میں کیا تھا۔ میں جس وقت وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی تھا تو میں نے نینو ٹیکنالوجی کمیشن قائم کیا تھا اور 2001ء میں اسے بہت شاندار طریقے سے متعارف کرایا تھا۔ بد قسمتی سے پچھلی حکومت نے اس شعبے کو ’بیکارشعبہ‘ گردانتے ہوئے اس کمیشن کے تمام پروگرام بند کرا دیئے تھے۔ میری چےئرمین شپ کے دور میں مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے ہزاروں طلبہ HEC کی طرف سے .D Ph کیلئے بھیجے گئے تھے جس میں نینو ٹیکنالوجی کے شعبے سے تعلق رکھنے والے بہت سے طلبہ بھی شامل ہیں جو کہ اب وطن واپس لوٹ رہے ہیں۔اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ان کی تعلیم سے بھر پور فائدہ اٹھایا جائے اور تعلیم و صنعت کے شعبوں میں ان کی خدمات حاصل کر کے ملک کی ترقی کے عمل اور اس کی درآمدات میں اضافہ کیا جائے۔