2013 میں آف شور لیکس 2016 میں پانامہ لیکس، 2017 میں پیرا ڈائز پیپرز کے بعد اب 2021 میں آنے والے پنڈورا پیپرز نے ان دستاویزات کو جن میں عالمی رہنمائوں، حکمرانوں اور اپنے مالدار ہونے کے باعث ’’معتبر معزز ‘‘ شخصیات شامل ہیں ان کو بے نقاب اور ان کی دولت اور اثاثوں کو منکشف کر دیا ہے جس میں پاکستان بھی شامل ہے۔
بعض حکومت مخالف اس توقع اور آس لگائے بیٹھے تھے کہ جس طرح پانامہ لیکس کے نتیجے میں پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف کو اقتدار سے محروم کر دیا گیا وہی تاریخ پینڈورا پیپرز میں بھی دہرائی جائے گی لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہوا گوکہ حکومت کی وفاقی کابینہ کے ارکان، سابق فوجی افسران اہم عہدوں پر فائز شخصیات اور ان کے اہل خانہ کے نام پینڈورا پیپرز کی فہرست میں شامل ہیں لیکن نہ صرف پاکستان کے وزیراعظم کا نام اس فہرست میں موجود نہیں بلکہ وزیراعظم نے غیر مبہم الفاظ میں اس حوالے سے فہرست میں آنے والی شخصیات کے بارے میں پڑتال اور معلومات حاصل کرنے کے عزم کا اظہار کیا ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ اگر اس فہرست میں کسی کے حوالے سے کچھ غلط ثابت ہوا تو مناسب کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔
انہوں نے عالمی برادری سے بھی اپیل کی کہ اس صورت میں ناانصافی کے تدارک کا بھی بدرجہ اتم اہتمام کیا جائے۔ اس حوالے سے وزیر اعظم کی سربراہی میں اگلے ہی دن جو اجلاس ہوا اس میں پینڈورا پیپرز میں آنے والی پاکستانی شخصیات کے حوالے سے تحقیقات شروع کرنے کا بھی فیصلہ ہوا بلاشبہ وزیراعظم کی جانب سے یہ اقدام قابل ستائش ہے اور دنیا میں پاکستان کی ساکھ کے حوالے سے بھی اہم ۔
تاہم اپوزیشن کا مطالبہ ہے کہ تحقیقات میں خود وزیراعظم کو بھی شامل کیا جائے دوسری طرف افغانستان کی صورتحال کے تناظر میں بالخصوص اور اس حوالے سے خطے کے ممالک کی ’’دلچسپی اور تفکرات‘‘ کے پیش نظر پاکستان کو عالمی سطح پر بھرپور توجہ مل رہی ہے اور اس صورتحال میں پاکستان کا موقف جرأتمندی سے پیش کرنے پر وزیراعظم عمران خان بھی بین الاقوامی میڈیا کی خصوصی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے وزیراعظم کا موقف دنیا بھر میں دیکھا، سنا اور سمجھا جاتا ہے۔
ان غیر ملکی نشریاتی اداروں کی جو وزیراعظم پاکستان کا انٹرویو کرنا چاہتے ہیں ان میں بعض ادارے وزیراعظم کی ’’ کپتان سے وزیراعظم تک‘‘ کی زندگی پر دستاویزی فلم بھی بنانے کے خواہشمند ہیں۔ تاہم بات وہی ہے کہ بین الاقوامی منظر پر تو وزیراعظم پاکستان کی پذیرائی بھرپور انداز میں کی جارہی ہے لیکن داخلی سطح پر 2018کے عام انتخابات میں ان کی شاندار پذیرائی کرنے والے عوام اب ان سے شاکی ہیں جس کی سب سے بڑی وجہ ملکی معیشت کے حوالے سے کئے جانے والے حکومتی فیصلوں کے باعث ملک میں ہونے والی مہنگائی ہے اور اب تین سال گزرنے کے بعد عوامی طبقات بھی یہ سمجھتے ہیں کہ وزیراعظم کی ترجیحات کی فہرست میں ملک کے غریب اور ضرورت مند عوام نچلی سطح پر ہیں۔
اور اب تو خود وزیراعظم بھی ملک میں مہنگائی کا اعتراف اور تذکرہ اپنی تقریروں میں کرتے ہیں لیکن اعتراف اور تذکرہ مسئلے کا حل نہیں پٹرولیم کی مصنوعات میں مسلسل اضافہ روزمرہ استعمال کی اشیا میں مہنگائی کا ایک بنیادی عنصر سمجھا جاتا ہے اگر حکومت نے جلد ہی اس صورتحال پر قابو نہ پایا تو ۔ عوام کے خیالات اور جذبات پر قابو پانا مشکل ہو جائے گا۔یوں تو موجودہ حکومت اور اپوزیشن دونوں ہی نے قومی اسمبلی کے اجلاسوں میں نئے نئے ریکارڈ قائم کئے ہیں کبھی اپوزیشن کے سینئر رکن اسمبلی کی جانب سے قومی اسمبلی کے اسپیکر اسد قیصر کا مائیک توڑنے کیلئے حملہ کیا گیا اور انہیں جوتا مارنے کی بھی اعلانیہ دھمکی دی گئی۔ کبھی حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ہنگامہ آرائی کے دوران فحش اشارے اور برہنہ گالیاں دی گئیں۔
اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف بھی حکومتی ارکان کی جانب سے ان کارروائیوں کی زد میں آئے تو دوسری طرف ایوان کے بزنس میں بھی خود اسپیکر کی جانب سے بھی کارروائی چلانے کا نیا ریکارڈ قائم کیا گیا کہ ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری نے صرف دو گھنٹے کے دورانئے میں مجموعی طور 21بل پیش کئےاور اپوزیشن کی ہنگامہ آرائی احتجاج اور بولنے کا موقع نہ دیئے جانے پر انہیں منظور بھی کر لیا ۔ سیشن کے آخری روز ہونے والے اجلاس میں پارلیمانی امور کیلئے وزیراعظم کے مشیر ڈاکٹر بابر اعوان نے پارلیمنٹ کا مشترکہ بلاکر انتخابی اصلاحات کا بل پیش کرنے کی تحریک پیش کی جو منظور کر لی گئی اور اب پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کی تیاری کی جا رہی ہے۔
جس کی حتمی تاریخ کا اعلان جلدہی ہو سکتا ہے انتخابی اصلاحات بل منظور کرانے کیلئے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلانے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟اس کی وجہ دونوں ایوانوں میں حکومتی ارکان کی تعداد سامنے ہے قومی اسمبلی میں نہ صرف حکومتی جماعت کو سادہ اکثریت حاصل نہیں ہے بلکہ اتحادی جماعتوں کے ارکان کو شامل کر کے بھی دو تہائی اکثریت حاصل نہیں ہو سکتی۔ اس لئے اپوزیشن جو انتخابی اصلاحات کے بل کی شدید مخالفت کر رہی ہے وہ اس بل کی منظوری نہیں ہونے دیگی اور اگر ایسا ممکن ہو بھی جائے تو سینٹ میں اپوزیشن اپنی اکثریت کے باعث اس کی منظوری نہیں دے گی۔
اس لئے اس بل کو منظور کرانے کا واحد پارلیمانی حل اور راستہ مشترکہ اجلاس میں ہی اس کی منظوری ہے جو حکومت نے اختیار کیا ہے انتخابی اصلاحات کیلئے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مفاہمت کی تمام کوششیں ناکام ہو چکی ہیں اور بات مذاکرات تک بھی نہیں پہنچ پائی اس لئے حکومت کے پاس یہ جوازبھی موجود ہے کہ اپوزیشن کی جانب سے مذاکرات کیلئے عدم تعاون کے باعث انہوں نے اس بل کو مشترکہ اجلاس میں لانے کا فیصلہ کیا۔اس بل کے دو اہم نکات میں ووٹنگ کے طریقہ کار کو تبدیل کر کے الیکٹرانک ووٹنگ مشینز (E.V.M.S)کے ذریعے 2023کے انتخابات کو جدید طریقے سے متعارف کرانا ہے جبکہ دوسرا حوالہ بیرون ممالک سکونت پذیر پاکستانیوں کو ووٹ دینے کا حق فراہم کرنا ہے۔
اصولی طور پر یہ حکومت کے یہ دونوں مجوزہ اقدامات اور تجاویز بالکل درست ہیں لیکن چونکہ پاکستان کی تاریخ میں اس جانب یہ پہلی ابتدا ہے اس لئے ان معاملات میں کچھ دشواریاں اور دقتیں بھی نظر آئی ہیں وہ بھی حکومتی اقدامات کے بارے میں تذبذب کا شکار ہے اور بعض تحفظات رکھتی ہے۔ اس صورتحال میں اگر مشترکہ اجلاس میں حکومت انتخابی اصلاحات کا بل اپوزیشن سے مشاورت اور ان کے تحفظات کے بغیر منظور کرا لیتی ہے اور الیکشن کمیشن کے اعتراضات کو بھی نظرانداز کرا دیتی ہے تو ظاہر ہے اپوزیشن اپنی شکست کی صورت میں حکومت کی کامیابی کو بھی کسی صورت تسلیم نہیں کرے گی اور پھر اس کے احتجاج، تحریک دھرنوں، واک آئوٹ، بائیکاٹ کا جواز پیدا ہوگا اور ملک ایک بار پھر غیر یقینی فضاء اور عدم استحکام کا شکار ہوگا۔